بھیم گڑھ قلعہ ریاسی محکمہ آثار قدیمہ کی نظروں سے اوجھل،انتظامیہ کی عدم توجہی باعث تشویش

0
0

تاریخی قلعہ اگر کچھ مدت تک ایسے ہی بھولابِسرارکھا گیا ،تو ماضی کا یہ عظیم شاہکار کھنڈرات میں تبدیل ہو جائے گا
شاہ نواز

ریاسی ؍؍بھیم گڑھ قلعہ جو عام طور ریاسی قلع کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ قلعہ شہر جموں سے تقریباً64کلومیٹر دور شمال مغرب میں واقع ہے۔یہ قلعہ ایک پہاڑ پر ہے جو تقریاً ڈیڑھ سو کلومیٹر اونچا ہے۔ابتداء میں یہ مٹی سے تعمیر کیا گیا تھا۔بعد میں اسے پتھر سے تعمیر کیا گیا۔قلعہ کی تزئین و آرایش کا آغاز جموں و کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ نے سنہ1817میں کیا تھا اور یہ 1841تک جاری رہا۔چاروں اطراف سے ایک داخلی دروازہ اور ایک پتھر کی ایک دیوار میٹر چوڑی اور پچاس میٹر لمبی تعمیر کی گئی تھی۔مرکزی داخلہ گیٹ پتھروں سے بنا ہوا ہے جس میں راجاستھانی نقش ونگار ہیں۔سامنے کے دیواروں میں چھٹیاں ہیں۔اس میں دیوی ماں کالی اور ہنومان کی مورتی نسب ہے۔قلعہ میں ایک مندر ایک تالاب مختلف اقسام کے کمرے اور ایک خزانہ ہے۔مہاراجہ گلاب سنگھ کی موت کے بعد ان کے وارث مہاراجہ رنبیر سنگھ اور مہاراجہ پرتاب سنگھ نے بھیم گڑھ قلعہ کو خزانے اور اسلحہ خانہ کے طور پر استعمال کیا۔لیکن اس کے بعد خزانے کو جموں منتقل کیا گیا۔بھیم گڑھ قلعہ کو 1989میں ریاستی حکومت کے حکم پر جموں کشمیر اثار قدیمہ کے حوالے کیا گیا تھا 1990 میں اس قلعہ کو ویشنودیوی استھا پنابورڈ نے تزئین و آرائش کی تھی۔اردگرد کے علاقوں کو باغات اور ریاستوں کی تعمیر کے ساتھ ایک پہلو بنا دیا گیا تھا۔اس کے بعد قلعہ کو عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔اگرچہ یہ قلعہ زلزلے اور بغیر دیکھ بھال کے فقدان سے تباہ ہوا ہے۔لیکن یہ شہر میں ایک اہم مقام کی حیثیت سے کھڑا ہے اور آثار قدیمہ اور صوبہ جموں کے لیڈرشپ کی کہانی پیش کررہا ہے۔موجودہ وقت میں اس قلعہ کی حالات انتہائی خستہ ہو چکی ہے۔محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی اور جموں کی لیڈرشپ کی لاپرواہی کی وجہ سے قلعہ کے آس پاس اور اندر جھاڑیاں اگ آئی ہیں۔اور انسان قلعہ کے اندر داخل ہونے سے گھبراتا ہے۔قلعہ کے آس پاس صفائی کا فقدان ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔گوکہ بھیم گڑہ قلعہ کی تاریخ اور اس کا خوش حال ماضی جاننے کے بعد دور دور سے یہاں سیاہ سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔لیکن داخلہ گیٹ کے اندر قدم رکھتے ہی گندگی کے پڑے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں تو مایوس ھو کر واپس لوٹ آتے ہیں۔فٹ پاتھ پر کوڑا کرکٹ گندگی کے ڈھیر اور آس پاس جھاڑیوں سے گزارتے ہوئے جب انسان قلعہ کے اندر داخل ہوتا ہے تو گبھراہٹ ہو جاتی ہے۔کیونکہ قلعہ کی اندر حالات بھی قابل رحم ہے۔صفائی سْتھرائی کے نظام کی بات تو دور کی بات لیکن یہاں پر آثار قدیمہ کا کوئی اہل کار دکھائی بھی نہیں دیتا۔جس سے یہ محسوس کیا جاتا کہ تباہی و بربادی کی آخری کار پر یہ قدیمی اثاثہ واقعی آثار قدیمہ کے کنٹرول میں نہیں ہے۔اگر اس قلعہ پر توجہ نا دی گئی تو چند ہی برسوں میں یہ ماضی کا شاہکار بھیم گڑھ قلعہ بہت جلد قصہ ہارینہ بن جائے گا۔حکومت کی عدم توجہی کا جو عالم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس سے یہ صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بہت جلد آثار قدیمہ کے اس قیمتی نمونے کا نام و نشان مٹ جائے گا۔پھر نہ کوئی گڑھ دیکھائی دے گا نا کوئی گڑھ بڑھ۔لیکن مقامی لیڈرشپ بلخصوس صوبہ جموں کی لیڈرشپ سے اہلیان ریاسی کا مطالبہ ہے کہ اس بیش قیمتی عوامی اثاثہ کو بچانے کے لیے خواب غفلت سے بیدار ہو جائے اور حکام بالا کے کانوں تک یہ آواز پہنچائے تاکہ آنے والی نسلیں اس قیمتی اور تاریخی اثاثے کی تاریخ سے محروم نہ ہو جائے ۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا