کالم نویس: مفتی ابو ابراہیم مشیر عالم قاسمی
سابق استاذ جامعہ مرکز المعارف بھٹنڈی جموں وکشمیر
استاذ حدیث دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار
8544337456
یہ سطور ضبط تحریر میں لاتے ہوئے قلم کی زبان گنگ ہو تی جارہی ہے۔ اور نوکِ قلم سے غم کے دھبے سفید کاغذ کو سیاہ بنارہے ہیں۔ کیونکہ صلبی اولاد کی طرح دل کی اتھاہ گہرائیوں میں بسنے والے عزیزم محمد طیب قاسمی سلمہ کی زبانی کل یہ نہایت ہی الم انگیز ناگہانی حادثہ پردہ صماخ سے ٹکڑا یا کہ برسوں سے اسلامی شریعت وحکمت اور علم وعرفان کی اپنی شیریں اور مشک وعنبر سے دھلی ہوئی زبان سے حدی خوانی کر نے والے بلبل کشمیر ، صدق وصفا کا پیکر حضرت مفتی فیض الوحید صاحب قاسمی تقریباً پندرہ دن تک موت وحیات کی کش مکش میں مبتلا رہ کر ہر طرح کی تدبیر وچارہ سازی ، فکر مندی اور علاج ومعالجہ کی سعی بے پناہ کے باوجود جاں نبر نہ ہوسکے۔ وقت موعود آگیااور اس دار فانی سے دار بقا کو کوچ کر گیے۔ بہت دیر تک یقین نہیں آیا۔ دل یہ تمنا کرتا رہا کہ کاش یہ خبر غلط ثابت ہو جاتی۔ غلط فہمی سے وینٹیلیٹر پر بیہوشی کے عالم میں لیٹنے کو ڈاکٹروں نے موت باور کر انتقال کا اعلان کر دیا ہو۔ لیکن دل کو یقین کرنا ہی پڑا۔کیوںکہ مجھ جیسے بے شعور اور فراست وبصیرت سے یکسر عاری انسان کو بھی وینٹیلیٹر پرجانے کی بعد موجودہ وبا کی ستم ظریفی کے اکثر تجربوں سے دل کے خاموش گوشوں میں بہت تیزی سے یہ آواز سنائی دے رہی تھی کہ شاید یہ مرد خدا دوبارہ اپنی دید سے ہم محببین کو لذت یاب نہیں کرے گا۔
بہت سے احساسات وجذبات ایسے ہو تے ہیں جن کی صحیح تعبیر کیلیے انسان اپنی تمام ترنثری وشعری وادبی صلاحیتوں کے باوجود الفاظ ڈھونڈنے میں ناکام رہتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ الفاظ کے سارے خزانے میں ان کی ترجمانی کیلئے کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔ حضرت کی خبر وفات سن کر میں اسی طرح کے احساسات سے دوچار ہوا اور اب تک ہوں۔ کیونکہ شخصیات سے متاثر اور مرعوب ہونا میری فطرت میں داخل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود حضرت مفتی صاحب میرے دل کے نہاں خانوں میں اس درجہ رچے بسے ہیں کہ میلوں دوری اور لمبے عرصہ سے فاصلہ کے باوجود جب بھی حضرت کی یاد آتی ہے دل محبت وعظمت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ جب سے ان کی علالت کی خبر سنی میرے دماغ کے اسکرین پر ان کے ساتھ بیتے ہوئے لمحوں کے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت یادوں کا نقشہ ابھرنے لگا۔ اور یہ خیال وفکر پر اس طرح چھا گیا کہ میں صرف اسی پر غور کر نے لگا۔ ان کی ممتاز شخصیت ، منفرد شبیہ زندگی کی راہوں اور علم وفکر کی شاہراہوں پر ان کی پیہم دوڑ اور مسلسل سرگرمیوں کے انمول تصویریں اجاگر ہو تی اور دعوت نظارہ دیتی رہیں۔ ایک ہفتہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ میں اپنے وطن عزیز بہار میں نہیں بلکہ جنت نشاں کشمیر میں ہی ہوں۔وفات کی خبر سن کر دل بہت مغموم ومضطرب ہوا ۔ طبیعت چاہ رہی تھی کہ اے کاش ! ان بے بس بازوں میں عقابی پر لگ جاتے۔میں اڑ کر جاتااور آخری دید سے بہرہ ور ہوتا۔ پیشانی پر بوسہ دیتا اور ’’طبت حیا ومیتا ‘‘ کہتے ہوئے سنت صدیقی ادا کر تا۔ لیکن ممکن نہیں تھا اور نہ ہوسکا۔
حضرت کی اچانک وفات علمی و دینی حلقوں کے لیے نہایت ہی افسوس ناک اور باعث رنج والم ہے ۔ اس لئے کہ یہ ایسے پر عزم اور بیدار مغز ادھیر عمر کی وفات ہے جس نے اپنی زندگی کی محض 56 بہاریں دیکھی تھیں۔ اور جب کہ ان کے علم وفضل کی پیاس امت کو بہت زیادہ تھی۔ ایسے صلاحیت مند باحوصلہ افراد کی موت ان اکابراور عمر رسیدہ افراد کی موت کے مقابلہ میں زیادہ المناک اور اندوہ گیں ہوتا ہے جو عزم وحوصلہ سے ہمت ہار چکے ہوتے ہیں۔اور جن کی توانائی حیات مفقود ہو جاتی ہے۔ اور ان کے بارے میں عام طور پر یہ گمان ہوتاہے کہ یہ چند دنوں کے مہمان ہیں جو کسی وقت بھی کوچ کر سکتے ہیں ۔
دنیا کا یہ دستور ہے کہ اس کائنات میں خلق خدا کے لئے جو جتنا مفید ہوتا ہے ، اس دنیا سے جاتے وقت لوگ اس کو اسی قدر رویا کرتے ہیں۔ اور اس کے کھو دینے کے بعد اس کی قدر وقیمت کا احساس کچھ اور ہی زیادہ ہونے لگتاہے۔خصوصاً جب اس کاکوئی جانشیں نظر نہیں آتا۔ اور صلاحیت وافادیت کے حوالہ سے اس کے بعد کسی بے جوڑ انسان پر مجبوراً انحصار کرنا پڑ تاہے۔ حضرت مفتی صاحب انہیں خوش نصیب لوگوں میں سے تھے ، جنہوں نے جیتے جی اپنی علمی صلاحیت ، فکری ودعوتی لیاقت ، تعلیمی وملی سوجھ بوجھ کے ذریعہ امت اور ملت کو بھر پور طور سے فائدہ پہنچانے کی کو شش کی۔اور امت کے اَن گنت عظیم لوگوں کی فہرست میں اپنا نام خوبصورت حروف میں درج کرایا۔ اسی لیے آج ان کی رحلت پر پورا ہندوستان خصوصاً خطۂ کشمیر سوگوار ہے۔ اور ان کے فراق پرسب کا دل پارہ پارہ ہے۔
پورے خطۂ کشمیر میں خدائے پاک نے جس طرح کی ہمہ گیر وعمومی مقبولیت ومحبوبیت حضرت کو عطا کی تھی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے خطہ میں نہایت شدید مسلکی رسہ کشی کے باوجود غیر مشرب والے بھی غموں میں ڈوب گئے ہیں۔ کیونکہ انہیں آپ کی ذات میں صلاح وتقوی اور خیر وبرکت کا ایک ایسا انسان نظر آیا جس نے مسلکی اختلاف سے بالا تر ہو کر اسلام کی تشریح اور قرآن کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو پورے طور پر وقف کر دیا تھا۔ جو کوئی بھی آپ سے متعارف ہو تا دیکھ کر ہو یا سن کر آپ کی ذات کے تئیں ایک عجیب وغریب گرویدگی اپنے دل میں پاتا جسے لفظوں کی گرفت میں نہیں لایا جاسکتا۔ جس کا بھی تھوڑا بہت آپ سے تعلق تھا اس نے محسوس کیا کہ ایک مبارک سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ اور شفقت وہمدردی کی ایک وہ مضبوط بیساکھی چھین لی گئی ہے جو زندگی کے نشیب وفراز میں اس کا سہارا بنتی تھی۔ اپنی جگہ ہر ایک کو یہ الم انگیز احساس ستانے لگا ہے کہ وہ ان کی وفات سے دکھ درد میں شریک ایک مہربان دل سے محروم ہو گیا ہے۔ اس کا وہ بازو شل ہوچکا ہے جس کی قوت وطاقت اس کے حوصلے کو مہمیز کر تی تھی۔
مفتی صاحب کے وجود سے خطۂ کشمیر میں علم و عمل کی صحیح جامعیت کا رنگ قایم تھا۔ ہر آنے جانے والے کو ، بالخصوص جس میں دینی شعور اور اسلامی آگہی وادراک کی خو بو پای جاتی ہے آپ کے فقر غیور اور عشق جسور کے آتش فروزاں سے ضرور متاثر ہو تا تھا ۔ حرف علم کے آشناؤں کی اب بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اور آئندہ بھی نہیں ہوگی۔ لیکن عرفان حقیقت ، یقین محکم ، عمل پیہم ، اور محبت فاتح عالم کے درنایاب اور ان کی صدف آغوش سے پورا میخانہ جس طرح آج سونا لگ رہا ہے اس کا ادراک بہت مشکل ہے۔ ان کی ذات سے برکات علم وحکمت کی وہ تمام روشنیاں جس سے پورے علاقہ کی تاریکی کافور ہوا کرتی تھی اب وہ غروب ہو گئی۔
حضرت زندگی کے مختلف نشیب وفراز سے گذرتے ہوئے جموں میں فروکش ہوئے۔ اور اس کے ایک گوشہ بھٹنڈی میں ’’جامعہ مرکز المعارف ‘‘کے نام سے ایک دینی ادارہ کا داغ بیل ڈالا۔جو ان کی پوری زندگی کی علمی وعملی سرگرمیوں کا پرتو رہا۔ یہیں سے حضرت علم وعرفان کا چھلکتا ہواجام علم ونبوت کے تشنہ لبوں میں لٹاتے رہے۔ اور اسی طرح حضرت کے ساتھ ذوق عبادت سے سرشار اور عشق الٰہی میں
مست بندگان خدا کی عبادت و تلاوت سے اس کی فضاء ہر دم معمور رہی۔ لوگ حضرت کے پاس برابر آتے اور ساتھ رہتے ، ان کی معیت میں کچھ لمحات گذار کر زہد و صلاح اور شوق آخرت کا درس لیتے ، آستانہ رب پر جبہہ سائی کے آداب سیکھتے اور لذت احتساب اور سرور احسان واخلاص کی تعلیم پاتے۔ مرکز المعارف اب بھی قائم ہے ۔ اس کے دروبام اب بھی طالبین سے معمور اور تشنگان کا مطمح نظر بناہواہے۔ لیکن وہ روحانی روشنی ، وہ عرفانی کر نیں اور وہ احتسابی کیف جس سے اس کاگوشہ گوشہ معمور تھا دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ حضرت مرحوم اپنے محبوب حقیقی سے جاملے۔ نفس اور شیطان کے مکر سے مامون ہوگیے۔ اس موت نے ایک دوست کو دوست سے ملا دیا۔مجھے یقین ہے کہ حضرت اپنے رب کے پاس پہونچ کر خوش ہوں گے اور زبان حال سے کہہ رہے ہوں گے :
یا لیت قومی یعلمون بما غفر لی ربی وجعلنی من المکرمین۔
اللہ آپ کے پسماندگان ، محبین ومتوصلین کو صبر کی طاقت اور توفیق عنایت کرے۔ اور ان کے مشن اور کام کو انہی کے طرز پر پورا کرنے والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔(ختم شُد)
٭٭٭٭٭٭