ذکر رفتگاں : مقصوداحمدضیائی
علم وادب کی بزم ہے ویران ومضمحل
خاموش ہوگئی جو ایک شمع بے مثال
اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو اعلی مقاصد کی تکمیل کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے جو شخص اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی حیات مستعار گزار دے وہ اللہ کا مقبول بندہ لوگوں کے دلوں اور کتابوں کے صفحات میں بھی زندہ جاوید ہوتا ہے انہی مبارک ہستیوں میں سے ایک برگزیدہ شخصیت اپنے عہد کے بہادر عالم دین مفسر قرآن مفتی فیض الوحید قاسمیؒ بھی تھے
حسب دستور سابق رواں سال کے ماہ صیام کے آخری عشرے میں بھی حضرت والا نے اعتکاف فرمایا اور عید سے چند روز قبل اچانک اس قدر طبیعت بگڑگئی کہ مجبورا اعتکاف چھوڑ کر گھر چلے گئے اور پھر جموں کے بترا ہسپتال میں حضرت والا کا علاج معالجہ جاری ہوگیا دوران علاج صحت کے اتار چڑھاؤ کی خبریں سوشل میڈیا پرگردش کرنے لگیں کبھی حوصلہ افزا تو کبھی مایوس کن ہرکوئی اداس مضطرب و بیقرارنظرآنے لگاجہاں جہاں بھی متعلقین تک اطلاع پہنچتی گئی آپ کی صحت یابی کے لیے صدقات و خیرات کا عمل جاری کر دیاگیا بطورخاص سورہ مزمل کے پڑھوانے کا اہتمام کیاگیا اس طرح دعاؤں اور دواؤں کا سلسلہ تام آخریں رہا بیماری سے نبرد آزما رہنے کے بعد ، بالآخر سنگلاخ وادیوں کے مرد مجاہد حضرت اقدس مولانا مفتی فیض الوحید قاسمیؒ موت کے آگے سپر انداز ہوکر یکم جون 2021ء کو زندگی کے اس عارضی سفر سے آخرت کے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے
عمر بھر زیست کے ہم راہ اجل جاتی ہے
تاک میں رہتی ہے یکلخت نگل جاتی ہے
دنیا میں ہر آن موت و حیات کی پنجہ آزمائی جاری ہے از آدم تا ایں دم ان گنت لوگ جا چکے ہیں مگر دنیا اسی طرح قائم ہے البتہ لائق افراد کو دنیا روتی رہی ہے اور روتی رہے گی مگر مفتی فیض الوحید صاحبؒ کے متعلق بار بار یہ شعر پڑھنے کو جی چاہتا ہے کہ
بچھڑا اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا
میرا ماننا ہے کہ اگر شہر کی جگہ ملک پڑھ دیں تو زیادہ موزوں اور حسب واقعہ ہوگا
مفتی صاحبؒ کی خبر وفات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور دور دور تک صف ماتم بچھ گئی آپ کی وفات عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے اللہ تعالٰی نے حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کو متعدد خصوصی صفات و امتیازات سے نوازا تھا آپ نہایت خوش مزاج انسان تھے اپنے بڑے برابر والوں اور چھوٹوں سے نہایت مخلصانہ تعلق رکھتے تھے آپ کی منکسرالمزاجی پر کبھی کبھی ہم چھوٹوں کو حیرت ہوتی تھی مفتی فیض الوحید صاحب بڑے ذی علم اور ہمہ جہت صلاحیتوں کے حامل عالم و فاضل مفسر اور مصنف تھے راقم الحروف اگرچہ آپ کا شاگرد نہیں ہے لیکن اس کے باوجود میرے دل میں آپ کی کس قدر محبت ہے اس کو میں بیان نہیں کرسکتا پہلے پہل آپ کے دیدار کا قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ 1994ء میں جامعہ محمدیہ قاسم العلوم پونچھ میں جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے زیر نگرانی منعقدہ مسابقتہ القرآن الکریم کے موقع پر آپ کے روبرو تقریر سننے کا اتفاق ہوا تھا اگرچہ وہ وقت میری صغر سنی کا تھا یاد آتا ہے کہ حضرت مفتی صاحبؒ نے سورة الروم کی ابتدائی آیات کو موضوع سخن بنا کر بہترین خطاب فرمایا تھا یہ تھے آج سے ستائیس سال قبل کے مدہم نقوش ! دوسری ملاقات اس خاکسارکی ماہ صیام میں مرکزالمعارف بٹھنڈی جموں میں ہوئی تھی اس وقت آپ بذات خود کمپیوٹر کے ذریعے فیض المنان لکھنے میں مصروف تھے میں نے عرض کیا کہ معلوم ہوا ہےکہ آپ نے قرآن پاک کا گوجری زبان میں ترجمہ کیا ہے فرمایا کہ ترجمہ تو میرے استاذ محترم حضرت مولانا عابدحسین رحمانی (پیدائش 1960ء) کاہے البتہ تفسیرمیں نے لکھی ہے دیرتک بات چیت رہی وہ برابر لکھتے رہے آپ کی لکھائی کی رفتار قابل رشک تھی خوشگوار ماحول میں ہماری گفت و شنید ہورہی تھی میرے ایک سوال کے جواب میں مسکراتے ہوئے فرمایا کہ قاری صاحب یہ تو کمپیوٹر ہے آپ جہاز لائیے وہ بھی اڑا کر دکھا دیکھیں گے یہ فرماتے ہوئے آپ کا تبسم باقاعدہ ہنسی میں تبدیل ہوگیا اور فرمایا کہ آج رات آپ نے ہمارے یہاں ہی قیام کرنا ہے فرمایاکہ آپ لوگوں کا مدرسہ بڑا ہے دفتراہتمام ، مہمان خانہ اور کمپیوٹر لیب وغیرہ الگ الگ ہوں گے لیکن ہمارے یہاں تویہ سب کچھ اسی ایک کمرے میں ہوتاہے مفتی فیض الوحید صاحبؒ کے ہمارے نانا جان مولوی غلام حسین بھٹی مرحوم سے بھی دیرینہ تعلقات تھے ہم چھوٹوں نے اس تعلق کی لاج رکھنے کی بھرپور کوشش کی گزشتہ دو دہائیوں سے حلقہ جموں میرے پاس ہی ہے وصولیابی کی غرض سے ہرسال جانا رہتا ہے عرصہ سے ماہ صیام میں تفسیرقرآن پاک کا سلسلہ آپ نے جاری کر رکھا تھا یہاں حاضری کی سعادت نصیب ہوتی رہتی تھی آپکا طریق درس شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ ؒ اور شیخ الحدیث والتفسیر بخارئ دوراں مفتی زرولی خاںؒ کے دروس کی یاد دلاتا تھا ہر سال ماہ صیام میں آپ سے ملاقات بآسانی ہوجایا کرتی تھی آپ کی عالمانہ وجاہت کے آگے بڑے بڑے دنیا دار اور ڈگریوں والے اور روشن خیال اور سیاستدان امراء و روسا اپنے آپ کو ہیچ سمجھتے تھے بہ ہرحال سال گزشتہ تو لاک ڈاؤن کی نظر ہوگیا تھا سال رواں بھی افرا تفری کا شکار رہا کام کی مصروفیات اور بھاگم بھاگ کی وجہ سے ملاقات نہ ہوپائی دوسال سے آپ کی ملاقات سے محرومی رہی جس کامجھے قلق رہے گااب وہ ہمیں رلاتے ہوئے وہاں چلے گئے ہیں کہ جہاں سے جا کر پھر کوئی واپس نہیں آیا کرتا اب تو جنت میں ہی ملیں گے اور پھر کبھی جدا نہ ہوں گے ان شاءاللہ مفتی فیض الوحید قاسمی صاحبؒ سے قلبی لگاو تھاچند بارعید الفطر کی نماز ملک مارکیٹ جموں کے عید گاہ میں آپ کی اقتدا میں پڑھنے کا اتفاق ہوا مجھے یاد ہے کہ ایک بار آپؒ نے دعا مانگتے ہوئے حج بیت اللہ کی آرزو کے لیے کچھ اس قسم کے دعائیہ جملے استعمال فرمائے کہ جو گویا کہ میرے دل پر نقش ہوگئے اور پھر جب جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے رہے بے ساختہ وہی الفاظ زبان پر جاری ہوجاتے حسن اتفاق ایک رات خواب میں مفتی صاحبؒ سے ملاقات ہوگئی نصیحت و وصیت کے رنگ میں کچھ باتیں ارشاد فرمائیں حضرت مولانا قمرالدین قاسمی صاحبؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ ضیاء العلوم وجامعتہ الطیبات پونچھ خواب کی تعبیربتانے کے ماہرتھے حضرت سے تعبیر پوچھی تو فرمایا کہ حج بیت اللہ کے لیےتیار ہوجاؤاورہمارے لیے بھی دعا کیا کرو چنانچہ دوسرے ہی سال اللہ پاک نے حج بیت اللہ کے لیے بھی جانا مقدر فرما دیا مفتی صاحبؒ کا دوسرا بیان جامعہ ضیاء العلوم پونچھ کے عظیم الشان تاریخ سازتیس سالہ اجلاس عام بعنوان :” آفاقی پیغام انسانیت کے نام ” کے موقع پر روبرو سننے کا اتفاق ہوا تھا ہزاروں کے مجمع میں توحید خالص پر مبنی آپ کا وہ بیان تاریخی اہمیت کا حامل تھا قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے بکثرت استد لال کی وجہ سے سماں باندھ دیا تھا آج عرصہ بیت جانے کے بعد بھی لوگ مزے لے لے کر آپ کی تقریر دلپذیر کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں تنظیم علماء اہل السنت و الجماعت پونچھ کے جھنڈے تلے منعقدہ جلسوں میں بھی آپ کی بکثرت آمد رہی تنظیم کے پلیٹ فارم سے بھی ہزاروں کے مجمع کے روبرو آپ کے ایمان افروز بیانات ہوئے جو انتہائی موثراور پرمغز تھے اس کے علاوہ بھی آپ کے بیانات سننے کی توفیق ملتی رہی مجھ سے بے تکلف بات چیت فرماتے تھے ایک بار فرمایا قاری صاحبؒ سرینگرکے ایک صاحب کا مدت سے اصراررہاکہ میں ان کے گاوں چلوں اور ان کی مسجد میں تقریرکروں چنانچہ جاناہوانمازجمعہ سے ایک گھنٹہ قبل اذان ہوگئی اور ہم لوگ جلدی سے مسجد پہنچے دیکھاکہ چند نمازی ہی مسجد میں موجود ہیں ان صاحب نے مائیک آن کرکے کہاکہ مفتی صاحب بیان شروع کریں ہم نے کہا کہ لوگ کدھر ہیں ؟ کہا کہ ہمارے یہاں لوگ نماز سےدس منٹ قبل ہی آتے ہیں گھروں میں ہی بیان سنتے ہیں فرمایا کہ اس طرح بھی ہم نے بیان کیا ہے فرمایا کہ دین کی خدمت کا جہاں بھی موقع ملے گنوانا نہیں چاہیئے فرماتے کہ میں فارغ ہونے والے طلبہ سے پوچھتا ہوں کہ آگے کیا ارادہ ہے کہتے ہیں کہ گھر والوں سے مشورہ کرتے ہیں کوئی اچھا سا ادارہ مل جائے تو پڑھانے کا ارادہ ہے فرماتے تھے کہ مجھے ان پر تعجب ہوتا ہے کہ جب پڑھا انہوں نے ہے تو مشورہ بھی انہیں کو دینا چاہیئے فرمایا کہ عجیب مزاج بن گیا ہے مدرسوں کے پیچھے چلنے کا بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ مدرسوں کو اپنے پیچھے چلاتے یہ سب استعداد کی نا پختگی کی علامت ہے مفتی صاحبؒ نہایت دور بین تھے فرمایا کہ ایک بار ایک مسجد میں نمازپڑھنے کا اتفاق ہوا وہاں دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث تینوں مکاتب فکرکے لوگ تھے اورہرایک اپنے پروگرام میں اٹل تھا نمازسے قبل پہلے دیوبندی پھربریلوی اور پھراہل حدیث تین بندوں نے الگ الگ اقامت کہی میں نے سوچا کہ خدا خیر کرے آج کہیں امام بھی تین نہ ہوں خیر نماز ایک ہی بندے نے پڑھائی بعد نماز ان کوسمجھانے کی غرض سے مستقل بیان کرناپڑافرمایاکہ تقریر بہت اچھی چیزہے ہرعالم کوچاہیۓ کہ وہ تقریر سیکھےآپؒ کی مجلس میں حاضرہوکرآپ سے استفادے کے دوران بہت سی قیمتی اور سبق آموز باتیں مل جایاکرتی تھیں دو بار ضیاء العلوم کے اجلاس کی دعوت دینے جموں جانا ہوا ایک بار دوران درس حاضری ہوئی تو گھنٹہ فارغ ہوتے ہی ملاقات کی ایک بار گھر میں انتہائی مصروفیت کے باوجود ملاقات فرمائی حضرت مفتی فیض الوحید صاحب قاسمیؒ بڑے ذی علم تھے خطے میں حضرت مفتی صاحبؒ کے فتوے کو بڑی اہمیت حاصل تھی بات فتوے کی آئی تو بربنائے تذکرہ بات میں بات یاد آگئی ایک بار فرمایا کہ ایک فتوی میرے قلم سے صادر ہوا جن صاحب کا مسئلہ تھا سیاسی لیڈر تھے ایک روز مدرسے میں آن پہنچھے پولیس کی وردی میں ملبوس باڈی گارڈ وغیرہ بھی ہمراہ تھے پوچھا مفتی فیض الوحید یہیں ہوتے ہیں خیر علیک سلیک پر کہا کہ یہ فتوی آپ نے دیا ہے اور اسی طرح فتوی دیتے ہیں کیا ؟ میں نے جوابا کہا کہ جی بالکل اسی طرح دیتے ہیں ! میرے جواب پر انہوں نے کہا کہ آپ کے مدرسے کا کوئی تعمیراتی کام ہو تو موقع دیں لاکھوں میں بھی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ؟ ہم اور آپ ایک ہی برادری کے بھی تو ہیں اس لیے ذرا فتوی میں کچھ رد و بدل ہوجاتی فرمایا کہ میں نے دوٹوک جواب دیا کہ فتوی جس طرح ہے اسی طرح رہے گا فتوی میں رد و بدل تو قطعا نہ ہوگی وہ بالکل درست ہے باقی رہی بات کام کی وہ مدرسوں میں کب ختم ہوئے ہیں ہزاروں کے بھی ہیں اور لاکھوں کے بھی یہ توفیق کی بات ہوتی ہے اس طرح گویا کہ نمازیں کیا معاف ہوتیں الٹے روزے رکھنے پڑےکتنا سچ کہا ہے کہنے والے نے کہ
مجاھدکی اذاں اورہے ملاکی اذاں اور
مفتی فیض الوحید قاسمیؒ ایک جہاں دیدہ شخص تھے آپ جدیدیت کی رو میں بہنے والوں میں سے نہ تھے اور نہ ہی گردش زمانہ سے مایوس ہونے والے تھے اس بات کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ایک بار آں مرحوم ہمارے یہاں تشریف فرما ہوئے اس وقت کچھ نئے نئے لوگ سوشل میڈیا پر دینی خدمات میں مصروف تھے اور خاص و عام کی مرکز توجہ بنے ہوئے تھے خدمت پر یہ عاجز مامور تھا کھانے کے دسترخوان پر کچھ نئے فضلاء بھی تشریف رکھتے تھے ایک عالم نے سوال کیا کہ حضرت علماء کرام بھی اگر اس طریق کار کو اپناتے ؟ مفتی صاحب نے فرمایا تو کیا ہوجاتا ؟! کہا کہ فلاں فلاں صاحب نے لاکھوں لوگوں کو کلمہ توحید پڑھا دیا ہے فرمایا کہ ان کے ناموں کی فہرست مل سکتی ہے ؟ یا پھر ان میں سے ایسے لوگ کہ جو ارکان اسلام پر کامل طور پر عمل پیرا ہوں ان کے نام ہی مل جاتے وغیرہ چند سوالات کیے دوسری طرف سے خاموشی رہی تو حضرت مفتی صاحب نے امام مالکؒ کے کی طرف منسوب یہ عالمانہ و عارفانہ قول ذکرتے ہوئے فرمایا کہ اس امت کا آخری فرد بھی اسی چیز سے فلاح و کامرانی حاصل کرسکتا ہے جس سے پہلے افراد کامیاب ہوئے تھے فرمایا کہ ہمیں کسی سے قطعا مرعوب ہونے کی ضروت نہیں ہے رسول اکرم ﷺ اور اصحاب رسولؓ کا طریقہ ہمارے لیے معیار ہے ہمارے اکابر جس پر قائم رہے آج صدیوں بعد بھی جب کے دنیا کا نقشہ بدل چکا ہے ان کے طریق کار کی قدر دانی ہو رہی ہے لہذا آپ تاریخ کا حصہ بنیں ناکہ روشن خیال لوگوں کے خوش نما اور نت نئی سرگرمیوں سے متاثر ہوں ان کی یہ سرگرمیاں خوبصورت تو ہوسکتی ہیں مگر پائیدار نہیں ماضی میں اس طرز کہن کے جتنے بھی لوگ گزرے ہیں ان کے لڑریچر کے صفحات بنیوں کے سودا صرف کے کاروبار میں استعمال ہوئے ہیں جب کہ ہمارے اکابر کی کتابیں پوری بہار کے ساتھ تابندہ ہیں غرض کہ اللہ رب العزت نے مفتی صاحب ؒ کو عجیب و غریب قسم کی استغنائیت بخشی تھی اپنے علم اور اطلاعات پر کیسا بھروسہ تھا قدرت نے کیا ایمانی حرارت بخشی تھی آپ کی ہرادا نرالی تھی میدان خطابت کے تو وہ عظیم شہسوار تھے بلکہ یوں کہیئے کہ خطیب سیف بے نیام تھے آپ جب مجمع سے مخاطب ہوتے تو گویا کتابی چہرہ آیات جلالی کاترجمان ؛ اور ماشاء اللہ آواز میں ہیبت وجبروت کے ساتھ ساتھ حلاوت کا انداز بھی ، قرآن پاک سے آپ کاعشق والہانہ اورمثالی تھا جب قرآن پاک پڑھتے تو سامعین کا بے ساختہ خیال خطیب العصر عالم یگانہ مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ صاحبؒ کی جانب چلا جاتا قرآنی آیات کی تلاوت اس انداز میں فرماتے کہ وہ لمحات آپ کے خطابت کا نقطہ عروج ہوا کرتا تھا دوران خطاب آیات قرآنی کی تفسیر کی طرف متوجہ ہوتےتوحقائق ومعارف کا قلزم ذخار اور مجمع وجد آفریں انداز میں جھوم جھوم جاتا حاضرین پرکیف طاری ہوکرایمان تازہ ہورہاہوتا چنانچہ شاعر پونچھ مولانا ریاض احمد میر ضیائی استاذ حدیث فقہ و ادب جامعہ ضیاء العلوم پونچھ نے مفتی صاحب کو نہایت شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ
آپ فکرقاسمی کےترجماں تھےبےدھڑک
اور خائف آپ سے تھا کل جبار عنید
آپ کی سحرالبیانی آپ کا طرز خطاب
جوبھی سنتاآپکوکہتاوہ ھل من مزید
بہ ہرحال اس پیکر گرامی میں علم وعرفاں دونوں جمع ہو کر پروان چڑھے اور معراج کمال کو پہنچے تھے آپ کا فیضان علم وہنر سینوں اورسفینوں دونوں میں جمع ہوااورخوب ہوا آپ کے رشحات فیض سے بھی ایک جہاں سیراب ہواجوبھی لکھاوہ حرف حرف ، لفظ لفظ ، سطر سطر ، بعد والوں کے لیے قیمتی ذخیرہ رہے گا ان شاءاللہ
یادش بخیر ! مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حضرت مولانا مفتی فیض الوحید صاحب قاسمیؒ کے حالات زندگی اور علمی خدمات کامختصرا خاکہ سن وار ذکرکر دیاجائے حضرت مفتی فیض الوحید بن مولوی غلام حسین 1964ء تحصیل تھنہ منڈی ضلع راجوری جموں و کشمیرکے گاؤں دوداسن بالا میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش کے ٹھیک 17 روز بعد آپ کے والد ماجد انتقال کرگئے اور آپ یتیم ہوگئے مروجہ تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی 1972ء مدرسہ کاشف العلوم تھنہ منڈی میں درس نظامی کے حصول کے لیے داخلہ لیا اور پھر 1978ء میں آپ بھارت کے صوبہ اترپردیش کا رخ کیا اور وہاں اپنے ماموں عبقرئ دوراں استاذ الاساتذہ حضرت اقدس مولانا فیض الحسن صاحب قاسمیؒ استاذ دارالعلوم دیوبند کے مشورے سے مدرسہ تعلیم القرآن قصبہ جانسٹھ ضلع مظفر نگر میں داخلہ لیا 1982ء میں شعبہ حفظ و قراءت سے سند فراغت حاصل کی، 1983ء میں آپ ڈھائی ماہ تک حضرت مولانا حامد میاں خلیفہ حضرت تھانویؒ کے پاس رہے یہاں آپ نے کچھ پاروں کا دور کیا 1984ء میں آپ نے ضلع غازی آباد کے قصبہ ہاپوڑ کے مدرسہ خادم الاسلام میں شعبہ عالمیت میں داخلہ لیا درس نظامی کے ابتدائی دوسال خادم الاسلام ہاپوڑ میں مکمل کئے 1985ء میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور درس نظامی سال سوم کے امتحان میں شمولیت اختیار کی اور کامیابی حاصل کرکے سال چہارم سے اپنے تعلیمی سفر کو آگے بڑھانا شروع کیا اور 1990ء میں دورہ حدیث کی تکمیل کرتے ہوئے 92 فیصد نمبرات کے ساتھ درس نظامی کی تکمیل کی 1991ء اور 1992ء میں دارالعلوم دیوبند سے تخصص فی الفقہ والافتاء کیا درس نظامی میں داخلہ لینے کے بعد آپ نے پرائیویٹ طور پرجامعہ دینیات دیوبند کے عالم و فاضل کے امتحانات دیتے ہوئے امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی اسی طرح جامعہ اردوعلی گڑھ کے امتحانات ادیب ماہر اورکامل میں شمولیت اختیار کی اورامتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی اسی کامل کی بنیاد پر بعد ازاں ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی 1993ء میں دارالعلوم دیوبند سے زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر آپ نے میدان عمل میں قدم رکھا اور سب سے پہلے مدرسہ اشرف العلوم جوہلاکہ محلہ جموں سے تدریس کا آغاز کیادو سال یہاں تدریسی خدمات انجام دیں اس کے بعد ایک معیاری ادارے کے قیام کی جگہ کے سلسلے میں فکر مند ہوئے کافی تگ و دو کے بعد قاری جمال الدین صاحب مدظلہ اور حافظ نذیر احمد صاحبؒ کے ساتھ مل کر بمقام بٹھنڈی جموں گاؤں کے لوگوں نے ایک چھوٹا سا قطعہ آراضی مشترکہ آراضی میں سے برائے ادارہ وقف کیا چنانچہ ویرانے میں ان خوش نصیبان ازل نے بہاروں کی بنا ڈالی اور جامعہ مرکزالمعارف کو قائم کیا جو ابتداء تین کمروں پر مشتمل تھا اور آج ایک عظیم الشان مرکز علم و فن ہے چنانچہ 5 اکتوبر 1995ء کو یہ تین نفوس مرکزالمعارف بٹھنڈی منتقل ہوگئے کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ اس گو مگو میں گزرا کہ ادارے کا مہتمم کون ہو ؟ مفتی صاحب کا اصرار تھا کہ قاری جمال الدین صاحب اہتمام سنبھال لیں لیکن وہ قبول نہیں فرما رہے تھے بالآخر قاری صاحب نے اہتمام کی ذمہ داری قبول فرما لی مرکز المعارف کے وجود میں آتے ہی حالات آگئے وہ تو آنے ہی تھے چونکہ حق کام میں رکاوٹ تو فطری بات ہے ریاست جموں و کشمیر میں جن لوگوں نے کچھ بھی کام کیا ہے انہیں اس کا بخوبی تجربہ ہے بہ ہرحال مخالفین کی طرف سے بے انتہاء پریشانیوں کانشانہ بنے جس وجہ سے 1995ء ہی کے اواخر میں نوبت بایں جا رسید کے گرفتاری عمل میں آگئی گیارہ ماہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید رہے کوششیں رنگ لائیں اور لگ بھگ گیارہ ماہ بعد رہائی ہوگئی اور دوبارہ مدرسے میں آگئے مئی 1997ء میں ایک حادثہ کے الزام میں پھر گرفتار ہوگئے اور اگست 2000ء تک محبوس رہے سلاخوں کے پیچھے پس دیوار زنداں آپ نے فقہی کتابوں کے علاوہ گوجری زبان میں قرآن مجید کی تفسیر کا کام انجام دیا 2001ء میں آپ پھر اسی ادارے سے وابستہ ہوگئے آپ کو حضرت مفتی محمودالحسن گنگوہیؒ حضرت مولانا مسیح اللہ خان جلال آبادیؒ اور مفتی مبین احمد صاحب کی صحبت حاصل رہی اور آپ نے خوب خوب استفادہ کیا بحوالہ : ائینہ مدارس جموں و کشمیر (ص: 236 تا 237) آپ بحرحکمت اور پیکرعزیمت اور شجر پربہار شخصیت تھے آپ کی دینی علمی دعوتی تصنیفی تالیفی اور اصلاحی خدمات بدر کامل کی طرح ہویدا ہیں آپ کا اختصاص یہ تھا کہ آپ پابند سلاسل بھی رہے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھائیں جیل میں فیض المنان تفسیر قرآن ؛ اور سراجا منیرا سیرت رسول اکرم ﷺ بزبان گوجری لکھیں نماز کے مسائل قرآن و حدیث کی روشنی میں ؛ مریض و میت اور وراثت ؛ مفتی جمال الدین شہید کی تحریک پر تصنیف فرمائیں جو بے حد قیمتی دستاویز ہیں دجال کے دوست کون ؟ آپ کی قابل ذکر کاوش ہے بہ ہرحال یادوں کی وادی سے کچھ اور باتیں یاد آکر زیب قرطاس کرنے پر مجبور کر رہی ہیں 2002ء میں جب کہ ڈاڑھی رکھنا اور پگڑی پہننا ایک مشکل ترین کام تھا فضا کچھ ایسی تھی کہ اس حلیہ کے لوگوں کو انتہائی قسم کی غضب ناکیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا خود میرے ساتھ ایک سفر میں ایسا ہوا کہ گاڑی میں سوار ہوتے ہی کنٹکٹر نے کرایہ سے پہلے شناختی طلب کیا اور پھر وہ شناختی کارڈ پوری گاڑی میں گھوم گیا یہ معلوم ہوکر کہ شناختی کارڈ درست ہے پھر بھی سیٹ پر کوئی دوسرا بندہ نہیں بیٹھا شک کے بنیاد پر اس حلیہ کے لوگوں کو اٹھا لیا جاتا تھا اثر رسوخ والے جلدی چھوٹ جاتے اور غریب لوگ ستم سہتے رہتے تھے ہم نے دیکھا کہ یہ مرد آہن ایسے پر آشوب دور میں بھی سر پر خاص طرز کی پگڑی اور مسنون لباس زیب تن رکھا کرتا تھا میرے جیسے مصلحت کیش اکثرکہتے کہ صرف ٹوپی پہنا کریں اس پر حضرت مفتی صاحبؒ کے ایمان افروز جوابات سن کر ایمان میں تازگی آجایا کرتی تھی چنانچہ 1997ء کی گرفتاری کے بعد 2000ء میں رہاکر دیا گیا اور ان کے خلاف بنایا گیا مکڑی کاجالہ عدالت مجازنے تار تار کر دیا غرض کہ آپ کے مشن کی راہ میں بڑے بڑے طوفان آئے مگر کوئی چیزان کی رفتار کار اور عزم و ہمت کے آڑے نہ آسکی اور وہ زبان حال سے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے رہے کہ
میں کہاں رکتاہوں عرش وفرش کی آواز سے
مجھ کوجاناہے بہت اونچاحد پرواز سے
مفتی فیض الوحید صاحب قاسمیؒ نے زندگی بھر جامعہ مرکزالمعارف بٹھنڈی میں تدریس جاری رکھی اورصدرمفتی وصدرالمدرسین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں مفتی صاحب فقہ اسلامی میں بھی مہارت رکھتے تھے آپ علم و عرفاں کے درخشان آفتاب تھےآپ نے پس دیوار زنداں قرآن مجیدکاترجمہ وتفسیرگوجری زبان میں کیااس طرح گوجری زبان میں سب سے پہلا مترجم ہونے کاسہراآپ کے سررہااس دورقحط الرجال میں اہل زمانہ اپنی کم نصیبی پراس پیکرعزیمت پرجتنابھی غم کرے وہ بجاہے چونکہ آپ یزکیہم و یعلمہم الکتاب کی زندہ تفسیراور وان من البیان لسحرا کی جیتی جاگتی مثال تھے آپ کے وصال کی وجہ سے حلقہ علم میں سناٹاچھاگیاہے ہر طرف ہچکیاں اور سسکیاں ہی سنائی دیتی ہیں ہرکوئی اس مردآہن کے غم میں اشکبارہےچونکہ آپ فیضان ظاہری وباطنی دونوں کا سنگم تھے وبالاختصار اتنی نصیبہ ور شخصیت کہ جس کی کتاب زندگی جذبۂ جہاد اور اس میں عملی شرکت سے فیضیاب ہو جراءت و عزیمت جس کاعنوان ہو ایمانی قلوب میں حرارت ایمانی کو جاگزیں کرنا جس کاہنرخدا داد ہو ضمیر جس کا زندہ تابندہ اور روشن ہو قریہ قریہ ، ڈگر ڈگر اور نگر نگر ، تبلیغ دین ، تیسیردین اور ترویج دین جن کا اوڑھنا بچھونا ہو ، قرآن کریم اور اس کی تفسیر ، تفہیم اور تشریح میں جو فرد فرید ہو ، اکابر و اصاغر جن کے ثناخوان ہوں،ریاست کی سیاست بھی جن کی جدائی سے اشکبار ہو ، لگتا ہے کہ شجر و حجر ، بحر و بر اور شمس و قمر بھی اشکبار ہوں گے خلاصہ یہ کہ جو انسان اپنے خلیفۃ اللہ فی الارض کے فرض منصبی کی عظمت اہميت اور حقیقت کو سمجھ کر اس کی تنفیذ میں کوشاں رہے ، تو حق تعالیٰ مادی و سائل کی قلت و ندرت کے باوجود اسے وہ سربلندیاں عطا فرماتے ہیں کہ خلائق و ملائک بھی رشک کرتے ہیں اور بوقتِ وصال اشک بہاتے ہیں
آخری بات : نامور عالم دین اورمفسر قرآن حضرت اقدس مولانامفتی فیض الوحید قاسمیؒ صاحب ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے ان گنے چنے چند فضلاء میں سے تھے جنہوں نے اپنی جدوجہد سے ایک تابناک تاریخ بنائی آپؒ اپنے عہد کے تفسیر و سیرت اور خطابت و تدریس اورفصاحت وبلاغت میں نمایاں مقام رکھتے تھے آپؒ کی شہرت وعلمی شان کا کوئی مقابلہ نہیں تھا آپؒ جیسی عمدہ مزاج اور سلجھی ہوئی طبیعت اور اخلاص کی حامل ذی علم اوردینی حمیت وغیرت سے بھرپور شخصیات بار بارپیدانہیں ہوتیں مفتی صاحب ایک باتوفیق عالم دین تھے اب آپؒ کے کمال عزائم فیض یافتگان کایہ فریضہ ہے کہ وہ مفتی صاحب کے مشن کوان کے جیسے حوصلے اور ولولے کے ساتھ جاری رکھیں یہی اس مرد آہن کی زندگی کاپیغام اور ان کو سچا خراج ہے چنانچہ یکم جون 2021ء بروز منگل علی الصبح 55 سال کی عمرمیں یہ مرد عزیمت داغ مفارقت دے گیاآج اہل خطہ ہی نہیں بلکہ پورا ملک اور اس سے بھی دور دور تک متعلقین بطورخاص جامعہ مرکزالمعارف کے درودیوار اس مرد آہن کے انتقال پر ملال پر سوگوار ہیں
ویراں ہےمیکدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
یقین ہے کہ اللہ جل جلالہ تعالٰی شانہ نے اپنی شان مغفوریت کامظاہرہ کیاہوگااور اس خوش انجام مردجلیل کواپنی جوار رحمت میں جگہ دی ہوگی
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھرکی نگہبانی کرے