____________________________
بآوازقلم: منصوراحمدحقانی، دارالعلوم حقانیہ، بگڈھرا، ارریہ، بہار
____________________________
ہمیں دریافت کرنے سے، ہمیں تسخیر کرنے تک
بہت ہیں مرحلے باقی، ہمیں زنجیر کرنے تک
ہمارے ہجر کے قصّے، سمیٹوگے تو لکھوگے
ہزاروں بار سوچو گے، ہمیں تحریر کرنے تک
گزشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا میں ریاست بہار کے اس جانباز مسیحا کا چرچہ گردش کررہا ہے، جو 53 سالہ عمر میں 120 کلو جسمانی وزن کے ساتھ ساتھ ، بہت ساری جسمانی بیماریوں میں گھرا ہوا ہے، جسے ہم اور آپ راجیش رنجن عرف "پپو یادو” کے نام سے جانتے ہیں، جو اپنی تمام تر تکالیف کو بھلا کر خدمتِ خلق کے لئے صف اول میں نظر آتے ہیں، جو عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں، جنہوں نے بہار کے غریب عوام کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دی، یہاں کے عوام پر جب بھی کوئی مشکل گھڑی آئی تو پپو یادو ان کی ہر ممکن مدد کے لئے پیش پیش رہے، جس وقت گجرات میں تعصب کی ندیاں بہنے لگیں اور باشندگانِ بہار کو گجرات کی گلیوں کوچوں میں گھسیٹ گھسیٹ کر پیٹا جانے لگا اور انہیں سرزمین گجرات سے دھکے دے کر باہر نکالا جانے لگا، تو وہ پپو یادو ہی تھے جنہوں نے بروقت اتنے بڑے معاملات کو سلجھایا اور تمام بہاریوں کو باعزت اپنے وطن تک لانے میں مددگار ثابت ہوئے، اسی طرح گزشتہ سال 2020ء میں جب کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری نے پوری دنیا کو تباہی و بربادی کی لپیٹ میں لے لیا، حکومت ہند نے بھی اچانک پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ کرلیا، جس سے پورا ملک بالخصوص ریاست بہار سب سے زیادہ متاثر ہوا، لاکھوں تارکینِ وطن مزدور ملک کے چپے چپے اور کونے کونے سے بے سروسامانی کے عالم میں اپنی جان کو جوکھے میں ڈال کر پیدل ہی اپنے گھروں کے لئے روانہ ہوگئے، اور کتنوں نے تو راستے ہی میں بھوک کی شدت کی وجہ سے دم توڑ دیا، اور نہ جانےکتنے بوڑھے، بچے، اور عورتیں کھانا پینا نہ ملنے کے سبب بیمار ہوگئی تھیں، ان تمام مریضوں کو اسپتالوں میں جگہ تک بھی نصیب نہیں ہوپا رہا تھا، ایسے وقت میں ڈاکٹر مریض کو ہاتھ لگانے سے کتراتے تھے ۔ میڈیا والے اپنے مائیک میں ایک لمبا ڈنڈا باندھ کر دور سے ہی لوگوں کا حال دریافت کرتے تھے۔ لہذا کوئی بھی کسی کے قریب نہیں ہورہا تھا، گویا کہ انسانی رابطہ براہِ راست ایک دوسرے سے منقطع ہوچکا تھا اور ایک ایسا دہشت کا ماحول بن گیا تھا کہ ہر شخص اپنی اولاد، بیوی اور ماں باپ سے بھی ملنے میں ڈر محسوس کرتا تھا، اگر کسی کے گھر میں یا رشتہ داروں میں کوئی موت واقع ہوجاتی، تو کوئی میت کو تجہیز وتکفین کرنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا؛ مگر قربان جائیے اس مرد مجاہد پر کہ جس نے اپنی جان کو جان نہیں سمجھا اور ملک کے مختلف شاہراہوں پر اپنے کارکنان کے ساتھ کھڑے ہوگئے، اور ہر آنے والے کو کھانا پانی اور نقد رقم کے علاوہ جو مریض تھے ان کو دوائیاں بھی فراہم کر رہے تھے۔ جس انسان کے اتنے سارے احسانات ہوں، اس کے احسان کا بدلہ بہاری قوم نے کس طرح چکایا، یہ آپ نے اسی کے چند ماہ بعد بہار ودھان سبھا الیکشن میں دیکھ لیا ہوگا، جس میں خود پپو یادو اپنی سیٹ بھی ہار گئے۔ یہ تھا احسان کا بدلہ؛ مگر اس بے حس قوم کے مسیحا پپو یادو جی کے ہمت و حوصلے کو سلام، جو اقتدار کا ہوس کئے بغیر اول دن سے ہی اپنے تمام کارکنان کے ساتھ خدمت خلق کے لئے میدان عمل میں اتر گئے تھے، جس کے بعد کورونا وائرس کی دوسری سخت لہر آئی، جس سے لوگوں کی حالت گزشتہ سال سے بھی زیادہ بدتر ہوچکی، اس مرتبہ مریضوں میں سب سے زیادہ آکسیجن کی کمی کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ تو دوسری جانب اسپتالوں کی بد نظمی اور اقتدار پر فائز پارٹیوں کے (ایم پی اور ایم ایل اے) کی بددیانتی، بدعنوانی، دھوکہ دھڑی، اور تکبر میں چور سرکاری املاک پر غاصبانہ قبضہ کرکے لاکھوں مریضوں کے جان کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے، کہیں اسپتالوں میں تالے لگے ہوئے ہیں، تو کہیں مریضوں کے لئے بیڈ نہیں ہے، مریض کہیں گھر میں تڑپ رہاہے، تو کہیں سڑک پر دم توڑ رہا ہے، اسپتالوں میں جانے کے لئے ایمبولینس مہیا نہیں ہے، اور ہوگا بھی کیسے؟ سینکڑوں کی تعداد میں ایمبولینس تو راج نیتاؤں کے گھروں میں کھڑے ہیں، جن سے کہیں بالو (ریت) ڈھونے کا کام لیا جارہا ہے، تو کہیں کھڑے کھڑے سڑا دیا گیا ہے، آخر یہ انسانیت کے دشمن اور مریضوں کی خون کے پیاسے چاہتے کیا ہیں؟ انہی تمام بےایمانی اور بدعنوانی کا جب پپو یادو نے پردہ فاش کیا، تو اس کے عوض ان کو جیل کی سلاخیں ملیں، اور کیا ملا ؟ بتیس سال قدیم کیس کی فائل کھول دی گئی، آج بہار سرکار کا حال یہ ہے کہ ہر شعبے میں اوپر سے لے کر نیچے تک چور، ڈاکو اور لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں، جو کرپشن، لوٹ مار، چور بازاری، بے ایمانی اور بددیانتی جیسے اوصاف سے متصف ہوکر براجمان ہیں۔
ملک کا حال تو پوچھئے ہی نہیں، حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں کی خاطر ملک کے بچے بچے کو مقروض کردیاہے، جو بچہ آنے والا ہے اُسے بھی دنیا میں جنم لیتے ہی قرض کی دلدل میں پھنسا دیا۔ اِس ملک کو کس نے نہیں لوٹا؟ ہر ایک نے اِسے مالِ مفت سمجھ کر خوب کھایا، اپنے ذاتی سکون وآرام کے لیے ملک عزیز کے وقار کو خراب کیا، کسی نے بھی اِسے معاف نہیں کیا، جس کو جتنا موقع ملا، اُس نے اتنا ہی اِس پر گہرا وار کیا، کرپشن اورلوٹ مار کے باعث ملک کو بہت دور لا پھینکا۔
ملک ہندوستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ِاسے جو بھی ملا چور ہی ملا، اور اُس نے بجائے اِس کے کہ اس ملک کو ترقی و خوش حالی دیتا، تنزلی کا شکار کیا، ملک کی بھولی بسری عوام کے حقوق وفرائض پر کوئی توجہ نہ دی؛ مگر اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، اِس ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں سچ بولنے والوں کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا ہے۔ مختلف تکالیف اور ایذا رسانیوں سے انہیں گزارا گیا ہے اور آج بھی گزارا جاتا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والا اور اسے سلام کرنے والا ہی کامیاب ہوتا ہے، اور سسٹم کو ٹھیک کرنے اور حالات میں بہتری کا خواہشمند ہی ناکام ٹھہرتا ہے، یہاں میڈیا میں ہرآن لمحہ بہ لمحہ، بدلتی صورت حال میں ہر آن پلک جھپکتے ہی، اپنے مفادات کی خاطر بدلنے والے اور سیاسی لیڈران کامیاب ٹھہرے، مگر حقیقی تصاویر اور سچ کی آواز بننے والے لوگ انتقامی کار روائیوں جیسے واقعات اور ظلم وجبر کے حقدار ٹھہرے ہیں۔
وطن عزیز بھارت کی ریاستوں میں بہار ایک ایسی جگہ ہے جہاں جھوٹ آسان اور سچ بولنا محال ہے، جھوٹ تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ کامیاب اور سچ تمام تر سچائیوں کے باوجود ناکام ہوتا ہے، بہار ایسا صوبہ ہے کہ جہاں آپ کا سچ بولنا ہر لحاظ سے آپ کی موت کا اعلان ہے، جہاں سچ کی کوئی قدر نہیں، جہاں سچ بولنے کے بعد خدشہ یہی ستاتا ہے کہ اب میری خیر نہیں، بہار میں جھوٹ کی بہت قدر ہے اور سچ بولنے کی سزا کا تصور ہی رونگھٹے کھڑے کردینے والا ہے، اور اگر یہ سچ کسی ادارے، یا ملکی سسٹم کے متعلق ہو، تو پھر ہر طرح کی سزا اور کال کوٹھری کے لیے تیار ہوجائیے۔
ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح بہار میں بھی اگر کوئی کام سب سے مشکل ہے، تو وہ سچ بولنا ہے، جو آپ کسی طرح بھی موجودہ بہاری سسٹم میں قطعی طور پر بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، وہ سچ چاہے کسی ادارے کے متعلق ہو، یا اُس کی کارکردگی کے بارے میں، یا موجودہ وبائی مرض میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں، بے ضابطگیوں اور اسپتالوں کے متعلقہ معاملات پرہوں، موجودہ سسٹم میں آپ سچ نہیں بول سکتے، سچ نہیں لکھ سکتے، سچ نہیں دکھا سکتے، اِس لیے کہ موجودہ سسٹم میں حقیقتوں کا سامنا کرنے کی سکت یا برداشت بالکل نہیں ہے، اور پھر یہ کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اپنی جگہ ایک حقیقت ہے، حال میں پپو یادو نے اسپتال کی صورتحال ہی کی صحیح تصویر کھینچ کر دکھانے کی کوشش کی تھی، اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ یہ پورا بہار ہی نہیں؛ بلکہ پورے ملک نے دیکھا، ابھی ان پر کیا بیت رہی ہے اور کیا ہورہا ہے؟ اس کا اندازہ وہ نام نہاد سیاسی جماعتیں کیا لگا سکتے ہیں، جو ٹی وی ڈیبیٹ پر بیٹھ کر سرکار کی ناکامیوں پر صفائی دیتے نہیں تھکتے؛ مگر وہ لوگ اسپتالوں کی اصل صورت حال بیان کرنے سے کیوں قاصر ہیں کہ بہار میں سینکڑوں اموات اسپتال کی بد نظمی اور سرکار کی لاپرواہی کے سبب کیوں کر ہوئی ؟ ان تمام کمیوں پر نشاندہی کرنے والے کو شاباشی اور انعام دینا چاہیے کہ اس نے سرکار کی توجہ اس جانب مبذول کرائی؛ تاکہ سسٹم درست ہوسکے؛ مگر ہوا اس کے برعکس۔ بس جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم شروع ہے، جس میں رشوت خور ، زر خرید دانشور، عقل و فہم سے عاری ہو کر حالات کے خونی دھاروں کی لہروں میں اندھے ہوئے، سب کچھ جانتے ہوئے بھی منہ، آنکھ، کان اور ناک بند کیے جارہے ہیں، جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔ قرآن پاک کی سورۂ بقرہ کی اس آیت کی طرح: "وہ گونگے، بہرے، اندھے ہیں، پس واپس نہیں لوٹیں گے”۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور بہار ایسے جھٹکوں کا عادی ہوچکا ہے اور سچ بولنے کی ہمت، سکت اور پوزیشن ہم میں نہیں ہے، بس "لوٹنا، لوٹنا، لوٹنا اور کشکول گدائی” ہی ریاست بہار کی قسمت میں لکھا ہے اور یہ سلسلہ شروع سے لے کر اب تلک جاری وساری ہے اور اِس طرف سے ہاتھ کھینچنے کی کوئی بات نہیں کرتا۔ یقیناً آج پپو یادو اسپتال کے بیڈ پر لیٹے یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ میں کس مردہ قوم کی نمائندگی کر رہا تھا، جو آج میری گرفتاری پر آواز بلند کرنے کی بجائے ایک اسکول ٹیچر کے نام دریافت کرنے میں مصروف ہے، آپ ذرا سوچئے پٹنہ کے خان سر کے پیچھے جتنے لوگ بھونکنے میں لگے ہوئے ہیں، اس سے کیا حاصل ہونے والا ہے؟ ہر خاص و عام ادنیٰ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے سیاسی گلیاروں تک اور سوشل میڈیا سے الیکٹرانک پرنٹ میڈیا تک، ہر شخص یہی جاننے کے لئے بےتاب ہے کہ خان سر کا نام کیا ہے؟ فیصل خان یا امیت سنگھ، پورا ملک جس طرح خان سر کی فضول سچائی جاننے کے لئے سرگرم ہے، کاش کہ اتنے لوگ پپو یادو کی بے باک تحریک کا حصہ بنتے اور اپنی صلاحیتوں کو سرکار کی سچائی جاننے میں صرف کرکے سرکاری سسٹم کی خامیوں کو بے نقاب کرتے، تو آج پپو یادو جیسا غریبوں کے مسیحا سلاخوں کے پیچھے نہ ہوتے، مگر ہر کسی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے؛ اس لئے کہ حکومت کے خلاف زبان کھولنا ٹھیک اس محاورہ کے مانند ہے "آ بیل مجھے مار” اور سب نے گاہے بگاہے، ہر لمحہ ہر وقت سرکار کی منشا کے مطابق جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم جاری کر رکھی ہے۔
عصرحاضر میں وطن عزیز کو حکمرانوں نے جس موڑ پہ لا کھڑا کردیا ہے، اس نے ایک بار پھر سے انگریزوں کی غلامی والی زندگی یاد دلا دی ہے، جس طرح غلامی کے دور میں سچ بولنا یا ظالم انگریزوں کی جانب سے ہندوستانیوں پر ظلم و بربریت کے خلاف زبان کھولنا گویا کہ اپنی موت کو دعوت دینا تھا، اسی طرح حال میں حکومت کی کسی بھی بدعنوانی، کالابازاری، یا سرکاری خامیوں کو بے نقاب کرنا گویا خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ خدا اِس ارض وطن بھارت اور خاص کر بہار کی خیر کرے، اِس پرکیا عجب وقت آن پڑا ہے۔