فہیم اختر
لندن
[email protected]
www.fahimakhter.com
ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ فلاں شخص ’ مگر مچھ کے آنسو بہا رہا تھا‘۔صدیوں سے مگر مچھ کے آنسو کا محاورہ استعمال ہوتا چلا آرہا ہے۔تاہم مگر مچھ کے آنسو سطحی ہمدردی ، جھوٹے جذبات ، اورمکاری پر مبنی نمائش سے تعبیر کی جاتی ہے۔جیسے ایک منافق، غم کے آنسو بہا کر گریہ و زاری کر رہا ہو۔ہم عام فہم زبان میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ ، مگر مچھ کے آنسو کو ایک طرح سے ایسے لوگوں کے آنسو سے تشبیہ دی جاتی ہے جو بغیرہمدردی یا وجہ کے صرف دکھاوے کے لیے آنسو بہاتے ہیں۔
ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ اکثر لوگ جھوٹی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے آنکھوں کو نم کر لیتے ہیں تا کہ کچھ پل کے لیے درد میں ڈوبا انسان اس شخص کی نم آنکھوں سے متاثر ہو کر اپنے درد میں اس کو شریک سمجھنے لگتا ہے۔جس سے انسان کا غم کچھ پل کے لیے ہلکا ہو جاتا ہے اور وہ اس شخص کی تمام منفی باتوں کو بھول کر اس شخص کو اپنا ہمنوا اور غمخوار سمجھنے لگتا ہے۔تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مگر مچھ کے آنسو بہا کر اپنے جرم کو چھپانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ ایسا کر کے لوگوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں۔
مغربی ممالک اور خاص کر برطانیہ میں ایسا دیکھا گیا ہے کہ بیوی کے قتل یا پر اسرار موت یا اغوا پر سب سے پہلے ٹیلی ویژن پر شوہر آتا ہے اور مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اپنی بیوی کی موت ، قتل یا پر اسرار طور پر لاپتہ ہو جانے پر لوگوں سے قاتل کو پکڑنے کی اپیل کرتا ہے۔ نتیجتاً کچھ مہینے کی چھان بین کے بعد زیادہ تر ایسے شوہر جو مگر مچھ کی آنسو بہا کر اپنی بیوی کی موت یا اغواپر روتے ہیں ،بعد میںانہیں ہی پولیس قتل یا اغوا کی جرم می گرفتار کرتی ہے۔تبھی تو ایسے لوگوں کے آنسو کو’ مگر مچھ کے آنسو‘ سے مثال دی جاتی ہے۔
حال ہی میں ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے رونے پر بھی کچھ ایسا ہی لوگوں نے کہا ہے۔ دراصل ہندوستان میں کورونا کی دوسری لہر نے لاکھوں لوگوں کی جان لے لی ہے اور جس طرح سے دنیا بھر میں ہندوستان میں کورونا سے مرنے والوں کی خبریں اور ویڈیو وائرل ہوا ہے اس سے چھپّن انچ والے ہندوستانی وزیراعظم کی کھوکھلی باتوں کا پول کھل گیا ہے۔تاہم ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاید یہ سوچا کہ اگر میں ٹیلی ویژن پر روؤں گا تو لوگ ان کے اس ناٹک سے ان کے تئیں ہمدردی دکھائے گیں۔ لیکن وزیر اعظم شاید بھول گئے کہ جس طرح سے ہندوستان میں حال میں کورونا سے لوگوں کی جان گئی ہے اس سے ان کے رشتہ داروں میں ہندوستانی حکام اور حکومت کے خلاف جو غصہ بھڑکا ہوا ہے شاید اس کا نتیجہ ہندوستان کے آئندہ عام انتخاب میں ضرور نظرآئے گا۔
لیکن ہندوستانی وزیراعظم کو اب بھی ا س بات کی خوش فہمی ہے کہ لوگ ان کی نفرت کی سیاست اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے تحت پیدا ہونے والی نفرت کا ان کو اس بار بھی فائدہ ملے گااور عام لوگ ان کا ہی ساتھ دیں گے۔ خیر یہ تو آنے والا وقت بتائے گا ۔ تاہم کورونا سے متاثر لوگ کیسے وزیراعظم کی تھالی بجانے، دیا جلانے،سیاستدانوں کے گوبرلگانے ، گائے کے پیشاب پینے ا وربابا رام دیو کی اوٹ پٹانگ باتوں کو بھولیں گے۔جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم عوام کو کورونا سے محفوظ رکھنے کے عمدہ انتظام کرتے لیکنحقیقت میںانتظام تو دورکی بات آکسیجن کی حصولیابی کے لیے عام انسانوں کو درد ر بھٹکنا پڑا۔
مارچ اور اپریل کے مہینے میں ہندوستان میں قیامت جیسا سماں تھا۔ اور ستم ظریفی تو یہ تھی کہ ہندوستانی وزیراعظم اور وزیر داخلہ انسانی ہمدردی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقتدار کی بھوک میں ریاستی الیکشن میں خوب ریلیاں کیں ۔ جس سے لاکھوں کی تعداد میں معصوم لوگ ان سیاستدانوں کو دیکھنے اور سننے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ظاہر سی بات ہے جب وزیراعظم کو ہی ملک کی فکر نہیں ہے تو اپوزیشن بحالتِ مجبوری وزیراعظم کے جھوٹے وعدوں کا جواب دینے کے لیے میدان میں کود پڑی۔حالانکہ کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم کو ہندوستانی الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دینی چاہیے تھی کہ کورونا وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے انتخابی ریلیوں پر پابندی عائد کر دے۔تاکہ عام لوگ بھیڑ بھاڑ سے دور رہیں اور انہیں ٹیلی ویژن ، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنے اپنے پیغام کو لوگوں کو پہنچانا چاہیے تھا۔لیکن کہتے ہیں کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔
اس کے علاوہ سیاسی پارٹیاں اس بات سے بھی خوف زدہ تھیں کہ اگر انہوں نے ایسی اپیل کی کہ الیکشن کی ریلیوں کو مسترد یا پابندی لگا دی جائے تو ممکن ہے ہندوستانی وزیراعظم اس کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کو اس پارٹی کو بزدل بتا کر اس کا اور مذاق اڑائیں گے۔ویسے بھی وزیراعظم نریندر مودی دورانِ گفتگو تالی بجا کر بات کرنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ اب اگر آپ ہندوستانی پارلیمنٹ سیشن کا جائزہ لیں تو آپ کو حیرانی اس بات پرہوگی کہ ہندوستان کی باوقارپارلیمنٹ میں کئی بار وزیر اعثم نریندر مودی نے تالیاں بجا کر اپوزیشن کا مذاق اڑایا ہے۔ اس کے علاوہ سوال کے جواب میں سیاستدان کبھی شاعری یا کویتا سنا کر تو کبھی کوئی لطیفہ سنا کر یا کبھی فلمی ڈائلیگ بول کر پارلیمنٹ کے وقار کو دھچکا پہنچاتے رہتے ہیں۔ اور اصل سوال کا جواب نہ کبھی سنا جاتا ہے اور نہ اس کا جواب دینا اہم سمجھا جاتاہے۔اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں نعرہ بازی، آوازیں کسنا اور کبھی کبھی اسپیکر کے سامنے آکر سیشن کو نہ چلنے دینے جیسے واقعات بہت عام ہیں۔ جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔
اس کے بر عکس برطانوی پارلیمنٹ میں ہر بدھ کو برطانوی وزیراعظم کو اپوزیشن لیبر پارٹی جو سب سے بڑی حزب اختلاف کی جماعت ہے اس کے لیڈر کے سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے۔اور اگر کسی وجہ کر برطانوی وزیراعظم سوال کا جواب غلط دے دیا ،یا جواب نہیں دیا تو برٹش پریس سے اس کا بچنا مشکل ہوتا ہے۔ان ہی باتوں سے جمہوریت کی خوبصورتی ، اس کا صحی مفہوم اور اصل مقصدظاہر ہوتا ہے۔یوں بھی برطانیہ میں میڈیا کو عام لوگوں کی آواز سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کی پریشانیوں اور ان کے سوالات کو پارلیمنٹ اور سیاستدانوں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ پارلیمنٹ کا سلیکٹ کمیٹی بھی کافی فعال اور آزاد نہ طور پر اپنے فرائض کا انجام دیتا ہے جس سے وزیراعظم اور ان کے تمام وزراء سیلکٹ کمیٹی کے سامنے اچھے برے کاموں کے لیے جواب دہ سمجھے جاتے ہیں۔
مجھے ہندوستانی وزیراعظم کا سب سے پہلا رونا اب تک یاد ہے ۔جب انہوں نے پہلے عام انتخاب کی جیت کے بعد پارلیمنٹ میں رونا دھونا کیاتھا۔دراصل ان کے سامنے ان کی پارٹی کے معمر لیڈر ایل کے اڈوانی بیٹھے تھے۔ نریندر مودی نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فوراً ڈرامائی انداز میںروتے ہوئے ایوان میں موجود سیاستدانوں کو سکتے میں ڈال دیا۔ لیکن لال کرشن اڈوانی صاحب اتنے بے بس تھے کہ وہ اس وقت اپنی جگہ سے اٹھ کر نہ تو مودی کو گلے لگا کر اپنی ہمدردی کا اظہار کر پائے اور نہ ہی یہ کہہ پائے کہ ، ’مودی ،مگر مچھ کے آنسو مت بہاؤ‘۔اس کے بعد مودی اپنے اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے نہ جانے کتنے مواقع پر اپنے آنسو بہائے اور اس طرحوہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ کر انہیں الّو بناتے رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی وزیراعظم کورونا سے متاثر عوام کے لیے ہر طرح سے ناکام رہے ہیں جس کا اندازہ اور علم دنیا والوں کو ہو چکا ہے۔ دنیا یہ بھی جان چکی ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم اب تک سواے بات اور ڈائلیگ کے بالکل وہ کھوکھلے ہیں۔ تبھی تو ان کا سپاٹ چہرہ اور کھوکھلے جذبات اب ہندوستانیوں پر کوئی اثر نہیں کر رہا ہے۔گنگا ندی میں جس طرح لاشوں کی بہتی ہوئی تصاویر کو دنیا بھر لوگوں نے دیکھا تو سبھوں کے منہ سے ہمدردی میں ایک ’آہ‘ سی نکل پڑی ۔اورملک کے سنگدل وزیراعظم مودی سے بھی رہا نہیں گیا اور انہوں نے ٹیلی ویژن پر آکر ’مگر مچھ کے آنسو بہانے لگے‘۔
میں سمجھتا ہوں کہ انسان کسی انسان کی موت سے اتنا غمزدہ نہیں ہوتاہے جب تک وہ خود اس تکلیف یا دردسے نہ گزرا ہو۔اکثرہمارے ارد گرد لوگ فرشتوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں اور روایتی طور پر ہمارے غم میں شریک ہو کر رسم ِ تعزیت کو ادا کرکے کچھ پل کے لیے ہمارے غم کو بانٹ لیتے ہیں ۔لیکن ہندوستانی وزیراعظم مودی کے رونے کو دیکھ کر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ درد بانٹنا، غم میں شریک ہونا اور آنسو بہانامحض مگر مچھ کے آنسوہیں۔ شاید یہی تلخ سچائی ہے۔
میں اپنے اس شعر سے بات ختم کرتا ہوں کہ : رو رہا تھا جو میرے لاشے پر
اک وہی شخص میرا قاتل تھا