خواتین سرپنچوں وپنچوں کا عملی طور کردار برائے نام

0
0

فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی میں خواتین کی جگہ مرد سرگرم
شفقت شیخ

جموں؍؍خواتین کو ہر شعبے میں بااختیار بنانے کے تمام حکومتی دعوے یکے بعد دیگرے سرآب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سرکار کی جانب سے پنچایتوں میں خواتین کیلئے ریزرویشن ۳۳فیصد کردی تاکہ اس شعبے میں بھی خواتین مردوں کے مقابلے میں نظر انداز نہ کی جائیں۔ایک طرف سے جہاں سرکار نے خواتین کو با اختیار بنانے کے قابل ِ ستائش اقدام اٹھائے تھے وہیں دوسری جانب خواتین کے اِن اختیارات کو چھیننے کا کام اْن کے اپنے ہی انجام دیئے جا رہے ہیں۔ جہاں تک پنچایتوں میں خواتین کے اختیارات کا سوال ہے تو یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ خواتین کا پنچایتوں میں حصہ لینا برائے نام ہے۔ کیونکہ اکثر پنچایتوں میں جہاں خواتین بطور ِ سرپنچ اور پنچ منتخب ہوئی ہیں وہاں اْن پنچایتوں میں منتخب ہوئی اِن خواتین کا بحیثیت سرپنچ یا پنچ کوئی بھی کردار دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ جبکہ اکثر پنچایتوں سے آئے روز یہ شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ خواتین کا پنچایتوں میں حصہ لینا بلیک میلنگ کا ایک نیا دھندہ کھلنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ زیادہ تر خواتین سرپنچ /پنچ ایسی ہیں جن کا پنچایتی کام کاج اْن کے شوہر یا والدین کے ہاتھوں میں ہے جبکہ منتخبہ سرپنچ و پنچ خواتین کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ اْن کے اختیارات کو کس طرح اور کہاں کہاں استعمال میں لاکر بلیک میلنگ کی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق خاص طور پر ضلع رام بن اور ضلع ریاسی میں ایسے واقعات کی بھر مار ہے جہاں خواتین سرپنچوں و پنچوں کے اختیارات اْن کے اپنے بس میں نہیں بلکہ یا تو اْن کے شوہر یا پھر اْن کے والدین اْن کے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہی رہتے ہیں۔ اس طرح کی ایک مثال چند ماہ قبل ضلع ریاسی میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں ڈپٹی کمشنر ریاسی نے ایک خاتون سرپنچ کے خلاف نوٹس جاری کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ خاتون سرپنچ کے نام ضلع ترقیاتی کمشنر ریاسی نے اس بناء پر نوٹس نکالا تھا اور اسے سرپنچ کے عہدے سے خارج کرنے کی بات کی تھی کہ جب ڈپٹی کمشنر ریاسی نے عوامی دربار کے دوران یہ دیکھا کہ خاتون سرپنچ کے بجائے دربار میں مسائل ابھارنے کیلئے اْس کا شوہر اسٹیج پر آ یا جس پر ڈپٹی کمشنر نے فوری ایکشن لیا اور ایسی خواتین کو سرپنچ یا پنچ عہدوں سے برخاست کرنے کو کہا جن کے اختیار ات اْن کے شوہروں یا والدین کے ہاتھوں میں ہوں۔ پنچاتیوں میں خواتین کے اختیارات کا کسی اور کے ہاتھوں کھلونا بننے کی اِس صورتحال پر جب کئی سیاسی و سماجی شخصیات سے رائے لی گئی تو اْن کا کہنا تھا کہ اِ س طرح کے معاملات پر نظر ثانی کی جانی چاہیے کیونکہ اس طرح سے جہاں خواتین کو ہر شعبے میں با اختیار بنانے کا حکومتی مقصد فوت ہو جاتا ہے وہیں زمینی سطح پر تعمیر و ترقی کے بجائے بلیک میلنگ کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عام لوگوں کے اس طرح کے خدشات کو دیکھتے ہوئے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ پنچایتوں میں خواتین کا رول محض ایک رسم پری ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پنچایتوں میں خواتین کے کردار کا رموٹ کنڑول اس قدر کسی دوسرے کے قابو میں ہے کہ بلیک میلنگ کے لئے جس ادارے کو خط لکھا جاتا ہے اْس پر دستخط تک بھی سرپنچ کا نہیں ہوتا۔ بلکہ کوئی اْور ریزولیشن یا خط پر دستخط کر کے بلیک میلنگ کرنے کا دھندہ چلا رہا ہے، جو خواتین کے اختیارات چھیننے کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی پر روک لگانے کاناجائز حربہ ہے۔ لہٰذا خواتین سرپنچوں و پنچوں کو چاہیے کہ اپنے اختیارات اپنے تک ہی محدود رکھیں اور جس کام کے لئے انہیں عوام نے چنا ہے اس پر کام کریں نہ کہ اپنے اختیارات کو استعمال کسی اور کو کرنے دیں ۔ ظاہر ہے کہ اگر خواتین ہی اپنے اختیارات کا تحفظ خود نہیں کر پائی تو پھر خواتین کا ہر شعبے میں با اختیار بننے کا خواب چور چور ہو جائے گا اور یوں اْن خواتین کی محنت چند خواتین کی غیر سنجیدگی اور لا پرواہی کی بھینٹ چڑھ جائے گی جو اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ خواتین کو ہر شعبے میں بااختیار بنانے کی جدوجہد کر رہی ہیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا