باپ سایہ دار شجر،قدرکریں،خدمت کریں

0
0

 

 

 

ایم شفیع میر

باپ دنیا کی وہ عظیم ترین ہستی ہے جو اپنے بچوں کی بہترین پرورش اور ان کی راحت کے لئے ہمہ وقت کوششوں، کاوشوں اور مشقتوں میں مصروف عمل رہ کر زندگی گزارتاہے اور ضرورت پڑنے پر جان تک کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔ ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو اعلیٰ سے اعلیٰ میعار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے اور معاشرتی ترقی میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرسکے۔ پیارے مذہب اسلام میں باپ کوبڑارتبہ حاصل ہے جبکہ احادیث مبارکہ میں باپ کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور باپ کی خوشنودگی کو ربّ تعالیٰ کی خوشنودگی قراردیا گیا ہے۔باپ اللہ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے، خوش نصیب اور خوش بخت ہیں وہ لوگ جنہیں یہ عظیم نعمت ابھی میسر ہے۔ باپ ایک سایہ دار شجر ہے جس کے سایہ میں بچے محفوظ ہوتے ہیں، ہر غم اور ہر ستم سے آزاد ہوتے ہیں،نہ فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کا ڈر، باپ حوصلہ ہوتا ہے اک ایسا حوصلہ جو صرف اور صرف باپ کے ہونے تک ہی ہوتا ہے۔
والد کی محبت و شفقت ٍ، عنایا ت و خدمات ،محنت،حوصلہ وہمت کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔باپ ایک عظیم انسان ہے ماں اگر بنیاد ہے تو باپ اس بنیاد کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے والد کی محبت تحفظ کا احساس ہے والد ایک عظیم تحفہ خداوندی ہے جو ہر درد ،دکھ سہہ کر اولاد سے وفا کرتا ہے آج اسی عظمت و شفقت سے سرشار لفظ پر لب کشائی کرتے ہیں
والد کا سایہ رحمت ربی ہے،والد ایک سائبان شفقت ہے جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے۔ باپ کے ہوتے ہوئے اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔ والد کے ہوتے ہوئے اس کے بچے بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جیسے ہی باپ کا سایہ عافیت سر سے اٹھتا ہے تو فوراً ہی اولاد کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سر پر کتنا بوجھ آن پڑا ہے والد دنیا میں اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے۔ انسان جو کچھ بھی ہے والد ہی کی وجہ سے ہے۔ والد اپنی اولاد کی پرورش کے لیے اپنی جان تک لڑادیتا ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی اولاد کی راحت رسانی میں صرف کردیتا ہے۔ دنیا کی تمام نعمتیں اولاد کو لاکر دینے کی کوشش کرتا ہے، جس کے لیے اپنی خواہشات کو بھی دبا دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کو خود سے آگے جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، کسی دوسرے کو خود سے زیادہ ترقی کرتا ہوا دیکھ کر شاید ہی کوئی خوش ہو لیکن والد کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ چاہتا ہے اس کی اولاد اس سے آگے بڑھے۔ وہ بچوں کو ترقی کرتا ہوا دیکھ کر پھولا نہیں سماتا۔ خود اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے کوشش کرتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ جو کام میں نہیں کرسکا میرے بچے کریں۔
جدائی لفظ سے ہی میں تڑپ جاتا ہوں چونکہ جدائی کا احساس دلانے والے بے شمار کرم فرما ہیں، جدائی بہت اذیت ناک ہوتی ہے وہ بھی اپنے والد کی ہو تو خوشیوں کی دنیا ویراں ہو جاتی ہے جب اس شجر ہائے سایہ سے انسان محروم ہوجاتا ہے تو یقین کریں انسان دنیا میں اکیلا پڑ جاتا ہے کوئی کتنا بھی سہارا دے پر بابا کی جدائی کا زخم بھر نہیں جاتا۔
میرے عظیم باپ آج سے 18برس قبل 15نومبر2003،بمطابق19رمضان المبارک ،بوقت نمازِ مغرب مجھے دنیاداری کی تھپیڑوں میں تنہا چھوڑ کر ابدی دنیا کو کوچ کر گئے۔
یہ وہ مشکل وقت تھاجب میں اِس حوصلے ، اِ س سائے سے اوراِس عظیم ترین نعمت سے محروم ہوگیا۔جب مجھ بدنصیب کے سر پہ آسمان ٹوٹ پڑا ،پائوں تلے زمین کھسک گئی، یہ وہ سیاہ شام تھی جس شام نہ ہمارے لئے کوئی باقی رہا نہ ہم کسی کے لئے رہے، وہ زندگی جہاں بہاریں ہی بہاریں تھیں،وہاں اک ایسی خزاں نے ڈھیرے ڈالے کہ خوشیاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے روٹھ گئیں، یوں مسرتوں کی کھلکھلاتی شادمانیوں میں مست معصوم سی زندگی پر اک ہمالہ جیسا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔وقت ِنادانی میں والد محترم کی وفات میرے لئے ایک چیلنج بن کر سامنے آگئی۔مشکلوں، دُکھوں،مصیبتوں اور قدم قدم پر کٹھنائیوں نے اِس قدر گھیر لیا کہ اِن سے مقابلہ کئے بغیر بچ کر باہر نکل آنے کے تمام راستے بند تھے۔زندگی واقعی ایک امتحان ہوتی ہے، اِس کا مجھے شدت سے احساس ہوا،ایک طرف کٹھن حالات تو دوسری جانب معاشرے کی مصنوعی تسلیاں ،سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ زندگی کو کس طرح بسر کیا جائے۔ایسا لگ رہا تھا کہ بیچارگی،بے سہارگی ،مایوسی اور بے بسی جیسے اب اپنا مقدربن چکی تھیں۔موت کے فرشتے نے سر سے سایہ کیا چھین لیا تھا کہ وہ بچپن جو ہنسی، خوشی اور شرارتوں میں گزرنے کا ہوتا ہے آنسوں بہانے میں بیت گیا،ہنستی بستی زندگی پر ویرانی سی چھا گئی،چہار سو اندھیرا ہی اندھیر برپا ہوگیا،خوشیوں، مسرتوں اور محبتوں کے چمکتے دمکتے آباد گھر میں اک ختم نہ ہونے والا سناٹا چھا گیا، اک مستقل تاریکی نے اک روشن گھر کو اندھیرے میں دھکیل دیا،مقدر نے ایسا کھیل کھیلا جس کا وہم و گمان نہیں تھا، کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یوں میرے بچپن میں ہی میرے سر سے سایہ اُٹھ جائیگا اور اک معصوم سی زندگی کو دنیا کی نفرتوں ، کدورتوں، رنجشوں، طعنوں اور ٹھوکروں کی زد میں گزارنا پڑے گا۔وقت نے ایسی کروٹ بدلی کہ وہ سب کچھ خود کرنا پڑا جو ایک باپ لاکھوں ستم و غم اٹھا کر اپنے بچے کیلئے کرتا ہے۔میں بچپن میں ضرور تھا لیکن وہ سخت لمحات جن میں میرے والد مرحوم نے اپنی زندگی کے ایام گزارے، ایک ایک کر کے یاد ہیں۔والد محترم نے تقریباً۳۰ برس بطور ِ امام اپنی محلہ مسجد میں فرائض انجام دیئے ۔ دوران ِ امامت اُس محلہ مسجد کو آباد کرنے میں والد مرحوم نے جس قدر اذیتیں اُٹھائیں اور مشکلات کا سامنا کیا ،اُن کا ذکر کرنا محال ہے،لیکن والد مرحوم کا زندہ دلی اور دینی جذبے کیساتھ اُن اذیتوں اور مصیبتوں سے ثابت قدمی کے ساتھ گزرنا اور اللہ سے اپنا رابطہ بنائے رکھنے کا ہی صلہ ہے کہ اللہ رب العزت نے موت کے فرشتے کو والد مرحوم کی روح قبض کرنے کیلئے تب بھیجا جب وہ نماز ِ مغرب کی آخری رکعت اللہ کے حضور سجدہ ٔ ریزتھے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ والدکی وفات اور اِن ہی تلخ تجربات نے مجھے دنیا میں مشکلوں سے لڑ کرجینے کا ہنرتوسکھا دیا لیکن میں والد مرحوم کی کمی کے باعث زندگی کے کسی بھی اچھے موقع سے لطف اندوز نہیں ہوسکا۔ میری خوشیاں، میری دنیا اور میرے دل کی مسکراہٹ والد صاحب کیساتھ منسلک تھی ،لیکن اُن کے جانے کے بعد تمام تر مسرتیں ، رعنائیاں کھوگئیں،سب ویران پڑگیا۔والد محترم گھرکی تمام رونقوں اور رنگینوں کواپنے ساتھ ہی لیکر گئے،تمام تر رونقیں اُنہی کے دم سے تھیں، سب پھیکا پڑ گیا، اک چمن تھا جو اُجڑ گیا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دُکھ عابیؔ
سنا ہے باپ زندہ ہوتو کانٹے بھی نہیں چبھتے
بلا شبہ میرے والد مرحوم بھی اپنے مقررہ وقت پر ہی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے اور ایسا بھی نہیں کہ دنیا کا واحد انسان صرف میں ہی ہوں جس کے ساتھ اس طرح کا حادثہ پیش آیا ہو ،ہرگز نہیں اِس دنیا میں ایسے بہت سارے ہیں جنھوں نے معصوم سی زندگی میں اپنے والدین کوکھویا ہے ،کچھ تو ایسے بدنصیب ہیں کہ جنہیں اپنے والدین کادیدار تک میسر نہیں ہوا ہے۔لیکن سچ کہوں تو جب تک انسان پر والدین کا سایہ ہوتا ہے تب تک انسان بادشاہت کی زندگی گزارتا ہے۔انسان کتنا بھی بڑا ہوجائے لیکن اپنے والدین کے سامنے وہ ایک معصوم بچے کی مانند ہی ہوتاہے۔
جن خوش بخت لوگوں کے والدین ابھی بقید حیات ہیں،وہ اُن کی قدر کریں،اُن کی خدمت کریں،اُن کی فرمانبرداری کریں، اُنکو ہر حال میں خوش رکھیں ،اس پہلے کہ جنت کے دروازے بند ہوجائیں فائدہ اٹھا لیا جائے ،والدین کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔والدین کیساتھ ہر گز ہرگز قطعی کلامی نہ کریں، کیونکہ والدین کی قدر وہی جانتا ہے جو اِس مشکل دور سے گزرا ہو۔باپ وہ سایہ دار درخت ہے جس کی ٹھنڈک بھری چھاؤں میں تمام فکریں ماند رہتی ہیں۔ باپ کا وجود بیٹوں ، بیٹیوں کے لیے ایک سائبان کی حیثیت رکھتا ہے۔ باپ کی خوشی میں میرے رب کی خوشی ہے اور باپ کی ناراضگی میں رب بھی رُوٹھ جاتا ہے۔ باپ کا پیار اور شفقت عظیم نعمت ہے جس کا متبادل کوئی نہیں ہے اور باپ کی سختی کامل ذریعہ نجات ہے۔ باپ کی قُربت خوش بختی کی علامت ہے اور جدائی ایک عظیم سانحے سے کم نہیں ، باپ دوست اور دُکھ درد کا ساتھی ہے تو باپ بلا کا حوصلہ اور ہمت بھی ہے۔ باپ دعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے تو بیڑے پار ہو جاتے ہیں اور اگر باپ کا دل دُکھ جائے تو خدا کا عرش ہلنے لگتا ہے اور بس اِک کہرام مچ جانے کی دیر ہوتی ہے۔
اس لئے میرے پیار بھائیو اور دوستو!جن کے والد صاحبان سلامت ہیں، اُن کا خیال رکھیں، اُن کی ہر بات کی پرواہ کریں، اُن سے دل کی باتیں کریں اُن کے دل کی باتیں سنیں۔ اُن کے سامنے نگاہیں جھکا کر بات کریں اُن کی بات کو ترجیح دیں۔ اُن کے پہناوے ، اور ضروریات کا خیال رکھیں اُنہیں کبھی شرمندہ نہ ہونے دیں۔ باپ کو یہ یقین دلائیں کہ آپکا سارے کا سارا وجود اُن کی ملکیت ہے جو اُن کے ہر حکم پر لبیک کہے گا۔ باپ کے ماتھے پر کبھی بل نہ آنے دیں بلکہ آپ اُن کی چہرے کی رونق کی وجہ بن جائیں۔جن کے والدین ابھی حیات ہیں،اللہ انہیں صحت و تندرستی سے نواز دے اور اُنہیں کامل ایمان و سلامتی نصیب فرما ۔بچوں کو اپنے والدین کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما اور جن جن کے والد یا والدین فانی دنیا سے کوچ کر گئے ہیں اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ارفع مقام نصیب فرما۔ میرے والد مرحوم کو بھی کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائےـ( آمین ثم آمین یا رب العالمین)
صاحبِ مطالعہ سے بھی دعاؤں کی مودبانہ،مخلصانہ اور عاجزانہ التجا ہے۔
9797110175,7780918848
[email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا