ابھی بہت کچھ باقی

0
0

یوٹی انتظامیہ کے سرکار ی ترجمان نے گزشتہ کہا ہے کہ کووِڈ۔19 کے تناظر میں جموں وکشمیر حکومت نے لوگوں کو چوبیس گھنٹے سہولیت فراہم کرنے کے لئے 108 ایمبولنسیں خدمت فراہم کر رہی ہیں۔اَب تک 1,653 کووِڈ مشتبہ افراد کو علاج کے لئے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے اور 4,350 کووِڈ مریضوں کی زندگی کو بچائی گئیں۔ کووِڈمریضوں کو قریبی نامزد کردہ کووِڈ صحت مراکزمیں منتقل کرنے کے لئے یوٹی کے ہر ضلع میں مناسب ایمبولنسوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ ان ایمبولنسوں کو کسی بھی طبی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری دوائیں مل رہی ہیں اور ان میں ٹرانسپورٹ وینٹی لیٹر ، مانیٹر ، ڈیفبریلیٹر اور زندگی کی بحالی کے اہم سازوسامان شامل ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ کسیجن کی فراہمی کا نظام اہم مریضوں کو منتقل کرنے کے لئے خصوصی سٹریچر کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ یہ طبی نظام کسی اور ریاست کا نہیں بلکہ نئی نویلی ریاست سے یوٹی میں تبدیل ہوئی یوٹی جموں وکشمیر ہے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یوٹی کا طبی نظام مکمل فعال ہے ۔ لیکن زمینی سطح کی حالت کی خبریں بھی ہر روز اخباروں کی زینت ہوتی ہے مجموعی اعتبار کسی بھی علاقے کے طبی نظا م کی مظبوطی بہت اہم ہوتی ہے قارئین کو یاد ہوگا کہ پونچھ کے نامی گرامی سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے لورن بلاک کے ممبر ترقیاتی کونسل ریاض نازن پونچھ میں ہارٹ کا بنیادی علاج نہیں ملا تھا ایمرجنسی بنیادوںپر انہیں فوری جموں ریفر کیا گیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا جو طبی نظام کورونا کے لئے بنایا گیا ہے اسکو مذید بھی اسی طرح جاری رکھاجائیگا ۔ جموں و کشمیر کاسرکاری طبی نظام اگر اتنا ہی بہتر ہے پھر ایمرجینسی مریضوں کو بنیادی علاج کے لئے جموں یا پھر سرینگر کیوں رووانہ کیا جاتا ہے ۔ دور دراز علاقہ جات میں طبی نظام سے عوام کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے ۔ جس میں بنیادی طبی مراکز میں ملازمین کا رویہ ، ملازمین کی حاضری ، بنیادی سہولیات کا نہ ہونا ، اورسب سے بڑی پریشانی طبی مراکز کے لئے اسٹاف کا مکمل نہ ہونا ہے ۔ یہ بات سچ ہے کہ کسی حد تک طبی نظام کو کورونا نے بہتر ہونے کے جنجھوڑا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ بنیادی طبی مراکز کے ملازمین کو اپنی ذمہ داری کے لئے جوابدہ ہو نا بھی بہت اہم ہے ۔ اور اس سے اہم نجی طبی نظام کے مقابلے میں سرکاری طبی نظام کو صحیح کرناہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا