اسمبلی نشستوں کی حد بندی کرنے والے کمیشن کے دفاتر کو دلی سے جموں و کشمیر منتقل کیا جائے
لازوال ڈیسک
سرینگر؍؍ہندوستان کے ممتاز شہریوں پر مشتمل ‘دی کنسرنڈ سٹیزنز گروپ’ (سی سی جی) نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کشمیری عوام مقامی نوجوانوں میں پائے جانے والے غصے اور ان میں بندوق اٹھانے کے بڑھتے ہوئے رجحان سے خوفزدہ ہیں۔مذکورہ گروپ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان ہو رہی تصادم آرائیوں اور بڑی تعداد میں جنگجوؤں کے مارے جانے کے باوجود بھی وادی کشمیر میں گذشتہ دو برسوں سے جنگجوؤں کی تعداد کم نہیں ہو رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی میں سری نگر سمیت دیہی و شہری علاقوں میں بھی ملی ٹنسی کی حمایت بڑھ رہی ہے۔بتا دیں کہ مذکورہ گروپ سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا، سابق بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ، ممتاز فلم ساز کپل کاک، سینئر سپریم کورٹ وکیل بھارت بھوشن اور سشوبھا بروے پر مشتمل ہے جو پانچ اگست 2019 کو دفعہ 370 کی تنسیخ کے فیصلے کے بعد 30 مارچ سے 2 اپریل تک کشمیر کے تیسرے دورہ پر تھا۔گروپ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے: ‘کشمیری عوام نوجوانوں میں پائے جانے والے غصے اور ان میں بندوق اٹھانے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے خوفزدہ ہیں۔ تصادم آرائیوں اور جنگجوؤں کے بڑی تعداد میں مارے جانے کے باوجود بھی کشمیر میں گذشتہ دو برسوں کے دوران جنگجوؤں کی تعداد کم نہیں ہوئی ہے۔ سری نگر سمیت وادی کے دیہی و شہری علاقوں میں ملی ٹنسی کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے’۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکورٹی فورسز کے خلاف ناراضگی اور ملی ٹنسی کی حمایت میں اضافے کی ایک بنیادی وجہ تصادم آرائیوں کے دوران ان مکانوں کو اڑانا محسوس کی جاتی ہے جن میں جنگجو پناہ گزین ہوتے ہیں۔گروپ کا کہنا ہے کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے صرف وہ مکان نہیں اڑائے جاتے ہیں جن میں جنگجو پناہ گزین ہوتے ہیں بلکہ متصل مکانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال کے سخت ترین سیال کے دوران بھی کشمیر میں ان مکانوں کا اڑانے کی پالیسی جاری رہی جن میں جنگجو پناہ لیتے تھے۔مذکورہ گروپ کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ مرکزی حکومت اکثر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے لیڈروں پر کشمیر کو لوٹنے کا الزام لگاتی ہے لیکن آج سری نگر میں ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ وادی میں کریشن عروج پر ہے۔ لوگ سرکاری ملازمین پر معمولی کام کے نپٹارے پر بھاری رقم طلب کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے: ‘ہمارا گروپ حریت لیڈر اور کشمیر کے اعلیٰ مذہبی لیڈر میرواعظ عمر فاروق سے ان کی رہائش گاہ پر ملنے گیا لیکن پولیس نے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ ہم ان کی رہائش گاہ کے گیٹ کے باہر قریب بیس منٹ تک کھڑے رہے اور ان کی رہائش گاہ کی حفاظت پر مامور ایک پولیس افسر یہ اصرار کرتا رہا کہ میر واعظ خانہ نظر بند نہیں ہیں لیکن آپ بعض مخصوص حالات کے پیش نظر ان سے نہیں مل سکتے ہیں’۔مذکورہ گروپ نے کہا کہ ہم نے باہر سے ہی میرواعظ کے ساتھ فون پر بات کی وہ بہت ہی افسردہ تھے۔رپورٹ میں جموں وکشمیر انتظامیہ اور ملک کی سیاسی جماعتوں کے لئے کچھ تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ان تجاویز میں کشمیریوں میں پائے جانے والے غصے کو دور کرنے کے لئے جمہوری راستے کھولیں جائیں۔ ان دیہاتی لوگوں کے مکانوں کو نہ اڑایا جائے جن میں جنگجوؤں نے زبردستی پناہ لی ہوتی ہے۔ صحافت کو جرم قرار نہ دیا جائے اور صحافیوں کو زمینی سطح سے رپورٹنگ کرنے کی اجازت دی جائے۔کشمیر میں اقلیتی فرقے کے لوگوں کے تحفظ اور ان کے مالی حالات کو مستحکم بنانے کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی جائے۔ ڈی ڈی سی ممبروں کو اپنے اپنے انتخابی نشستوں میں جانے کی اجازت دی جائے۔ اسمبلی نشستوں کی حد بندی کرنے والے کمیشن کے دفاتر کو دلی سے جموں و کشمیر منتقل کیا جائے اور حزب اختلاف کی قومی سیاسی جماعتوں کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ یہاں مقامی سیاسی لیڈروں اور سول سوسائٹی ممبروں سے مل سکیں وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔