مشہورصنعت کار معین الحق چودھری کا انتقال

0
0

لازوال ڈیسک

ممبئی؍مشہور ومعروف صنعت کار،سنجمن اسلام کے جوائنٹ سکریٹری اور جامعہ الازہر مصر سے تعلیم عنصری سربراہ مملکت جمال عبدالناصر کی ہندوستانی دورے کے موقع پر مترجم رہے،جناب معین الحق چودھری آج یہاں دوپہر شمال مغربی کے باندرہ میں اپنی رہائش گاہ الحق میں 85 سال کی عمر میں انتقال کرگئے،پسماندگان میں بیوہ جوکہ صاحب فراش ہیں،تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔بعد نماز مغرب جنوبی ممبئی کے بڑے قبرستان میں انہیں اہل خانہ اور ادبی،سیاسی اور سماجی تنظیموں کے نمائندوں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ وہ ایک طویل مدت سے ذیابیطس کے مریض تھے جو آخر جان لیوا ثابت ہوا۔ان کے قریبی ذرائع کے مطابق معین الحق چودھری1936 میں الہ آباد کے موضع شہزاد پور میں عبد الحق چودھری کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ انھیں الہ آباد کے مدرسہ سبحانیہ میں داخل کیا گیا اور الہ آباد ہی سے انہوں نے ہائی اسکول کیا اور پھر اپنے والد کے ساتھ ممبئی آگئے،شعبہ اردو ممبئی یونیورسٹی کے سابق صدر عبدالستار دلوی کے مطابق اسماعیل یوسف کالج میں وہ دونوں کلاس فیلو رہے،انہوں نے عربی اور فارسی میں ایم اے کیا تھا۔ بعد ان کومشہور سینٹ زیوئرس کالج میں داخل کیا گیا جہاں ان کے خاص مضامین میں عربی اور فارسی جیسی بلیغ زبانیں شامل تھیں۔ ان کے والد عبد الحق چودھری چونکہ تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے تو انہوں نے اپنے فرزند ِاکبر معین الحق چودھری کو اعلیٰ تعلیم کے لیے مصر کی جامع القاہرہ بھیج دِیا۔بتایا جاتا ہے کہ 1960 کی دہائی میں جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر ہندوستان کے دورہ پر تشریف لائے تو مرحوم معین الحق چودھری مختلف مقامات پر ان کے جلسوں میں صدر مصر کی تقریر کا ہندوستانی میں ترجمہ کرتے تھے۔بتایا جاتا ہے کہ معین الحق چودھری نے مصر سے لَوٹنے کے بعد کچھ مدت شہر کے ایک ممتاز ادارے "مہارشٹرا کالج” میں درس و تدریس کی خدمات بھی انجام دیں۔انہوں نے اپنے والد کیکاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا اور کپڑے کی چھپائی میں انہوں نے اپنے ہم پیشہ لوگوں سیسبقت حاصل کی اور کپڑے کی چھپائی وغیرہ کے کام کو انہوں نے جدید مشینوں سے جو ڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا یہ آبائی کاروبار خوب خوب ترقی کرتا گیا اور اپنے ہم وطنوں اور ہم پیشہ لوگوں میں انہوں نے ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا، گوریگاو?ں میں کپڑے کی پرنٹنگ کا کارخانہ جلد ہی ایک مِل کی سی حیثیت اختیار کر گیا۔معین الحق چودھری کے خمیر میں ابتدا ہی سے علم دوستی تھی جس کے سبب انھیں اپنے ہم عمروں میں ایک امتیازی تشخص بھی ملا چونکہ وہ اْردو ،فارسی اور عربی کے طالب علم رہے تو انہوں نےUPIA کے نام سے ایک ادارہ بنایا تھا جس میں اْردو، پرشین، اسلامک اسٹیڈیز اور عربی کے اکثر طلبا شامل تھے اور معین الحق چودھری اس ادارے کے زیر اہتمام گاہے گاہے اجلاس بھی کرتے رہتے تھے۔عروس البلاد ممبئی کے دورِ گزشتہ میں سماجی اور علمی میدان میں جو اشخاص اپنے اخلاص کے سبب ممتاز رہے ہیں ان میں سید محمد زیدی،پروفیسر محی رضا اور معین الحق چودھری کا مثلث پرانے لوگوں کے ذہن میں اب بھی یادگار ہے۔ ان کے تعلق سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ جب مصر کے قائد جمال عبد الناصر یہاں آئے تھے تو ان کی تقریر کا ترجمہ معین الحق چودھری ہی کر رہے تھے۔انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے ان کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اداری نے ایک قابل وباصلاحیت عہدیدار کوکھو دیاہے،وہ انجمن اسلام طبیہ کالج سے بھی وابستہ تھے اور ایک شعبہ ان کی والدہ کے نام سے بھی مخصوص ہے جبکہ سیاحت کے شعبہ کے ایک تاجر ذکائ￿ اللہ صدیقی نے انہیں ایک۔مخلص اور نیک انسان قرار دیاشہر کے ممتاز سماجی اور تعلیمی کاموں میں سرگرداں ایک نیک۔مخلص انسان تھے،رضوان فاروقی نے بھی تعزیتی بیان میں انہیں ایک ایسا انسان قرار دیا جوکہ دینوی ترقی کے باوجود دینی معاملات میں سرگرم رہا تھا۔مرحوم چودھری کے ایک قریبی عزیز اشفاق احمد صدیقی نے بتایا کہ وہ علم دوست اور اہل علم و ادب کے قدر داں تھے، ممبئی کے ممتاز تعلیمی ادارے انجمن اسلام سے ان کی وابستگی اس امر کا مظہر ہے۔ وہ انجمن کے جوائنٹ سیکریٹری رہے اور ان کی علم دوستی کا ایک مثالی عمل انجمن کی قدیم ’کریمی لائبریری‘ کی تجدید بھی ہے جس کا سہرا اْنہیں کے سَر بندھتا ہے۔ انجمن اسلام کا اندھیری میں نسواں کالج معین الحق چودھری کی والدہ جمیلہ بیگم سے موسوم ہے۔ جسکے قیام میں ان کی اعانت بھی ایک ریکارڈ ہے۔ ممبئی کی سماجی اورسیاسی شخصیات ان سے واقف ہی نہیں بلکہ ایک تعلقِ خاطر بھی رکھتی تھیں مگر معین الحق چودھری نے زمانے کے عام رویے سے اجتناب کرتے ہوئے اس تعلق سے کسی قسم کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں اْٹھایا۔ راقم کی ان سے ذاتی نسبت رہی ہے لہٰذا پورے وثوق کے ساتھ یہ عرض ہے کہ اِن تمام تعلقات کے باوجود وہ کسی لیڈر کسی وزیر سے کسی قسم کی سیاسی غرض کیطالب نہیں رہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس کا تصور بھی ان کی فطرت میں نہیں تھا۔ ممبئی میں معین الحق چودھری نام و نمود سے بے نیاز خدمت کرنے والوں میں ایک امتیازی تشخص کے حامل تھے۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ اور تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ آج ہی ان کے جسدِ خاکی کو بڑا قبرستان (نزد میرین لائن) میں سپردِ لحد کیا گیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا