سیتاپور لوجہاد،مزید چار ملزمین کی ضمانت منظور

0
0

ابتک جمعیۃ علماء کی کوششوں سے دس ملزمین کی ضمانت،ناانصافی اور ظلم کے خلاف ہماری لڑائی جاری رہے گی۔ مولانا ارشد مدنی
لازوال ڈیسک

نئی دہلی؍؍ اتر پردیش کے ضلع سیتاپور کے قصبہ تمبور کے لو جہاد معاملے میں گذشتہ چار ماہ سے جیل میں مقید مزید 4 مسلم ملزمین کی نچلی عدالت نے ضمانت منظور کرلی ہے، ابتک اس معاملے میں جمعیۃ علما ء کی کوششوں سے دس ملزمین کی ضمانت منظورہوچکی ہے جس میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ اطلاع جمعیۃ کی جاری کردہ پریس ریلیز میں دی گئی ہے۔سیتا پور ٹرائل کورٹ کے جج بھگوان داس گپتا نے ملزمین اسرائیل ابراہیم، معین الدین ابراہیم، نداف اور پپو عرف صدام کو مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے پرایڈوکیٹ امریندر سنگھ، ایڈوکیٹ رضوان اور ایڈوکیٹ فرقان خان نے ملزمین کی ضمانت عرضی پر بحث کی تھی جس کے بعد عدالت نے چاروں ملزمین کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔اس سے قبل عدالت نے جنتن ابراہیم، افسر جہاں اسرائیل، شمشاد، رفیق اسماعیل، جاوید شاکر علی اور محمد عاقب منصوری کی ضمانت منظو ر کی تھی۔دوران بحث ایڈوکیٹ امریندر سنگھ، ایڈوکیٹ رضوان اور ایڈوکیٹ فرقان خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ پولس نے عرضی گذار ملزمین کو حراست میں لیکر آئین ہند کے ذریعہ دی گئی ان کی شخصی آزادی ختم کردی ہے اور اس معاملے میں پولس نے چارج شیٹ بھی داخل کردی ہے لہذا ملزمین کو فوراً ضمانت پر رہا کیا جائے۔وکلا نے عدالت کو بتایاکہ ملزمین کے خلاف 26 نومبر کو مقدمہ قائم کیا گیا جبکہ 28 نومبر 2020 کو اتر پردیش کے گورنر آنندی بین پٹیل نے ’’غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020‘‘ پر دستخط کیئے یعنی کے اس مقدمہ پر غیر قانونی طور پر اس قانون کا اطلاق کیا گیا ہے جو غیر قانونی ہے جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ لڑکی واپس آگئی ہے اور اس نے پولس کو دیئے گئے اپنے بیان میں اس نے کہا کہ ہیکہ اسے جبراً مذہب تبدیل کرنے کے لیئے اکسایا نہیں گیا ہے اور نہ ہی اسے اغوا کیا گیا تھا لہذا لڑکی کے بیان کی روشنی میں ملزمین کو فو راً جیل سے رہا کیا جانا چائے جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے چاروں ملزمین کو مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔ اس معاملے میں ایک ہفتہ قبل ہی بحث ہوچکی تھی لیکن فیصلہ گذشتہ کل ظاہر کیا گیا۔ضمانت کے اس فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعی? علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ہم ضمانت سے مطمئن نہیں ہیں، عدالت کو اس مقدمے کو خارج کرنا چاہئے کیوں کہ یہ معاملہ قانون بننے سے پہلے کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعی? کی کوشش ہے کہ ناانصافی اور ظلم کے خلاف لڑائی لڑی جائے۔انہوں نے کہا کہ خواہ تبلیغی جماعت کا معاملہ ہویا مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں جیل میں بند کرنے کا معاملہ ہویا دیگر معاملے ہوں، جمعی? نے آگے بڑھ کر اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاکر مسلمانوں کو انصاف دلایا ہے۔واضح رہے کہ تمبور تھانہ میں سرویش کمار شکلا نے اپنی 19 سالہ بیٹی کے کسی کے ساتھ بھاگ جانے کی ایف آئی آر 26 نومبر 2021 کو درج کرائی تھی، پولس تفتیش کے دوران پتہ چلاکہ جبریل نامی نوجوان سے اس کی دوستی تھی اور دونوں ساتھ میں بھاگے ہیں۔مقامی تھانیندار نے جبریل کے پورے خاندان کو ایف آئی آر میں نامزد کردیا اورباری باری کنبہ کے تمام افراد بشمول تین خواتین کو گرفتار کرلیا اور مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انہیں پہلے پولس تحویل پھر بعد میں عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔واضح رہے کہ چاروں ملزمین ضمانت منظور ہونے پر جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر لکھنوء ہائی کورٹ میں ملزمین کے خلاف قائم مقدمہ ختم کرنے کی پٹیشن داخل کی گئی ہے لیکن سنوائی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے ملزمین کی ضمانت پرر ہائی کی درخواست عدالت میں داخل کی گئی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے انہیں راحت دی ہے۔ گلزار اعظمی نے کہا کہ اس معاملے میں ملزمین بنائے گئے تمام ملزمین پر سے مقدمہ ختم کرنے کے لیئے لکھنؤ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی ہے جو زیر سماعت ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا