سرکاری اسکولوں میں نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے بلند بانگ دعوے !

0
0

ضلع اننت ناگ کے علاقہ گوجران لدرو میں واقع گورنمنٹ پرائمری اسکول کھول رہاہے دعوئوں کی پول
زیوا ہلال

اننت ناگ؍؍ایک طرف انتظامیہ آئے روز سرکاری اسکولوں میں نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے حوالے سے بلند بانگ دعوے تو ضرور کررہی ہیں لیکن زمینی سطح پر محکمہ تعلیم کے دعوے سراب ثابت ہورہے ہیں۔جسکی تازہ مثال جنوبی ضلع اننت ناگ کے دور دراز علاقہ گوجران لدرو میں واقع گورنمنٹ پرائمری اسکول سے ملتی ہے جہاں اسکول میں فی الوقت60 طلبہ تعلیم حاصل کر رہے اور انہیں پڑھانے کے لیے صرف ایک ٹیچر تعینات ہے جوکہ سراسر ناانصافی ہورہی بچوں کے ساتھ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ڈاکٹر و انجینئربنیں اور اعلی عہدوں پر فائز ہو۔ لیکن اسکول کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے ان کی اْمیدوں پر پانی پھر رہا ہے۔مقامی لوگوں نے بتایا اگر چہ اسکول میں مزید اساتذہ کی تقرری کے لیے اعلی حکام سے متعدد بار گزارش کی تاہم یقین دہانیوں کے سوا آج تک کچھ بھی نہ ملا ‘اسکے علاوہ اسکول میں 60 طلبہ کے لئے صرف تین کمرے دستیاب ہیں۔ جبکہ اسکول میں نہ ہی پینے کا صاف پانی مہیا ہے نہ ہی بیت الخلا اور نا ہی بچوں کو کھیلنے کے لیے پلے گراونڈ دستیاب ہے۔اننت ناگ کے ڈی ڈی سی چیئرمین محمد یوسف گورسی نے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی ضلع ترقیاتی کمشنر اننت ناگ کے ساتھ اس معاملے پر بات کی ہے۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ اسکول میں مزید اساتذہ کی تقرری کی جائے گی’۔اس حوالے سے جب نمائندے نے زونل ایجوکیشن آفیسر عشمقام سے بات کی تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ‘زون عشمقام کے اسکولوں میں تدریسی عملے کی کمی ہے۔ محکمہ تعلیم نے کچھ دن پہلے ہی ہمیں 36 اساتذہ کی فہرست بھیجی تھی، ان میں سے جن سات اساتذہ نے جواننگ لی تھی وہ بھی کہیں دوسری جگہ چلے گئے۔”ہر سرپرست کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر کامیاب ہوں۔ پسماندہ علاقوں میں سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے غریب بچوں کے لیے سرکاری اسکول ہی واحد سہارا ہوتا ہے، جہاں وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ان سرکاری اسکولوں میں نظام تعلیم بہتر نہ ہونے اور انتظامیہ کی جانب سے مسلسل لاپرواہی برتنے کے سبب یہ غریب بچے تعلیم سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ تعلیم کو چاہے وہ نظام تعلیم بہتر بنانے کیلئے عملی جامہ پہنائے تاکہ غریب بچے بھی اپنا مستقبل بناسکیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا