یہاں سرکاری اسکولوں میں بچے پڑھ لکھ تو لیتے ہیں لیکن ایسی پڑھائی سے ان پڑھ رہنا ہی بہتر ہوتا کیوں کہ یا تو انہیں جس طریقے سے پڑھایا جاتا ہے وہ طریقہ کار آج کل کے دور میں بالکل بے کار ہے۔
اس کے علاؤہ کسی زمانے میں تعینات کئے گئے اکثر اساتذہ معیاری تعلیم کے اصولوں سے نا آشنا ہے وہ بچوں کی شروعاتی تربیت کے قوانین سے نا آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی درجے کے لاپرواہ بھی ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بچے بڑی جماعتوں میں نجی اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء کے مقابلے میں بالکل صفر رہ جاتے ہیں۔ نتیجتاً نجی اسکولوں میں سے فارغ ہونے والے طلباء مقابلہ جاتی امتحانات میں بازی مار لیتے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں جیسے تیسے مختلف جماعتیں پاس کرنے والے اکثر بچے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔
ہر تین کلو میٹر کے فاصلے پر کھولے گئے اسکول اور ان میں سیاسی رہنماؤں کی ذاتی مداخلت کے بعد تعینات کئے گئے اساتذہ اکثر اسکولوں کو تفریح گاہ سے کم نہیں سمجھتے ہیں، ان کا اسکول میں آنا جانا صرف حاضری دینے تک محدود رہتا وگرنہ بچوں کے مستقبل کے ساتھ انہیں کوئی سروکار نہیں رہتا ہے۔
اسکولی عمارتوں کی زبوں حالی ، اور محکمہ تعلیم کے آفیسران کی لاپروہی کی وجہ سے نظام جموں و کشمیر کا نظام تعلیم اوندھے منہ گرنے کے لئے تیار ہے، جس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے والدین جو عموماً غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں بے انتہا پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں کیوں کہ وہ نجی اسکولوں کو خطیر رقم فیس کے طور پر ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
جموں و کشمیر کے اکثر دور دراز علاقوں میں ابھی بھی بچوں کو میلوں کا پیدل سفر کر کے اسکول پہنچنا پڑتا ہے، اور اکثر جگہوں پہ تو اسکول نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے ان مقامات پر بسنے والے غریب عوام کے بچے، حروف تہجی سے بھی نا واقف ہیں۔
ایک طرف جہاں سرکار ابتدائی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے بڑے بڑے جتن کر رہی ہے دوسری طرف محکمہ تعلیم کے آفیسران، اور اساتذہ سرکار کے ان دعوؤں کو خاک میں ملانے کیلئے پوری طرح کوشاں ہیں کیوں کہ آفیسران کے ساتھ ملی بھگت کر کے اکثر اساتذہ بچوں کو خدا کے حوالے کر کے ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں طلباء کے روشن مستقبل کو تاریکیوں میں بدلنے والے ان اساتذہ ، اور ان کی سرپرستی کرنے والے عہدیداران کے خلاف ایک آپریشن شروع کر کے انہیں یہ بتایا جائے کہ انہیں ہر مہینے تنخواہیں کس لئے دی جاتی ہیں، اتنا ہی کافی نہیں علم کے ان دشمنوں کو قصوروار پائے جانے پر فوری طور پر معطل کر دیا جائے تاکہ جموں و کشمیر کا لڑکھڑاتا ہوا نظام تعلیم اوندھے منہ نہ گر جائے۔
اپاہج نظام تعلیم کے ساتھ لڑکھڑاتا ہوا جموں و کشمیر اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگانے میں کوشاں ہے۔