ہم علم کے پیاسے ہیں مگر علم کا سمندر ہماری پہنچ سے باہر ہے

0
0

زون درابشالہ کی ہلور پنچائت کے وارڈ نمبر پانچ کے بچے حروف تہجی سے بھی ناواقف
محمد اشفاق

درابشالہ ؍؍ایک طرف جہاں حکومت ابتدائی تعلیم کو فروغ دینے کے لیئے ہر تین کلو میٹر کے فاصلے پر اسکول کھول چکی ہے۔ اور کئی مقامات پر طلباء کی تعداد بہت کم ہونے کے با وجود بھی اسکول کھولے جا چکے ہیں اور وہاں اساتذہ بیکار بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں۔وہیں دوسری جانب ضلع کشتواڑ کے زون درابشالہ میں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں لوگوں کو اسکول کے نام پر بے وقوف بنایا جاتا ہے اور بچوں کو روزنہ آٹھ کلومیٹر سے زائد کا فیصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور بچے گرتے پڑتے سنگلاخ اور دشوار گزار پہاڑوں سے گذرتے ہوئے کاندنی پہنچتے ہیں لیکن ایک دن اسکول جانے کے بعد دو دن تک سفر کرنے کی سکت نہیں رہتی ہے یوں یہ بچے بنیادی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔زون درابشالہ کے کنتواڑا علاقے کی پنچایت ہلور کے وارڈ نمبر 05 میں لگ بھگ تین درجن طلباء انتظامیہ کی لاپروہی کی مار جھیل رہے ہیں۔حیرت انگیز طور پر ساتویں اور آٹھویں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے طلباء ابھی تک اردو اور انگریزی کے حروف تہجی سے بھی انجان ہے۔لازوال سے بات کرتے ہوئے متعدد بچوں نے بتایا کہ جس دن وہ اسکول جاتے ہیں اس دن شام کو انہیں کتابیں کھولنے کی ہمت بھی نہیں اور وہ اسکول میں پڑھائے گئے سبق یاد نہیں رکھ پاتے۔اس سلسلے میں جب زیڈ ای او درابشالہ سے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے جلد از جلد مزکورہ گاؤں کے لئے ہنگامی بنیادوں پر استاد تعینات کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا