حافظ مجاہدالاسلام عظیم آبادی
البروج انٹرنیشنل اسکول پٹنہ واونر روح حیات سینٹر
’’ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ‘‘۔ سورۃ الحجر: آیت 9، وسیم رضوی نامی ایک کم عقل شخص نے قرآن مجید کی 26 آیتوں کو نعوذبااللہ ہٹانے کی درخواست سپریم کورٹ میں داخل کی ہے، جسے سن کر مسلمان آگ بگولہ ہو رہے ہیں، اور یہ ایمانی صفت بھی ہیکہ جب بھی کوئی شخص اللہ/ نبی /رسول /ولی اللہ یا کتاب اللہ کے خلاف کچھ بھی لکھتا یا بولتا ہے تو جاہل سے جاہل مسلمان بھی خفا ہو جاتا ہے، اسی انسان کے دل پر جوں تک نہیں رینگتی جو منافق ہوتا ہے، میں آپ کو تاریخ کا ایک اہم پہلو بتاتا چلوں کہ اللہ رب العزت کے کلام کو مٹانے اور اس میں تحریف کاری کی باتیں کوئی نئی نہیںہیں بلکہ نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے یہ سب چلا آ رہا ہے، اس وقت کفار مکہ تھے جو قرآن کی ایک ایک آیت پر انگلی اٹھاتے تھے تو آج ایک اور کافر وسیم رضوی کھڑا ہوا ہے، یاد رکھیے گا کہ نا تو ابوجہل جیسا سردار اپنی حرکت میں کامیاب ہوسکا تھا اور نہ ہی وسیم رضوی جیسا شیطان اپنی حرکت میں کامیاب ہو گا، ابھی اس معاملے نے بہت طول نہیں پکڑا ہے مگر دھیرے دھیرے یہ بات دنیا کے خطے خطے میں پہونچ جائیگی اور بڑے بڑے مفتیان و محافظین قرآن سامنے آ جائیں گے اور اس وسیم رضوی کے ایک ایک اعتراض کا جواب بھی دیا جائے گا، خدانخواستہ ہندوستانی حکومت اگر قرآن کی آیات کو ہٹانے کی بات مان بھی لیتی ہے تو کیا وہ کامیاب ہو جائیں گے؟ ہرگز نہیں، یہ قرآن وہ عظیم کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لی ہے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ”یقیناً ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں” یقیناً اللہ اپنے کلام کی حفاظت بالکل اسی طرح کریگا جس طرح کفار مکہ سے کیا تھا، اس قسم کے شیطان ہمیشہ آتے جاتے رہتے ہیں اور قرآن کی ایک آیت تو دور ایک لفظ کی بھی تحریف نہیں کر سکتے،اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کی حفاظت کا ہی ذمہ نہیں لیا بلکہ اس کے معانی و مطالب کا بھی ذمہ لے رکھا ہے۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری کس طرح پوری فرمائی؟اور کیا قرآن میں تحریف ممکن ہے؟
حفاظت قرآن بذریعہ کتابت:۔ حفاظت قرآن کے کئی پہلو ہیں اور یہ حفاظت بذریعہ کتابت بھی کی گئی اور بذریعہ حفظ بھی اور اس حفاظت کا تمام تر کام اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے لیا۔ بذریعہ کتابت قرآن کریم کی حفاظت کے سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمایئے۔
۱۔ سیدنا زید بن ثابت انصاری (رض) (کاتب وحی) کہتے ہیں کہ جب (۱۱ ھ میں) یمامہ کی لڑائی میں (جو مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی) بہت سے صحابہ شہید ہوگئے تو سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت سیدنا عمر بھی ان کے پاس موجود تھے۔ میں گیا تو سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے کہا: میرے پاس عمر آئے اور کہا کہ یمامہ کی لڑائی میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر اسی طرح اور لڑائیوں میں بھی مسلمان مارے جائیں تو بہت سا قرآن دنیا سے اٹھ جائے گا۔ اگر قرآن کو ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو یہ ڈر نہ رہے گا۔ لہٰذا آپ قرآن کو جمع کرا دیں اور میں (ابوبکر (رض) نے عمر کو یہ جواب دیا کہ میں وہ کام کیسے کروں جسے رسول اللہ نے نہیں کیا عمر کہنے لگے۔ اللہ کی قسم! یہ اچھا کام ہے اور بار بار یہی کہتے رہے تاآنکہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں عمر کی رائے سے متفق ہوگیا سیدنا زید کہتے ہیں کہ عمر خاموشی سے یہ بات سنتے رہے پھر سیدنا ابوبکر صدیق (رض) مجھے کہنے لگے تم جوان اور عاقل ہو اور ہم تمہیں سچا جانتے ہیں اور دور نبوی میں کاتب وحی رہے ہو تو اب ایسا کرو کہ قرآن (کی جا بجا لکھی ہوئی تحریروں) کو تلاش کرو اور سب کو اکٹھا کردو زید کہتے ہیں کہ اگر ابوبکر صدیق (رض) مجھے پہاڑ ڈھونے کو کہتے تو مجھے اتنا مشکل معلوم نہ ہوتا جتنا قرآن جمع کرنا معلوم ہوا آخر میں نے کہا تم دونوں ایسا کام کرتے ہو جو رسول اللہ نے نہیں کیا ابوبکر صدیق (رض) کہنے لگے اللہ کی قسم! یہ اچھا کام ہے میں نے ان سے بڑا تکرار کیا تاآنکہ اللہ نے میرا سینہ بھی کھول دیا اور میں نے یہ کام شروع کردیا۔ قرآن کہیں پرچوں پر، کہیں مونڈھے کی ہڈیوں پر، کہیں کھجور کی لکڑیوں پر لکھا ہوا تھا پھر اکثر لوگوں کو یاد بھی تھا۔ یہاں تک کہ میں نے سورۃ توبہ کی آخری دو آیتیں یعنی (لَقَدْ جَائکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۔) 9۔ التوبہ:128) تاآخر، خزیمہ بن ثابت انصاری کے سوا کسی کے ہاں نہ پائیں۔ پھر یہ مصحف جس میں قرآن جمع کیا تھا۔ ابوبکر صدیق (رض) کی زندگی تک ان کے پاس رہا۔ پھر سیدنا عمر کی زندگی تک ان کے پاس رہا۔ ان کی وفات کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ (رض) کو ملا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ توبہ۔ باب جمع القرآن)
۲۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان سیدنا عثمان (رض) کے پاس آئے جن دنوں وہ شام و عراق کے مسلمانوں کے ساتھ آرمینیا اور آذربائیجان فتح کرنے کی خاطر جہاد کر رہے تھے۔ وہ قرآن کی قرائت میں مسلمانوں کے اختلاف سے گھبرائے ہوئے تھے۔ سیدنا عثمان (رض) سے کہنے لگے: امیر المومنین! اس سے پہلے کہ مسلمان یہود اور نصاریٰ کی طرح قرآن میں اختلاف کرنے لگیں، اس امت کی خبر لیجئے۔ چنانچہ سیدنا عثمان (رض) نے سیدہ حفصہ (رض) کو لکھ بھیجا کہ ہمیں اپنا مصحف بھیج دیں۔ ہم اس کی نقول تیار کرکے آپ کا مصحف آپ کو واپس کردیں گے چنانچہ سیدہ حفصہ (رض) نے بھیج دیا۔ سیدنا عثمان (رض) نے زیدبن ثابت (رض)، عبداللہ بن زبیر (رض)، سعید بن عاص (رض) اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام (رض) کو حکم دیا۔ انھوں نے اس کی نقلیں تیار کیں۔ آپ نے یہ ہدایت کردی تھی کہ اگر زید بن ثابت (رض) (انصاری) قرأت کے بارے میں باقی تینوں (قریشی) لوگوں سے اختلاف کریں تو قریش کے محاورہ کے مطابق لکھنا کیونکہ قرآن انہی کے محاورہ پر اترا ہے۔ جب نقلیں تیار ہوگئیں تو آپ نے سیدہ حفصہ ر?ضی اللہ عنہا کا مصحف انھیں واپس کردیا اور اس کی ایک نقل ہر مرکزی مقام میں بھجوادی۔ نیز حکم دیا کہ لوگوں کے پاس جو الگ الگ پرچیوں اور اوراق میں لکھا ہوا قرآن موجود ہے اسے جلا دیا جائے۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ باب جمع القرآن)
تحریف لفظی سے بچاؤ کی صورتیں:۔ رسول اللہ نے زبانی حفاظت قرآن پر نسبتاً بہت زیادہ توجہ دی تھی۔ سب سے پہلے تو حافظ قرآن آپ خود تھے۔ جتنا قرآن نازل ہوچکا ہوتا۔ رمضان میں آپ اس کا جبرائیل سے دور بھی فرمایا کرتے اور اپنی زندگی کے آخری سال آپ نے دو دفعہ دور فرمایا۔ پھر صحابہ کو یاد کرواتے اور ان سے سنتے اور بعض دفعہ سناتے بھی تھے۔ قرآن کریم کے مصاحف لکھنے والے صحابہ کی نسبت قرآن کریم کے حافظوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور حفظ قرآن کا یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل آج تک چلا آرہا ہے اور یہ دونوں طریقے ایک دوسرے کی محافظت کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن سے محبت رکھنے والے کچھ ایسے لوگ بھی پیدا کردیئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات، الفاظ حتیٰ کہ حروف اور اعراب تک شمار کر ڈالے۔ نتیجہ یہ کہ نزول قرآن سے لے کر آج تک قرآن کے الفاظ و حروف میں سرموفرق نہیں آیا اور ان حالات میں کمی و بیشی ممکن ہی نہ رہی اور تحریف لفظی کے سب امکانات ختم ہوگئے۔
رسول اللہ نے حفظ قرآن پر جو زیادہ توجہ مبذول فرمائی اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
۱۔ حفظ اور کتابت کی خوبیوں کا تقابل:۔ قرآن کریم مکتوبہ شکل میں نہیں بلکہ صوتی انداز میں نازل ہوا جس طرح جبرائیل نے آپ کو قرآن پڑھایا، اسی انداز میں آپ نے صحابہ کرام (رض) کو سنایا اور حفظ کروایا۔ اسی طریق حفاظت میں نہ کسی مخصوص رسم الخط کی ضرورت تھی۔ نہ حروف کی شکلوں نقاط اعراب وغیرہ کی اور نہ ہی آیات کے ربط میں رموز و اوقاف (Punctuation) وغیرہ کی معلومات کی۔ یہ طریقہ نہایت سادہ اور فطری تھا لہٰذا اسی پر زیادہ توجہ صرف کی گئی۔
۲۔ اہل عرب کا حافظہ نہایت قوی تھا لیکن لکھے پڑھے لوگ بہت کم تھے اور ان کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم تھی۔
۳۔ توراۃ جو لکھی ہوئی شکل میں نازل ہوئی تھی صرف پڑھے لکھے طبقے ہی سے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی پھر بعد میں آنے والے پڑھے لکھے لوگوں نے ہی اس میں تحریف کر ڈالی۔
۴۔ لکھے ہوئے کو پڑھتے وقت ایک کم لکھا پڑھا آدمی غلطی کرجاتا ہے لیکن حافظ تلاوت کرتے وقت ایسی غلطی نہیں کرتا۔
اب اس کے مقابلہ میں تحریر کے بھی کچھ فوائد ہیں مثلاً
۵۔ حافظ قرآن کسی وقت بھی بھول سکتا ہے۔ تحریر موجود ہو تو ایسی بھول کا ازالہ ممکن ہوجاتا ہے۔
۶۔ حافظ کا علم اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے جبکہ کتابت بعد میں بھی موجود رہتی ہے اور یہی وہ خوبی ہے جس کی بنا پر قرآن کو جمع کرنا اور ضبط تحریر میں لانا ضروری سمجھا گیا جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث زید بن ثابت انصاری (رض) سے واضح ہے۔
لہٰذا حفاظت قرآن کے لیے یہ دونوں ہی طریقے لازم و ملزوم سمجھ کر اختیار کیے گئے۔ البتہ افضلیت کا درجہ حفظ ہی کو حاصل رہا اور اس حقیقت کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
(بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَمَا یَجْ?حَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ 49?) 29۔ العنکبوت:49) بلکہ وہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے اور جہاں اللہ نے کتابت قرآن کا ذکر فرمایا تو وہاں عطیہ علم کا ذکر نہیں فرمایا: ارشاد باری ہے۔ (وَالطُّوْرِ وَکِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ) 52۔ الطور:1) قسم ہے طور (پہاڑ) کی اور اس کتاب کی جو پھیلے ہوئے کاغذ پر لکھی ہوئی ہے۔
شیعہ حضرات اور قرآن کی حفاظت:۔ ان سب باتوں کے باوجود شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ سیدنا عثمان (رض) کو مطعون کرتے ہیں کہ انھوں نے جمع قرآن کے وقت قرآن کی بہت سی آیات اور کئی سورتیں جو اہل بیت کی مدح میں تھیں خارج کردیں اور انھیں قرآن میں شامل نہیں کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ طعن گو بظاہر سیدنا عثمان (رض) پر ہے لیکن حقیقتاً اس طعن کی زد اللہ تعالیٰ کی حفاظت کی ذمہ داری پر پڑتی ہے۔ فاعتبروا یا ولی الابصار۔ علاوہ ازیں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ اس وقت سیدنا علی شیر خدا تو بفضلہ زندہ سلامت موجود تھے انھوں نے سیدنا عثمان (رض) کے اتنے زبردست ارتکاب جرم کو کیسے گوارا کرلیا تھا؟
تحریف معنوی سے حفاظت:۔ اس حفاظت ذکر سے متعلق تیسرا پہلو تحریف معنوی کا ہے یعنی اگر الفاظ قرآن کے ساتھ ساتھ مطالب قرآن کی حفاظت نہ ہو تو محض الفاظ کی حفاظت بیسود ہے اور اس صورت میں یہ قرآن ملحدین کی اور دوسرے گمراہ فرقوں کی طبع آزمائی کا تختہ مشق بن سکتا ہے لہٰذا ضروری تھا کہ قرآن کے جو معنی خود حامل قرآن یا صحابہ کرام نے سمجھے تھے ان کی بھی حفاظت کی جائے تاکہ باطل کسی طریقے سے بھی قرآن میں داخل نہ ہونے پائے اور اگر داخل ہونے کی کوشش کرے تو تحقیق کرکے اسے رد کیا جاسکے۔ اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے محدثین کرام کی جماعت کو پیدا فرمایا۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اسی مقصد کی خاطر کھپا دیں۔ رسول اللہ کی ہر طرح کی سنت کو محفوظ کردیا۔ جو درحقیقت قرآن کے معانی اور مطالب ہی کی حفاظت ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی حفاظت کا ایسا مضبوط انتظام فرما کر اپنا وعدہ پورا کیا کہ غیر مسلم بھی اس کی مکمل حفاظت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن میں تحریف ناممکن ہے، اور وسیم رضوی جیسے ہزاروں لوگ آئیں گے اور سر پیٹتے ہوئے چلے جائیں گے لیکن قرآن کا لفظ لفظ ویسا ہی رہیگا، ہم حفاظ کرام کی جماعت ہیں ہی اس لیے تاکہ اس قرآن کو مٹانے کے باوجود بھی ہمارے سینوں میں یہ محفوظ رہے، قرآن سے الفاظ تو مٹادوگے مگر ایک حافظ کے سینے سے قرآن کیسے نکالوگے وسیم رضوی؟