ریاستی انتخابات اور مسلمان

0
0

 

 

 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
پانچ ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں ان میں صرف آسام میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ مغربی بنگال میں پہلی مرتبہ بی جے پی حکومت کی دوڑ میں شامل ہے ۔ کیرالہ میں لیفٹ اور کانگریس کے درمیان مقابلہ ہے ۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے، اے آئی اے ڈی ایم کے کو چنوتی دے رہا ہے ۔ پڈوچیری میں بی جے پی کا کوئی منتخب ممبر اسمبلی نہیں ہے ۔ تین نامزد ممبران کے ذریعہ اس کی اسمبلی میں حاضری ہے ۔ چھ ممبران اسمبلی کے استعفیٰ دینے کی وجہ سے نارائن سامی کی حکومت گرنے کے بعد بی جے پی اس الیکشن میں وہاں حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ ان پانچویں ریاستوں میں سب سے اہم مغربی بنگال ہے ۔ یہاں سے شمال مشرقی ریاستوں میں عمل دخل بڑھایا جا سکتا ہے ۔ ساتھ ہی ہندوؤں کو مسلمانوں کے مدِمقابل کھڑا کرکے بنگال ہندوتوا کی تجربہ گاہ بن سکتی ہے ۔ وہاں وزیر داخلہ سے لے کر کابینہ وزیروں کے ذریعہ جے شری رام کا نعرہ لگایا جانا اسی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ جبکہ بنگال کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ ایک مثالی ریاست نظر آتی ہے ۔ سماجی اصلاح کی تحریکیں ہوں یا نظریاتی و سیاسی، بنگ بھنگ آندولن ہو یا انڈسٹریل ریولیوشن، رواداری ہو یا قومی یکجہتی بنگال نے ہر معاملہ میں ملک کی رہنمائی کی ہے ۔

یہ مانا جا رہا تھا کہ بنگال انتخاب میں چھوٹے معمولی کسانوں، مزدوروں، رکشہ ٹیمپو چلانے والوں، ٹھیلہ کھینچنے والوں، دلتوں، مسلمانوں، اعلیٰ ذات کے غریب ہندوؤں الغرض ہر شہری کے مسئلے اور ضرورت پر بات ہوگی لیکن 2021 کے الیکشن میں ایسی کوئی بات نہیں ہو رہی ۔ ایسا لگتا ہے کہ کسان مزدور، دلت، مسلم، پسماندہ اور حاشیہ پر پڑے لوگوں کے اقتصادی، سماجی حالات سیاسی جماعتوں کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ پہلے یہ مدے انتخابی سیاست پر حاوی رہتے تھے ۔ اب سیاسی جماعتیں صرف وہ مدے اٹھاتی ہیں جو ان کے ووٹروں سے جڑے ہوں یا انہیں ووٹ دلا سکیں ۔ بی جے پی نے انتخابات میں "پیار اور جنگ میں سب کچھ جائز” والی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔ الیکشن کے دوران وار روم بنانے اور ہر وقت ملک کو چناوی موڈ میں رکھنے کا سلسلہ بھی اسی نے شروع کیا ہے ۔

گزشتہ چند برسوں میں ملک کی حالت ایسی بنا دی گئی ہے کہ بی جے پی ہندو پارٹی لگے باقی سب مسلمانوں کی ہمدرد ۔ مسلم نہ کہلانے کے لئے سیاسی جماعتیں جے شری رام کا نعرہ لگانے مسلمانوں کا نام تک نہ لینے کو مجبور ہو جائیں ۔ یہ بات پبلک ڈومین میں لائی گئی کہ جو مسلمانوں کی بات کرے گا اسے الیکشن میں نقصان ہوگا ۔ نتیجہ کے طور پر اس دور میں کسی بھی سیاسی پارٹی نے مسلمانوں کے مسائل کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ نہیں بنایا ۔ اس نے بھی نہیں جسے یک مشت مسلم ووٹ ملتا رہا ہے ۔ کہا یہ گیا کہ اگر کسی پارٹی کو مسلمانوں کے یکطرفہ ووٹ ڈالے جانے کی خبر ہندوؤں میں جائے گی تو وہ ایک جٹ ہو جائیں گے ۔ اور جو مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے وہ الیکشن ہار جائیں گے ۔ یہ ایسی منطق ہے جو دنیا کے کسی جمہوری ملک میں دیکھنے سننے کو نہیں ملے گی ۔ مگر بھارت اس حقیقت کو بھگت رہا ہے ۔ 2016 سے پہلے انتخابی منشور کا 16 فیصد حصہ مسلمانوں کے مسائل اور ان کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے گا اس کے لئے مختص ہوتا تھا ۔ مگر 2016 (جن ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں) کے انتخابی منشور میں یہ حصہ گھٹ کر 8 سے 12 فیصد رہ گیا ۔ اس سال منشور میں مسلمانوں کو کتنی جگہ ملے گی یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔

جن ریاستوں میں الیکشن ہو رہا ہے ان کی کل آبادی 25 کروڑ ہے ۔ جس میں تقریباً 6 کروڑ مسلمان ہیں یعنی 23 فیصد سے زیادہ ۔ مغربی بنگال میں 3 کروڑ، آسام میں 1.36 کروڑ، کیرالہ میں 96 لاکھ 73 ہزار، تمل ناڈو میں 50 لاکھ اور پڈو چیری میں 81 ہزار مسلمان آباد ہیں ۔ یہ تعداد بتاتی ہے کہ ان ریاستوں میں مسلمان مضبوطی کے ساتھ موجود ہیں ۔ ملک کی دوسری ریاستوں کے مقابلہ یہاں ان کی موجودگی زیادہ ہے ۔ لیکن ایک بھی آواز ان کے حق میں سنائی نہیں دے رہی ۔ نہ ہی کوئی لفظ انتخابی منشور میں شامل ہوگا ۔ کوئی بھی مسجد یا کلیسا میں جاتا ہوا دکھائی نہیں دے گا ۔ ہر کسی کا راستہ مندر کی طرف جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔ کیا جمہوریت کو جینے کی یہی نئی تعریف ہے ۔ اس کی روشنی میں کہا جانے لگا ہے کہ ہم مسلمانوں کی بات تو نہیں کریں گے لیکن وہ جمہوریت کو جیتے ہوئے خاموشی سے ہمیں ووٹ دیں ۔ اکثریتی طبقہ کے متحد ہونے یا ان کے ووٹ کھسک جانے کا ڈر اتنا حاوی ہے کہ قومی سیاسی پارٹی کے مسلم لیڈران بھی اپنے حصہ کی بات نہیں کر پاتے ۔

پورے ملک میں کم وبیش یہی حالات ہیں ۔ مغربی بنگال کی بات کریں تو وہاں بی جے پی کو مسلمانوں کے 2014 میں دو اور 2019 میں چار فیصد ووٹ ملے تھے ۔ وہیں ٹی ایم سی کو 2014 میں 40 فیصد اور 2019 میں 70 فیصد مسلمانوں نے ووٹ دیا تھا ۔ اس کے باوجود ٹی ایم سی 2019 میں لوک سبھا کی صرف 22 سیٹیں جیتی تھی جبکہ 2014 میں اسے 34 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی ۔ دراصل ملک میں ہندو مسلم کی جو موٹی لکیر کھینچی جا رہی ہے اس کی وجہ سے ان ریاستوں میں بڑی تعداد ہونے کے بعد بھی مسلمانوں سے جڑے مدے حاشیہ پر چلے گئے ہیں ۔ اس سے پہلے دلتوں سے جڑے مسائل حاشیہ پر چلے جاتے تھے ۔ کسی بھی طبقہ کا خاموشی کو اپنا سیاسی ہتھیار سمجھنا اس کے لئے سم قاتل ہوتا ہے ۔ سماج کے کسی بھی حصہ کو مستقل نظر انداز کیا جانا جمہوریت کے لئے اچھی علامت نہیں ہے ۔

ترنمول کانگریس نے اس بار مسلم امیدواروں کی تعداد کم کی ہے ۔ لیکن خواتین امیدواروں کی تعداد میں اضافہ ۔ ریاست میں کل 7.18 کروڑ ووٹر ہیں ان میں خواتین ووٹروں کی تعداد 3.15 ہے جبکہ مسلمانوں کے ووٹ قریب 30 فیصد ہیں ۔ ٹی ایم سی نے 2011 میں 28 مسلمانوں کو امیدوار بنایا تھا ۔ 2016 میں ان کی تعداد بڑھا کر 57 کردی ۔ لیکن اس مرتبہ صرف 42 مسلمانوں اور 50 خواتین کو ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ووٹوں کے پولرائزیشن کو روکنے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے ۔ ہندو امیدواروں کی تعداد بھی بڑھائی گئی ہے ۔ ٹکٹ دینے میں امیدوار کی مقبولیت، کلین امیج، ینگ ایج اور نئے چہرے کو اہمیت دی گئی ہے ۔ زمینی سطح پر منفی شبیہ رکھنے والے 28 موجودہ ممبران اسمبلی کے ٹکٹ کاٹے گئے ہیں ۔ سارے وبھیشن اس وقت بی جے پی کے ساتھ ہیں ۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ کسان تحریک نے جاٹ اور مسلمانوں کو ایک ساتھ کھڑا کر دیا ہے ۔ جو مظفر نگر فساد کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہو گئے تھے ۔ کیرالہ میں مسلمان اور عیسائیوں کے ساتھ آنے سے ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف کو اپنی جیت پکی لگ رہی ہے ۔ آسام میں اے آئی یو ڈی ایف، یو پی اے اور بی پی ایف متحد ہونے سے اپوزیشن کے کامیاب ہونے کی امید بندھی ہے ۔ سوال ہے کہ یہ اتحاد ریاست کے ذریعہ دیئے جا رہے پیغام کہ "اگر آسام کے مقامی لوگوں کی حالت ٹھیک نہیں ہو پا رہی ہے تو ان کے حق پر باہر سے آ کر بس جانے والوں نے قبضہ کر لیا ہے ۔ یا چھوٹے معمولی ہندو کسانوں، مزدوروں، رکشہ، آٹو ٹیمپو پولر، ٹھیلہ کھینچنے والوں کی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ ان کا حصہ مسلم چھوٹے معمولی کسانوں، مزدوروں، رکشہ آٹو ٹیمپو چلانے اور ٹھیلہ کھینچنے والوں نے چھین لیا ہے” کا مقابلہ کیسے کرے گا ۔ کیوں کہ یہ جھوٹ ہندو مسلمانوں کے درمیان نفرت کا سبب بن رہا ہے ۔ عوام اپنے مسائل پر بات کرنے کے بجائے اس جھوٹ میں الجھ کر رہ گئے ہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2006 میں مسلمانوں کو لے کر سچر کمیٹی نے جن باتوں کو اجاگر کیا تھا پندرہ سال کے بعد حالات اور نازک ہوئے ہیں ۔ تمام ہی طبقات کی اقتصادی و سماجی حالت خراب ہو رہی ہے لیکن سیاست رئیس ہوئی ہے اور سیاست دانوں کی چاندی ۔

انتخابی سیاست میں حاشیہ پر جانے کا مسلمانوں کو اب احساس ہونے لگا ہے ۔ اس کی وجہ سے وہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں ۔ یہ بات ہر روز صاف ہوتی جا رہی ہے کہ ان کے مسائل کوئی نہیں اٹھائے گا ۔ وہ بھی نہیں جسے مسلمان یک مشت ووٹ دیتے ہیں ۔ مسلمانوں نے دلت مسلم، مسلم یادو کمینیشن بنا کر دیکھ لیا ۔ پہلے مسلمان اپنی حفاظت کو لے کر پریشان تھے ۔ اب تعلیم، روزگار، صحت یہاں تک کہ وجود کو لے کر بھی فکر مند ہیں ۔ ملک میں سماجی و اقتصادی بحران کا جو چکر چل رہا ہے وہ ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ۔ ان سوالوں کو نہ میڈیا اٹھا رہا ہے نہ سیاسی جماعتیں ۔ ایسی حالت میں اے آئی ایم آئی ایم جیسی پارٹیوں کا فروغ فطری ہے ۔ اسد الدین اویسی کی پارٹی کے بڑھتے اثرات کو لے کر اپوزیشن پارٹیاں فکر مند ہیں لیکن سیاست میں سبھی طبقات کی حصہ داری کیسے یقینی بنائی جائے اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک کو ذات، مذہب میں بانٹنا بند کرکے اکثریت واد کے چکر ویو سے باہر نکالیں ۔ سبھی طبقوں کے مسائل کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنائیں ۔ تاکہ الگ الگ ریاستوں میں عوام کی اقتصادی، سماجی حالت اور ان کی ضرورت انتخاب کا موضوع بن سکے ۔ اور جو حاشیہ پر چلے گئے ہیں انہیں مین اسٹریم میں لانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا