"مردوں کو عورت مارچ کو کیوں سپورٹ کرنا چاہیے”

0
0

محمد ارشد چوہان
ای میل : [email protected]

08 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کیوجہ سے شہرت حاصل ہے – دنیا بھر میں یہ دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے – عورت مارچ کسی مخصوص علاقے، رنگ و نسل، مذہب اور کلچر تک محدود نہیں – دنیا کے بیشتر ممالک میں سیلیبریٹ کیا جاتا ہے اور کیا بھی جانا چاہیئے – خواتین کے عالمی دن کو پانچ دن گذرنے کے بعد آج یہ کالم لکھنے کی نوبت اس لئے آ رہی ہے کیونکہ اس ایونٹ کو کافی متضاد بنا دیا گیا ہے- بد قسمتی سے تیسری دنیا کے کچھ ممالک میں اسے متضاد بنا لیا گیا ہے – مرد حضرات کی ایک ایسی تعداد بھی موجود ہے جنہیں اس دن پر کافی تحفظات ہیں – مردوں کی اسی قبیل سے ایسے نام نہاد دانشور بھی ہیں جو اس دن کے حوالے سے طرح طرح کی من گھڑت تھیوریاں پیش کرتے ہیں – ان کے بقول یہ دن بے حیائی پھیلاتا ہے، یہ امریکہ یا ویسٹ کی سازش ہے تاکہ مذہب کو کاری ضرب لگائی جا سکے وغیرہ –
اس دن کی اہمیت و افادیت سمجھنے کے لئے تاریخ کے اوراق پلٹنا ضروری ہیں – تاریخی طور پر عورت نے بہت ظلم برداشت کئے ہیں گوکہ غلامی اور ذات پات کی آڑ میں مرد بھی استحصال سے نہیں بچے – عورت نسبتاً زیادہ استحصال کا شکار رہی – ‘محبت کی یہ دیوی’ جسکو عرف عام میں عورت یا ہندی میں مہیلا کہا جاتا ہے کو منہوس سمجھنے کی روش زمانہ قدیم سے چلی آ رہی ہے – اس ضمن میں بڑے بڑے فلسفیوں نے بھی نظام کو جوں کا توں رکھنے میں ہی عافیت جانی – ایک ایسا دور بھی گذرا ہے کہ عورت کی پیدائش کو ہی انہونی بات سمجھا جاتا تھا، زندہ درگور کرنے کا رواج عام تھا اور کون پڑھا لکھا ناواقف ہوگا "ستی” جیسی رسم سے کہ اگر اسکا شوہر مر جاتا تھا تو عورت کو بھی اسکے ساتھ جلایا جاتا تھا- عرب میں شوہر کے مرنے یا طلاق کی صورت میں بیوہ یا مطلقہ کی عدت پوری ہونے پر گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بٹھا کر شہر کا گشت کرایا جاتا تھا جس سے لوگ جان جاتے تھے کہ اسکی عدت پوری ہو چکی –

اچھا عورت کو تو شخص بھی نہیں مانا جاتا تھا – کینیڈا کا Five persons کیس ہمارے سامنے ہے – اسوقت کا کینڈین قانون جو برٹش نارتھ امریکہ ایکٹ کہلاتا تھا میں ووٹنگ یا سینیٹر بننے کے لئے لفظ پرسن یعنی شخص کی تعریف میں عورت نہیں آتی تھی – 1928 میں پانچ عورتیں اس کیس کو لے کر کینیڈا کی سپریم کورٹ میں گئیں کہ عورتوں کو بھی پرسن یعنی شخص مانا جائے – سپریم کورٹ نے رولنگ دے دی کہ عورتیں کینیڈا کے ہاؤس آف کامن اور سینیٹ میں جانے کے لئے اہل نہیں کیونکہ وہ شخص ہی نہیں – مذکورہ ایکٹ میں شخص کی تعریف میں صرف مرد آتے تھے – بعد ازاں یہ کیس جوڈیشیل کمیٹی آف دی پریوی کونسل میں گیا جہاں سے انہیں شخص کہلانے کا حق ملا- دنیا بھر سے اور بھی ایسی ان گنت کہانیاں ہیں جہاں عورت کا کوئی تشخص ہی نہیں تھا -مانو سمرتی میں تو عورت کو الگ ہی مخلوق بنا کے پیش کیا گیا ہے –

1908 سے امریکہ کے نیو یارک میں شروع والی تحریک جو تاحال جاری ہے نے عورتوں کو کافی حد تک آزادی دلوائی-اس سفر میں بہت پاپڑ پیلنے پڑے- فیمینزم کی تحریک کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے – پہلی لہر جس میں پراپرٹی اور ووٹنگ کے لئے جدوجہد – نیوزی لینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا، اسکےبعد فن لینڈ نے 1906 میں اور پھر دیگر ممالک میں – یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ نے 1920 میں رائے شماری کا حق دیا جبکہ 1918 میں یو – کے نے – گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 میں جسکو مونٹیگو – مورلے ریفارم بھی جانا جاتا ہے میں پہلی بار متحدہ ہندوستان میں عورتوں کو رائے شماری کا حق ملا – اس ایکٹ میں محدود فرنچائز تھی – کل 260 ملین آبادی میں سے صرف ڈیڑھ ملین ہی کو ووٹ ڈالنے کی اجازت تھیں جسمیں عورتیں بھی تھیں –
سب سے ڈیبیٹیڈ موضوع یہ ہے کہ کیا آج عورت مارچ کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ عورت آج بھی کافی پریشانیوں سے دو چار ہے- جہیز جیسی لعنت، بچپن کی شادی اور تعلیم بالخصوص گھریلو تشدد اور ریپ جیسے ناسور ہمارے معاشرے میں موجود ہیں – آفس یا دوسری جگہوں پر کھلے عام کام کرنا آج بھی عورت کے لئیے ایک معمہ ہے – شام کیبعد گھر سے نکلنا اس کے لئیے گالی ہے – اگر کوئی عروت نکلتی ہے تو اسے گھورنا، لالچی آنکھوں سے دیکھنا ، جنسیاتی جملے کسنا اور چھیڑ چھاڑ وہ ایشوز ہیں جو ہر ذی شعور کو سوچنے پر ضرور مجبور کرتے ہیں – عورت کی آزادی کا مطلب ہے وہ اپنی چار دیواری میں مقید نہ رہے – اسے گھر سے نکلتے وقت سو بار سوچنا نہ پڑے – کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ باتیں خود بخود صحیح ہو جاتی ہیں جبکہ ایسی بات نہیں ہے – عورتوں کو ابتک جو حقوق ملے ہیں وہ ایک طویل جہد مسلسل کی مرہون منت ہیں – خود سے سوسائٹی حقوق نہیں دیتی – اس لئے سٹیٹ کو آگے آنا پڑتا ہے –

ہندو – پاک دونوں ممالک کو خواتین کے حوالے سے قانون سازی کی از حد ضرورت ہے – قانون سازی ایسی جسمیں عورت کھل کر سماجی، سیاسی و اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لے سکے – آئے دن یہاں بچیوں کے ریپ ہوتے ہیں، گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے تو ایکچول آنکھڑے ہی باہر نہیں آتے – گھریلو تشدد کی سب سے بڑی وجہ جہیز ہے –

حیرانگی ہے کہ عورت مارچ پر ہماری غیرت جاگ اٹھتی ہے – گریبان میں جھانک کر دیکھا جائے تو ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنی وراثت میں سے بیٹی کو حصہ دیتے ہیں – برعکس اسکے کہ مرد کی طرح عورت کو بھی وارثت میں حصہ دیا جائے الٹا اپنی بہوؤں کو جہیز نہ لانے کے طعنے دیئے جاتے ہیں –

ضمنی طور پر جموں و کشمیر کی عورت کا ذکر بھی کر لیا جائے تو بہتر ہوگا – جنت بے نظیر کی عورت ہندو-پاک کی عورتوں کے مقابلے میں زیادہ استحصال کا شکار ہے – اولاتذکر بیک وقت دو قسم کے تشدد کا سامنا کر رہی ہے – سیاسی اور سماجی – سیاسی یہ ہے جیسا ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ جموں وکشمیر سات دہائیوں سے دو ممالک کے درمیان تصفیہ طلب حل کا متقاضی ہے – اس سیاسی جد و جہد میں یہاں کی عورت بھی پسی جا رہی ہے – سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے عصمت دری اور پھر ان عورتوں کو کون بھلا سکتا ہے جنکے لخت جگر، بھائی یا شوہر دودھ کے لئے جاتے ہیں روزی روٹی کے لئے، تعلیم یا دوسرے دنیاوی امور کے لئے چار دیواری سے باہر نکلتے ہیں تو شام کو گھر نعش لوٹتی ہے، دہشت گرد گردان کر گولیوں سے بھن دیا جاتا ہے – نہ جانے کتنی عورتیں ہیں جو بیوہ ہو چکی ہیں، وہ بیٹیاں جو باپ کی شفقت سے ہمیشہ لئے محروم ہو گئ ہیں – جموں و کشمیر کے کنفلکٹ زون میں یہ وہ استحصال سے ہے جس سے ہندو-پاک کی عورتوں کو استثناء حاصل ہے – اس کا سد باب جموں و کشمیر کے پائیدار حل تک مشکل ہے – دوسرے والا استحصال جو سماجی نوعیت کا ہے جسمیں جہیز، جنسی تشدد، گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنا اور ورکنگ پلیس پر تنگ کرنا وغیرہ آتے ہیں برصغیر کی باقی عورتوں کے ساتھ. بھی برابر ہے – جموں و کشمیر کی خواتین کی طرف سے اس دن پر اپنے حقوق کے تئیں زیادہ آواز بلند نہ کرنا نیک شگون نہیں ہے –
نہ جانے کچھ مرد حضرات حقوق کی بات کرنے والی خواتین سے عدم تحفظ کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں – یہ بات ہر مرد کے لیے ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ایک باشعور تعلیم یافتہ خاتون پورے معاشرے کو سدھارتی ہے – ایک ماں، بیٹی، بہو یا بیوی با اختیار ہو گی تو یقین جانیے اس سے ہماری مردانگی میں کوئی کمی نہیں آئیگی -یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مرد بھی عورت کے حقوق کی سر بلندی کا عزم کریں – جب مرد حضرات بھی عورتوں کے حقوق کے لئے انکے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے تو کوئی عورت ہمیں دریاؤں میں کود کر خود کشی کرتی نظر نہیں آئے گی – عورت کو انکے حقوق ملنے سے سماج اور زیادہ مضبوط ہو گا – ہر فیلڈ میں عورت کی نمائندگی کی ضرورت ہے – صحیح ہی کہا تھا اقبال نے کہ:
وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا