کان کنی اور معدنی وسائل پر غیر مقامی ’مگرمچھوں‘کی اجارہ داری نامنظور: الطاف بخاری
یواین آئی
سرینگر؍؍اپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری نے جموں و کشمیر میں کان کنی اور معدنیات کے ٹھیکے غیر مقامی ٹھیکے داروں کو دینے کے فیصلے کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ان وسائل پر باہر کے ‘مگرمچھوں’ کے بجائے مقامی لوگوں کا حق بنتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر جموں و کشمیر انتظامیہ نے اپنے فیصلے پر ایک ہفتے کے اندر نظرثانی نہیں کی تو ’اپنی پارٹی‘سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کان کنی اور معدنیات کے ٹھیکے غیر مقامی ٹھیکے داروں کو دینے کے فیصلے کے سبب یہاں ایک ‘مافیا’ سرگرم ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں تعمیراتی مواد کی قیمتیں آسمان کو چھو گئی ہیں۔الطاف بخاری نے یہ باتیں بدھ کو یہاں اپنی جماعت کے ہیڈکوارٹرز میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔انہوں نے کہا: ‘دونوں خطوں کو تعمیراتی مواد کی کمی کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے وقت کی سرکار نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی آڑ میں ایک فیصلہ لیا کہ کان کنی اور معدنیات کے ٹھیکے نیلامی کے ذریعے دیے جائیں گے’۔انہوں نے کہا: ‘کان کنی کے ٹھیکے ان حالات میں دیے گئے جب یہاں پانچ اگست 2019 کے فیصلے کی وجہ سے انٹرنیٹ کی خدمات منقطع تھیں۔ چند بڑے مگرمچھ باہر سے آئے جنہوں نے ٹھیکے اپنے نام کر لئے۔ مقامی لوگوں کو نیلامی میں حصہ لینے کا موقع نہیں دیا گیا’۔الطاف بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نیلامی کو ماحولیاتی کلیئرنس سے مشروط کیا تھا لیکن کسی بھی باہر کے ٹھیکے دار نے ماحولیاتی کلیئرنس حاصل نہیں کیا ہے۔ان کا کہنا تھا: ‘میری اطلاع ہے کہ ابھی تک کسی کو بھی ماحولیاتی کلیئرنس نہیں ملا ہے لیکن وہ پھر بھی کان کنی کر رہے ہیں۔ اگر وہ کان کنی کر رہے ہیں تو کیسے کر رہے ہیں۔ یہ ایک بڑا سوال ہے’۔اپنی پارٹی کے صدر نے کہا کہ کان کنی اور معدنیات کے ٹھیکے غیر مقامی ٹھیکے داروں کو دینے کی وجہ سے یہاں تعمیراتی مواد کی قیمتیں آسمان کو چھو گئی ہیں۔ان کا کہنا تھا: ‘جو ریت کی ایک گاڑی 6 ہزار روپے میں ملتی تھی وہ آج 18 ہزار روپے میں ملتی ہے۔ سرکار کا کوئی بھی فیصلہ عوام کے فائدہ کے لئے ہونا چاہیے تھا۔ اگر ریت فی گاڑی 6 ہزار میں بکتی تھی تو ہمیں امید تھی کہ 4 ہزار روپے میں ملے گی’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘بلیک مارکیٹنگ اس لئے ہو رہی ہے کیونکہ ایک مافیا کام کر رہا ہے جس میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں اور متعلقہ محکمہ بھی ملوث ہے’۔الطاف بخاری نے کہا کہ مقامی انتظامیہ کے فیصلے کے نتیجے میں یہاں کان کنی اور معدنیات سے وابستہ تین لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا: ‘جو مقامی لوگ، جن کی تعداد ڈھائی سے تین لاکھ ہیں، کان کنی کے پیشے سے وابستہ تھے بے روزگار ہو چکے ہیں۔ سرکار کے اپنے تعمیراتی پروجیکٹوں پر کام بند ہے۔ ہمارے ایئرپورٹ اور ہسپتالوں پر جاری کام بھی رک گیا ہے’۔اپنی پارٹی کے صدر نے انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا: ‘ہماری سرکار سے مانگ ہے کہ جیولاجی اینڈ مائننگ کے متعلق ایک جامع پالیسی لائی جائے جس میں مقامی لوگوں کو صد فیصد ریزرویشن دی جائے۔ یہاں کوئی سرکاری نوکریاں نہیں ہیں، انڈسٹریاں نہیں ہیں۔ کیا سرکار چاہتی ہے کہ لوگ سڑکوں پر آ جائیں’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘اگر سرکار کی ہر پالیسی ایسی ہوگی جس کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر آنا پڑے تو مجھے بدقسمتی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اپنی پارٹی کو بھی احتجاج کے لئے سڑکوں پر آنا پڑے گا۔ ہم سرکار کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہیں کہ وہ موجودہ پالیسی پر فی الفور نظرثانی کرے’۔