سرحدوں پر جنگ بندی معاہدے پر عمل آوری کے بعد ہند۔پاک بات چیت ہونی چاہئے
لازوال ڈیسک
جموں؍؍نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ غلام نبی آزاد کارنگریسی ہیں اور کانگریسی ہی رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدوں پر جنگ بندی معاہدے پر عمل آوری کے بعد بھی مزید بات چیت ہونی چاہئے تاکہ مسائل حل ہوسکیں۔موصوف نے یہ باتیں پیر کے روز یہاں نامہ نگاروں کو کہیں۔سینئر کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد کے متعلق ان کا کہنا تھا: ’غلام نبی آزاد کانگریسی تھے، کانگریسی ہیں اور کانگریسی ہی رہیں گے‘۔وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے غلام نبی آزاد کی تعریفیں کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر موصوف صدر نے کہا: ’وزیر اعظم نے غلام نبی آزاد کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش نہیں کی بلکہ جب گجرات کے سیاحوں پر حملہ ہوا تو آزاد صاحب نے اس وقت انتہائی انسانیت کا مظاہرہ کیا تھا جس کی وزیر اعظم نے تعریفیں کیں اور آنسو بہائے‘۔ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حال ہی میں سرحدوں پر جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے پر اتفاق ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’یہ اچھی بات ہے کہ دونوں کے درمیان سیز فائز ہوا ہے اور بھی بات چیت ہونی چاہئے اور مسائل حل ہونے چاہئے‘۔روہنگیائی پناہ گزینوں کے بارے میں پوچھے جانے پر ان کا کہنا تھا: ’ہم سب اس ملک جس کو برما کہتے ہیں کا حال جانتے ہیں پناہ گزینوں کے بارے میں اقوام متحدہ کا ایک چارٹر ہے جس پر حکومت ہندوستان نے بھی دستخط کیا ہے ہمیں اس چارٹر کو قبول کرنا چاہئے اور اس پر کام کرنا چاہئے‘۔موصوف نے حدی بندی کمیشن کو ایک سال کا مزید وقت دینے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ جموں و کشمیر میں انتخابات منعقد ہوں گے یا نہیں لیکن ہم نے ان کے لئے مکمل تیاریاں کی ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت ہند کا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ خواتین با اختیاری بل کو پارلیمنٹ پاس کیا جائے۔مغربی بنگال میں ممتا بینر جی کے لئے انتخابی مہم چلانے کے لئے جانے پر ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔قابل ذکر ہے کہ جموں میں کانگریس کے ورکروں نے حال ہی میں غلام نبی آزاد کے خلاف احتجاج درج کرتے ہوئے ان کو پارٹی سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ان کا الزام تھا کہ غلام نبی آزاد نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریفیں کیں جنہوں نے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کیا۔اس سے قبل نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے شیر کشمیر بھون جموں میں عالمی یومِ خواتین کے موقعے پر منعقدہ ایک تقریب پر پارٹی کی خواتین ونگ کے لیڈران، عہدیداران اور کارکنان سے خطاب کہااوراس موقعے پر پارٹی کے صدرِ صوبہ جموں دیوندر سنگھ رنا ،خواتین ونگ کی ریاستی صدر شمیمہ فردوس ، نائب صدر بملا لُتھرا اور صوبائی صدر جموںستونت کور ڈوگرا نے بھی خطاب کیا اور آج کی دن کے اہمیت اور خواتین کی بااختیاری میں نیشنل کانفرنس کے رول کا خلاصہ کیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’’خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بعد بلند بانگ دعوے کئے گئے لیکن سب کچھ سراب ثابت ہوا۔ کبھی 70ہزار تو کبھی 50ہزار نوکریاں دینے کا اعلان کیا گیا، کبھی تعمیرو ترقی و خوشحالی اور کبھی ملی ٹنسی ختم کرنے کے دعوے کئے گئے لیکن زمینی سطح پر سب کچھ اس کے برعکس ہورہاہے۔ دفعہ370کے خاتمے کے بعد ملی ٹنسی ختم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی، تعمیرو ترقی نفی برابر ہے، خوشحالی کے بجائے لوگوں کو تکلیفوں ، غربت اور افلاس میں دھکیل دیا گیا۔ کل ہی ایک خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ایک ماں نے اپنی بیٹی کو بیچ ڈالا۔ کیوں بیچ ڈالا؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ غریبی نے لوگوں کو برح طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، آج دیکھئے کہ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں۔نوکریوں کے جو اعلانات کئے جارہے وہ یہاںکے لوگوں کو نہیں بلکہ باہر کے باشندوں کو ملیں گی کیونکہ دفعہ370اور 35اے کے خاتمے نے غیر ریاستی باشندوں کو یہاں نوکریاں حاصل کرنے کا اہل بنا ڈالا۔ ‘‘ ڈاکٹر فاروق عبداللہ جب ہم چلّا چّلا کے کہتے تھے کہ دفعہ370ختم ہوگیا تو آپ پر براہ راست اس کے منفی اثرات پر پڑیں گے لیکن جموں کے لوگ ماننے کیلئے تیار نہیں تھے پر اب اچھی طرح سے سمجھ گئے ہیں اور پچھتا رہے ہیں۔ مرکز دکھائے کہ دفعہ370کے خاتمے سے اُس نے جموں و کشمیر کیلئے کون سے تارے توڑے کر لائے۔مرکزی حکومت کے 28ہزار کروڑ اور دیگر پیکیجوں کے اعلانات کو محض زبانی جمع خرچ قرار دیتے ہوئے صدرِ نیشنل کانفرنس نے کہا کہ جب مفتی محمد سعید یہاں کے وزیر اعلیٰ تھے تب وزیر اعظم نے خود جموں وکشمیر کیلئے 80ہزار کروڑ مالی پیکیج کا اعلان کیا تھا؟ کہاں ہیں وہ 80ہزار کروڑ؟ اُن 80ہزار کروڑ سے کون سا کام کیاگیا، خدارا ہمیں بھی تو دیکھائے۔اگر80ہزار روپے خرچ ہوئے ہوتے تو یہاں کی سڑکوں کا حال بد سے بدتر نہیں ہوتا، یہاں پانی کی قلت نہیں ہوتی اور نہ ہی بجلی کی نایابی ہوتی۔حد سے زیادہ مہنگائی پر مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ، پیٹرول اور ڈیزل مسلسل مہنگا ہورہا ہے، گیس کی قیمتیں آئے روز بڑھ رہی ہے، سبزی اور غذائی اجناس کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں ، نیز م مہنگائی نے عام آدمی کی کمرتوڑ کررکھ دی ہے۔ حکومت صرف پروپیگنڈا اور ہوئی قلے بنا رہی ہے، لیکن عوام کو راحت دینے میں اوندھے منہ گر گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ کورونا وائرس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور حکومت اپنے عوام کو ویکسین فراہم کرنے کے بجائے دوسرے ملکوں کو بیج رہی ہے۔ ہمارے یہاں کے کہاوت ہے کہ پہلے اپنا گھر دیکھو لیکن یہاں اُلٹا ہورہاہے غریب عوام کو ویکسین فراہم کے بجائے دوسرے ممالک کو ویکسین فراہم کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ مرکزی حکومت کے بڑے بڑے وزراء آج عالمی یوم خواتین کے موقعے پر بڑی بڑی تقریریں کررہے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں سالہاسال سے پڑی خواتین کی بااختیاری بل دھول چاٹ رہی ہے۔ جس طرح سے بھاجپا نے جارحانہ اکثریت کا فائدہ اُٹھا کر دفعہ370اور کسانوں کی بل پاس کی گئی تو پھر خواتین کی بااختیاری کی بل کو پاس کیوں نہیں کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ صرف مذہب کے نام پر لوگوں کو بانٹنا اور ووٹ بٹورنا جانتے ہیں ۔ صرف باتیں کرنے سے کچھ نہیںہوگا، عورتوں کو حقیقی معنوں میں عزت دینی ہوگی۔ اس موقعے پر سینئر لیڈران ایس ایس سلاتیہ، مشتاق بخاری، ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا، شیخ بشیر احمد، سجاد چاہین، مرزا عبدالرشید، لشکمی دھتا اور دیگر لیڈران و عہدیداران موجود تھے۔