رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیقہ اپنے شوہر نذیر سے ہر دن کسی نہ کسی بہانے پر لڑائی جھگڑا کرتی رہتی تھی ۔ نذیر واپس وار کرنے کے بجائے ہمیشہ اپنی نرم مزاجی سے ہی کام لیتا تھا۔ نذیر کی نرم مزاجی کا بنیادی وجہ اسکی بے روزگاری تھا ۔ اعلی تعلیم حاصل کرکے ابھی تک اسکو سرکاری ملازمت نصیب نہیں ہوئی تھی ۔ ایک دن نذیر گھر کے لئے اشیاء خوردنی لانے کے لئے بازار گیا تھا ۔ بازار میں اسکو ایک پرانا دوست جو اسکے ساتھ کالج میں پڑھتا تھا ملا ۔۔۔۔۔۔۔۔
دوست ۔۔۔۔ نذیر ! کیا حال ہے آج ؟ کیسے دن گزر رہے ہیں؟ کوئی ملازمت ملی ؟ شادی کی یا ابھی نہیں ؟
نذیر ۔۔۔۔۔ شکر اللہ کا ۔ دن تو ٹھیک گزر رہے ہیں مگر ابھی بےروزگار ہی ہوں ۔ شادی دو سال پہلے ہوئی ۔ دو بچے بھی ہوئے ۔
دوست ۔۔۔۔۔۔ آج کل مختلف محکموں میں اسامیوں کو پر کرنے کی غرض سے فارم نکلے ہیں ۔ جاؤ آپ بھی فارم بھرنے کی تلاش کرو ۔ ہو سکے آپ کی قسمت بے دار ہو جائے ۔
بازار سے واپس آتے ہی نذیر فارم بھرنے کے چکر میں لگ جاتا ہے ۔ انٹرویو کی تاریخ بھی نزدیک آرہی ہے ۔ رفیقہ نذیر کی بےروزگاری سے بہت پریشان تھی ۔
ایک دن نذیر دوکان پر کچھ چیزیں لانے کے لئے جارہا تھا تو راستے میں ہی رفیقہ کا فون آتا ہے ۔۔۔۔
” جلدی آجاو گھر ۔ بنک کے دو ملازم آپ سے ملنے آئے ہیں ۔۔۔۔
نذیر گھر پہنچتا ہے تو بنک ملازمین اسکو مبارکباد کہتے ہیں ۔
نذیر ۔۔۔۔ مبارک کس بات کا ؟۔۔۔۔
آپکی تعیناتی بنک میں ہوئی ہے ۔ ہمارے شاخ میں ہی آپکو اب کام کرنا ہے ۔ نذیر کے ہاتھوں میں تعیناتی کے احکامات تھما دئے جاتے ہیں ۔ رفیقہ ، نذیر اور انکے دو بچوں کو خوشی سے آنکھوں میں آنسوں آ رہے ہیں ۔ ابھی تک وہ تنگدستی اور غریبی کی زندگی گزاررہے تھے اب گھر کا سارا نظام تبدیل ہوا ۔ ہر روز نئے پکوان کھانے کے لئے اور پہننے کے لئے مہنگے لباس بیوی اور بچوں کے لئے نذیر مہیا رکھتا ہے ۔ پہلے میاں بیوی اپنے دو لخت جگروں کو کسی عام سرکاری اسکول میں داخلہ کرانا چاہتے تھے اب قصبے کے ایک اعلی پرائیویٹ اسکول میں انکا داخلہ کرایا گیا۔ انکی پرورش اور تعلیم و تربیت میں وہ کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڑتے ۔ ہر طرح کی اعلی سے اعلی تر سہولیت دو بیٹوں کو مہیا کی جاتی ہے ۔ انکے پڑوس میں ہی ایک مفلس اور غریب آدمی اشرف بھی رہتا تھا ۔ اشرف کے بھی دو بیٹے نذیر کے دو بیٹوں کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ مگر اشرف کے بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں ۔
اس سال نذیر کے بڑے بیٹے تجمل کو دسویں جماعت کے امتحان میں بیٹھنا ہے ۔ نذیر نے تجمل کو سال بھر ٹیوشن کے لئے کوچنگ مرکز میں بھی داخلہ کرایا تھا ۔ نذیر کو تجمل سے بڑی امید ہے کیونکہ پرائیویٹ اسکول کے ساتھ ساتھ تجمل کو کوچنگ مرکز میں بھی داخلہ کرایا گیا تھا ۔۔۔۔۔
اشرف کے بڑے بیٹے عارف کو بھی میٹرک امتحان دینا ہے۔ اشرف اور اسکی بیوی بہت پریشان ہیں کیونکہ عارف نے جو کچھ اسکول میں پڑھا ہے وہی لیکر وہ امتحان میں بیٹھ رہا ہے ۔ نہ اس نے پرائیویٹ اسکول نہ ہی کوچنگ مرکز میں داخلہ لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
امتحان ختم ہونے کے بعد عارف اپنے والد اشرف کی کمزور اقتصادی حالت کو دیکھتے ہوئے اس نے دو مہینے تک قصبے کے ایک دوکاندار کے پاس بطور سیلزمین کام کیا ۔ نذیر اپنے بیٹے کو شہر میں ایک بڑے کوچنگ مرکز میں گیارویں جماعت کی پڑھائی کے لئے داخلہ کرتا ہے ۔ پاس ہونا تو ایک معمولی بات ہے لیکن نذیر چاہتا ہے کہ اسکے بیٹے تجمل کو ضرور کوئی پوزیشن ہو ۔۔۔۔۔
دو مہینے بعد امتحانات کے نتائج بھی منظر عام پر آگئے ۔ عارف نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے اور تجمل سے بہت زیادہ نمبرات حاصل کئے ہیں ۔ تمام ہمسایہ اور رشتے دار سمیت اساتذہ بھی عارف کو مبارکبادی دیتے ہیں ۔۔۔۔
رفیقہ اور نذیر دونوں میاں بیوی بہت دکھی ہوئے ۔ اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ تجمل کو شہر میں ہی کسی اعلی کوچنگ مرکز میں درج کریں گے ساتھ میں اسکی رہائش کے لئے بھی ہوسٹل کا بندوبست کیا جائے ۔ دو سال کے لئے میاں بیوی نے ہوسٹل وارڈن کو ایڈوانس میں تجمل کی رہائش کے لئے رقم دے دی ۔۔۔۔۔۔
عارف نے دو مہینے تک جو پیسے کمائے تھے ان میں سے کچھ والد کے حوالے کئے اور کچھ اپنے داخلے کےلئے رکھے ۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت کی تعلیم بھی عارف نے سرکاری اسکول میں حاصل کی۔ کسی کوچنگ مرکز کا رخ تک نہ کیا کیونکہ باپ کی مالی حالت کمزور تھی ۔۔۔۔
تجمل برابر دو سال تک شہر میں ہی رہا ۔ اپنے والدین نے اسکو کبھی گھر آنے نہ دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کی تجمل کو کسی طریقے سے وقت ضائع ہوجائے ۔ اس سال تجمل اور عارف دونوں کو بارہویں جماعت کا امتحان دینا ہے ۔۔۔۔۔
امتحانات ختم ہونے کے بعد نتائج بھی ظاہر ہوئے ۔ اس سال بھی عارف نے پہلے سے زیادہ نمبرات حاصل کئے ہیں ۔ تجمل کو پانچ میں سے تین کتابیں ہی پاس ہیں دو کتابوں میں اسکا ریپیر آیا ہے ۔ رفیقہ اور اسکا شوہر نذیر اپنے ہمسایوں اور رشتے داروں کو منہ تک نہیں دکھا پا رہا ہے ۔ اب انہوں نے تجمل کو کسی ورکشاپ پر کام کرنے کے لئے بھیجا کیونکہ اچھی خاصی رقم خرچ کرنے اور ہر طرح کی سہولیات مہیا رکھنے کے باوجود بھی تجمل کی ناکامی نے انکی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔۔۔۔۔
عارف اب نییٹ امتحان کی تیاری کررہا ہے ۔ دسویں اور بارہویں جماعتوں میں اچھی کارکردگی کی بنا پر عارف کو اب اسکالرشپ بھی مل رہا ہے ۔ اب اسکو مزید تعلیم حاصل کرنے کےلئے پیسوں کی پریشانی نہیں ہے ۔ نییٹ کا امتحان دینے کے بعد عارف اب نتائج کے انتظار میں ہے ۔ عارف کو ، اسکے سب رشتے داروں اور ہمسایوں کو پورا بھروسہ ہے کہ عارف کی سلیکش سرکاری مڈیکل کالج میں ہوگی کیونکہ عارف ذہین بھی ہے اور محنتی بھی۔۔۔۔۔۔
ایک دن عارف اپنے چھوٹے بھائی اور ماں باپ کے ساتھ باورچی خانے میں صبح کا ناشتہ کررہا ہے تو محلے کے ماسٹر جی نے جو عارف کا استاد بھی رہا ہے یہ خبر سنائی کہ عارف کی سلیکش شہر کے سرکاری مڈیکل کالج میں ہوئی ہے ۔ اسکے ہاتھ میں اخبار تھا جس میں سلیکشن لسٹ شائع ہوا تھا ۔ اس نے اخبار عارف کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ پورا گھر اور خاندان خوشیوں سے جھوم اٹھا ۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔