محمد شاہد اعظم
پچھلے سات سال سے ہمارے ملک میں ایسی وبا عام ہوگئی ہے کہ یہاں آزاد اظہار خیال پر بتدریج قانونی پکڑ بڑھتی ہی جارہی ہے ۔حکومت کے فیصلوں کے خلاف کھُل کر اپنی رائے پیش کرنا وبال جان بنتا جارہا ہے ۔اگر کوئی فیصلہ یا پالیسی مفاد عامہ کے خلاف نظر آتی ہے تو اس پر عدم اتفاق dissentکو دیش دروہی یا غدار وطن سمجھا جانے لگا ہے اور یہ روش آئے دن خطرناک بیماری کی طرح پھیلتی جارہی ہے ۔یہ بیماری ملک کے صحت مند آئین کو کھوکھلا کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔حکومت کے خلاف جمہوری طرز حکومت میں اپنی رائے ظاہر کرنا گناہ کرنے کے مترادف آواز اٹھانے والوں کو آگاہ کیا جارہا ہے ۔جو کچھ بھی ہوتا ہے اور ہونے والا ہو اس کو آنکھ اور کان بند کر کے تسلیم کر لینے میں ہی عافیت ہے ،یہ تاثر حکومت کے طریقہ کار سے عام کیا جارہا ہے ۔تقریباً ڈھائی ماہ سے احتجاج کر رہے کسانوں اور ان کے حامیوں کو بھی یہی تاثر دیا جار ہاہے ۔گودی میڈیا سے جڑے اہلکار حکومت کی زبان میں کہنے لگے ہیں کہ کسانوں کو زرعی قوانین سے زیادہ کسانوں کے حامیوں یعنی ان کے طرفداروں کے مقاصد سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہے ۔جھوٹ کو سچ بتاکر پھیلانے کی روایت مودی حکومت کے اقتدار پر آتے ہی پروان چڑھنے لگی ۔ایک طرف فیصلہ لینا اور پارلیمان میں اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاکر اس کو جارحانہ طور پر لاگو کرنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ پچھلے ستر سالوں میں جو نہیں ہوسکا وہ اب موجودہ سرکار سے ممکن ہورہا ہے ۔یہ سب جمہوریت کے رہنما اصولوں کے برعکس ہورہا ہے ۔اپنی بات منوانے میں بی جے پی اپنے سوشیل میڈیا کے ذریعہ باضابطہ منصوبہ بند طریقے سے کام کررہی ہے ۔منصوبہ بندی انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب کر رہی ہے ۔دوسری جانب اپوزیشن ہلکا پھلکا اور پھیکا پڑگیا ہے ۔کرارا جواب دینا اور حکومت کو جواب دہ بنانے کی جرأت مندی اور حکمت عملی افسوس کہ قابل اطمینان نہیں ہے۔تبھی تو حکومت کی پورے ملک کو اپنے رنگ میں رنگنے کی خواہش اور کوشش ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے ۔
سی اے اے قانون کی مخالفت ہو یا زرعی قانون کے خلاف مزاحمت ،حکومت حق کی سربلندی کے لئے اٹھنے والی آواز وں کو بے اثر کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔کسانوں کے حقوق کی نوجوان جہد کار دیشا روی کی گرفتاری او رعدالتی تحویل نے حکومت کی موجودہ روش کو ایک بار پھر آشکار کیا ہے ۔ملک میں جتنی بھی اشتعال انگیزی حکومت کے حامیوں کی جانب سے ہوتی رہے،اُن پر کوئی بھی کارروائی نہیں ہوگی ۔نفرت پھیلانے والوں کو، قینچی کی طرح زبان دراز کرنے والوں پر حکومت کی کرم فرمائی اور ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں اورمظاہرین کی حمایت کرنے والوں پر الزامات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے ۔حق کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو آہنی سلاخوں کے پیچھے بند کر کے جو پیغام دیا جارہا ہے وہ صاف صاف ہے۔بھیڑ بکریوں کی طرح سر جھکائے چلتے رہو۔
معروف ٹی وی اینکر رویش کمارنے اپنی کتاب’’بے خطر آواز‘‘ The free Voiceمیں لکھاہے کہ آج نفرت کا زہر پھیلانے زعفرانی فوج اپنے ہر فرد کو ایک ’انسانی بم‘ کی طرح چاروں سمت پھیلا رہی ہے۔پتہ نہیں وہ موقع پاکر عوام کے درمیان کب کوئی شوشہ چھوڑ دے اور آپس میں مل کر رہنے والوں کو آپس میں لڑوا دے ۔اِسی طرح حکومت کے قدموں تلے بیٹھا ہوا خود غرض گودی میڈیا بھی حکومت کی زبان بولنے او رلوگوں میں خوف پھیلانے بڑی ہی مستعدی سے کام کر رہا ہے ۔ایک طرح سے باخبر کیا جارہا ہے کہ خاموش رہو ،سہتے جاؤاور بولو کچھ نہیں ۔جہاں خاموشی کے سنّاٹے ہوں گے وہاں تاریکی پھیلتی جائے گی اور صالح قدروں کو دیمک چاٹ جائے گی ،مگر پھر بھی ایسے سرکش ماحول میں چند جیالے اور جرأت مند ہمارے ہم وطن متحرک ہیں ۔ہر محاذ پر وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔تمنا ہے کہ بے خوف وخطر ملک کی سا لمیت کو محفوظ رکھنے والے روشن دماغو ں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے ،ان کے ساتھ روشن خیال اور باخبر شہریوں کی حمایت شامل ہے ،اِس کی تصدیق عملی طور پر نظر بھی آئے ،کیونکہ خاموش حمایت اکثر بے معنی رہ جاتی ہے ۔