سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد
7006738436
شکایت ہے مجھے یا رب خود وندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دیتے ہیں خاکبازی کا
استاد استاد ہی ہوتا ہے چاہے کوئی بھی میدان ہو استاد پر بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہے یہ ایک استاد کا ہی کمال ہوتا ہے کہ طالب علم کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے استاد کی ایک بہت بڑی ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیچھے آن والوں یعنی طالب علموں کی اچھی تربیت کرے بلکہ وقتا فوقتاً ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہے اس بات پر مجھے استاد شعراء سے ایک شکوہ ہے جیسا کہ میں نے مضمون کے عنوان میں ہی عرض کیا یاد رہے کہ شکوہ یا گلا ان سے کیا جاتا ہے جن سے توقعات وابستہ ہوں
مضمون کا عنوان یقیناً قابل حیرت ہے کہ آخر شعراء سے کسی کو کیا گلا ہو سکتا ہے اور کیوں؟ اصل میں میرا موضوع حوصلہ افزائی ہے ہم سب اس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ہر کسی کو کسی نہ کسی طرح کی حوصلہ افزائی ضرور درکار ہوتی ہے ایک انسان ہمیشہ حوصلہ افزائی کا محتاج ہوتا ہے حوصلہ افزائی کے معنی ہیں کہ اچھے کام پر کسی کی تعریف کر کے اس کا حوصلہ بڑھانا یا اچھے کام کی سرہانہ کرنا حوصلہ افزائی آگے بڑھنے کے لیے بے حد ضروری ہے جس طرح گاڑی کے لیے پیٹرول ضروری ہے اسی طرح زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی ضروری ہے دراصل حوصلہ افزائی میں کامیابی مضمر ہوتی ہے اور حوصلہ شکنی میں ناکامی، حوصلہ افزائی ہر میدان میں ضروری ہے چایے کھیل کود کا ہی میدان کیوں نہ ہو اگر ایک اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ مزید بہتر کھیلنے کی کوشش کرے گا اور اگر اچھے سے اچھے کھلاڑی کی حوصلہ شکنی کی جائے تو وہ پست ہو جائے گا اور بالکل بھی بہتر نہیں کھیل پائے گا اسی طرح کی حوصلہ افزائی ہر میدان میں درکار ہوتی ہے اگر بچہ کوئی کام کرتا ہے اور اپنے والدین یا اساتذہ کے سامنے پیش کرتا ہے تو اساتذہ یا والدین کو بہت ہی ہوشمندی سے کام لینا چاہیے کیونکہ ایسے موقع پر ان کا ایک جملہ بھی بچے کی قسمت کا فیصلہ کر سکتا ہے اگر اس بچے کے کام کو سراہا گیا اور خامیوں کو بہت خوبصورتی سے دور کرنے کی کوشش کی گئی تو بچہ یقیناً اس کام کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر اس کام پر بچے کو بیجا ڈانٹا گیا اور اس کی حوصلہ شکنی کی گئی تو یقین جانیے بچے کو اس کام سے دل بھر جائے گا اور بہت ممکن ہے کہ بچہ اس کام میں کبھی بہتر نہ کر پائے گا ہمارے پاس ہزاروں ایسی مثالیں ہیں جہاں حوصلہ شکنی کی وجہ سے ذہین سے ذہی طلبا بھی علم کا میدان چھوڑ آئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ حوصلہ افزائی کون کرتا ہے ایک کہاوت ہے کہ دراصل حوصلہ افزا لوگ ہی دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اعلیٰ ظرف لوگ ہی دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کم ظرف لوگ حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ میں ہمیشہ یہی رہتا ہے کہ جہاں ہم ہیں کوئی اور نہ پہنچ جائے شعروشاعری کے میدان میں بھی حوصلہ افزائی بے حد ضروری ہے جس کی کمی صاف صاف جھلکتی ہے میرا گلہ استاد شعراء سے ہے کہ وہ نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں نہ صرف شاعری بلکہ نثری اصناف کے جو استاد ہیں وہ بھی باقی لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ شعروادب کے میدان میں قدم رکھنے سے کتراتے ہیں وادی کشمیر میں اس طرح کا رجحان کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے ایسا سبھی شعراء کے لیے نہیں کہا جا سکتا ہے تاہم بیشتر استاد شعراء اسی دائرے میں آتے ہیں موجودہ معاشرے کی شکایت ہے کہ نئی نسل شعروادب سے دور چلی جا رہی ہے اور نئی نسل اور شعروادب میں خلیج بڑھتا جا رہا ہے لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ نئی نسل کو شاعری سے متعارف کرنے کے لیے استاد شعراء کیا کر رہے ہیں دیکھا جائے تو نئے شاعروں کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں ہے آخر استاد شعراء نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کرتے؟ ان کا سہارا کیوں نہیں بنتے؟ استاد شعراء نئے شاعروں کی اصلاح کرنے میں کتراتے کیوں ہیں؟ استاد شعراء کو نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کر کے نئی نسل کو شاعری کی طرف راغب کر لینا چاہیے بصورت دیگر وہ حوصلہ شکنی کے شکار ہو جائیں گے اور اس طرح سے نئی نسل اور شعرو ادب کے درمیان خلیج بڑھتا جائے گا اور استاد شعراء پر کم ظرفی کا الزام لگ جائے گا ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ میرے ان خیالات سے اتفاق نہ کرتے ہوں اور میری رائے سے سبھی کا متفق ہونا ضروری بھی نہیں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سارے قارئین میری اس رائے سے متفق ہوں لیکن میرا تجربہ یہی کہتا ہے کہ جو استاد شعراء ہیں یعنی جنہوں نے شاعری کے میدان میں اچھا خاصا نام کمایا ہے ان سے آسانی سے بات کرنا بھی مشکل ہوتا ہے ان سے رہنمائی حاصل کر کے مستفید ہونا تو دور کی بات ہے کشمیر کے نوجوانوں میں ادب کے تئیں دلچسپی بھی ہے اور وہ صلاحیتوں سے مالا مال بھی ہیں کمی اگر ہے تو حوصلہ افزائی کی اور ان کا ہاتھ تھامنے کی شعراء حضرات سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ نئے آنے والے شاعروں کی حوصلہ افزائی کریں اپنے بیچھے نئے پودے لگاتے جائیں تاکہ نئی نسل شعروادب سے متعارف ہو جائے گی ایسا کرنے سے استاد شعراء کا نام مزید چمکدار اور روشن ہوگا اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمارا ضمیر ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا اور بہت ممکن ہے کہ آنی والی ہماری پوری نسل شعروادب سے ناواقف رہی گی اور استاد شعراء کے بعد ان کے نام لیوا نہیں رہیں گے نہ ہی نئی نسل انہیں معاف کرے گی استاد شعراء کو نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرنے میں کنجوسی نہیں کرنی چاہیے حوصلہ افزائی سے انسان میں خود اعتمادی بڑھ جاتی ہے کیونکہ نئی نسل کا شعروادب سے جڑا رہنا بے حد ضروری ہے اس طرح نئی نسل میں پائی جانے والی اخلاقی کمی کو بھی دور کیا جا سکتا ہے کیونکہ ادب اقدار کا محافظ کہلایا جاتا ہے نئ نسل کو شعروادب سے جوڑنا ان کو اخلاق و اقدار سے جوڑنے کے مترادف ہو گا
گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ