ازور شیرازی
ذرا بھی صحبتِ بد کا اثر نہیں لگتا
جب اُس کی بات سے پہلے مگر نہیں لگتا
میں اپنے اشک کی وسعت کو جانتا ہوں مجھے
سمندروں کے تلاطم سے ڈر نہیں لگتا
تمہارے عشق میں شوریدگی نہیں آئی
کہ تجھ کو دشت و بیابان گھر نہیں لگتا
بچھڑنے والے کا تاعمر غم منانے دے !
ہمارا دل کہیں بارِ دگر نہیں لگتا
دکھا رہے ہو عزیزوں کی بزم میں کیوں کر
جگر کے چاک کو ٹانکا اِدھر نہیں لگتا
جگر کا زخم چھپا کر جہان سے رکھیے
یہ آئینہ کبھی دیوار پر نہیں لگتا
سفر نصیب ہوا ہے اُسی کے ساتھ کہ جو
کسی طرف سے شریکِ سفر نہیں لگتا