ذوالفقاراحسن :سرگودھا پاکستان
[email protected]
03340755102 03150569103
تخلیق کار ملکی سرحدوں سے ماورا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں رہنے والے لاکھوں دلوں میں بسنے لگتے ہیں اور محبت سمیٹنے لگتے ہیں ۔ مظہر امام انڈیا کے رہنے والے تھے مگر انھوں نے جو عزت و شہرت دنیا بھر میں حاصل کی ہے وہ شاید ہی کسی اور کے حصہ میں آئی ہو ۔ مظہر امام کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں انھوںنے اردو شاعری میں بے پناہ شہرت حاصل کی ۔ تنقیدی مضامین کے حوالے سے بھی خاصے مقبول ہوئے ۔ مظہر امام 5 مارچ 1930ء کو دربھنگا ( بہار ) میں پیدا ہوئے ۔ تیرہ برس کی عمر میں افسانہ نگاری سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا اور کئی شاہکار افسانے لکھے ۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد انھوںنے پوری توجہ شاعری کی طرف کی ۔ مظہر امام نے اردو اور فارسی میں نہ صرف ایم اے کیا بلکہ یونیورسٹی بھر میں اول بھی آئے اور گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرے ۔ ملازمت کے دوران ریڈیو اور ٹی وی کے متعلقہ تکنیکی ، انتظامی اور خصوصی مہارت کے کئی کورسز بھی کیے ۔ مختلف ادبی رسائل کے مدیر اور کئی روزناموں کی ادارت میں معاون بھی رہے ۔ 1958ء میں آل انڈیا ریڈیو اور 1975ء میں دور درشن سے منسلک ہوئے اور کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ۔31 مارچ 1988ء کو ڈائریکٹر دُور درشن سری نگر کے عہدے سے وظیفہ یاب ہو کر سبکدوش ہوئے ۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد ان کا تمام وقت قرطا س و قلم کے ساتھ گزرا ۔ ان کے تین شعری مجموعہ ہائے کلام منظر عام پر آئے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ زخم تمنا‘‘ 1962میں شائع ہوا ۔ دوسرا شعری مجموعہ 1974ء میں ’’ رشتہ گونگے سفر کا ‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آیا جبکہ تیسرا شعری مجموعہ ’’ پچھلے موسم کا پھول ‘‘ 1988ء میں شائع ہوا ۔اس مجموعہ نے قاری کو غزل کا ایک نیے ذائقے سے روشناس کروایا ۔ چند شعر ملاحظہ ہوں :
تُو ہے گر مجھ سے خفا ، خود سے خفا ہوں میں بھی
مجھ کو پہچان ، کہ تیری ہی ادا ہوں میں بھی
یوں نہ مرجھا کہ مجھے خود پہ بھروسہ نہ رہے
پچھلے موسم میں ترے ساتھ کھلا ہوں میں بھی
اس سے پہلی سی عنایت کی توقع نہ رکھوں
اپنے صحراوں پہ خود برسوں ، گھٹا ہوجاؤں
اس دوراہے پہ کھڑا سوچ رہا ہوں کب سے
تجھ سے بچھڑوں ،کہ زمانے سے جدا ہو جاؤں
ایک میں نے ہی اگائے نہیں خوابوں کے گلاب
تو بھی اس جرم میں شامل ہے ، میرا ساتھ نہ چھوڑ
ٹوٹی ہوئی دیوار کا سایہ تو نہیں ہوں
میں تیرا ہی بھولا ہوا وعدہ تو نہیں ہوں
تنقیدی مضامین کی کتاب ’’ آتی جاتی لہریں ‘‘ 1981ء میںزیور طباعت سے آراستہ ہوئی ۔مظہر امام نے اردو شاعری میں ہیئت کے حوالے سے کئی تجربات بھی کیے اور یوں آزاد غزل کے امام بھی ٹھہرے ۔ مظہر امام دنیا بھر کے معروف ادبی جرائد میں شائع ہو رہے تھے ۔ ان کی غزل قاری کو ایک نئے ذائقہ سے روشناس کروارہی تھی ۔ پاکستان ہو یا انڈیا ان کی مقبولیت روز بروز بڑھتی ہی چلی گئی ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے معروف ادبی جریدے ’’ اوراق ‘‘ میں بھی ان کی نگارشات باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہی تھیں ۔ ان کے خطوط اور دیگر مضامین بھی ’’ اوراق ‘‘ کی زینت بن رہے تھے ۔ ان کے کلام کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی کہتے ہیں :
’’جدید فن شعر کا جو اظہار مظہر امام کے کلام میں ہے اسے جدید شعری فکر کا بھی اظہار کہہ سکتے ہیں ۔ انہیں اپنے لہجے کی انفرادیت ثابت کرنے کے لیے کسی خارجی سہارے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ حیات و کائنات سے ان کا رشتہ ہی ایسا ہے کہ اس کا تصور کسی روایتی فکر سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کی کرید ان کا تجسس ، ان کی برہمی ، ان کی بے چارگی ، پر تفکر محزونی ، ان عناصر کو الگ الگ کر کے دیکھیں تو یہ عصر حاضر کی عمومی فضا میں جگہ جگہ مل جائیں گے لیکن مظہر امام کے شعری فکر کی انفرادیت نے ان مختلف دھاروں کو یک جا کر کے انہیں اپنے کوزے میں بند کر لیا ہے ۔ ‘‘
مظہر امام نے غزل کے میدان میں خاصی شہرت حاصل کی ان کی غزل سبک روی اور ندی کے بہاؤ کی طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہی ان کی غزل نے ندی سے نالے کا روپ نہیں دھارا ۔ انھوں نے غزل کی ہیئت کے حوالے سے بے شمار تجربات بھی کیے ۔ مظہر امام نے آزاد غزل کی نہ صرف روایت بھی ڈالی عملی طور پر خود آزاد غزلیں بھی تخلیق کیں اور اس پر کئی مضامین بھی لکھے ان کی آزاد غزل کے کچھ نمونے دیکھئے :
آزاد غزل
سب دعائیں ہو چکیں ، انجام درماں ہو چکا
اے چراغ بے سحر ! میرے لیے اک لمحہ ٔ آخر تولا
گونجتی ہے ریت پر اب بھی صدائے نقش پا
کون تھا وہ اے سمندر کی ہوا
میں ، کہ اپنی بے اماں راتوں کا ہوں پروردگار
آ ، تجھے بھی آزمالوں اے خدا !
مظہر امام غزل کے میدان کے ایک ایسے شاعر تھے جنھوں نے جدیدیت کا علم ہاتھوں میں پکڑے فرس ِ روایت پر سواری کی ہے ۔ انھوں نے توسنِ تخیل پر کائنات اور اس کی نزاکتوں کو سمجھنے کی بھی کوشش کی ہے ۔ وہ محبوب سے مخاطب ہوتے ہوئے یوں گویا ہوتے کہ جیسے وہ انہی کے وجود کا ایک بچھڑا ہوا حصہ ہوں ایسا کئی بار دیکھنے میں آیا ہے۔ مظہر امام جدید اردو غزل کے امام بھی مانے گئے ہیں ۔ان کا کلام انگریزی ، روسی ، عربی کے علاوہ ہندوستانی زبانوں ہندی ، بنگلہ ، مراٹھی ، گجراتی ، سندھی ، آریہ ، آسامی ، پنجابی ، کشمیری ، اور ڈوگری زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے ۔ کریٹک سرکل آف انڈیا ، اترپردیش اردو اکیڈمی او رجموں و کشمیر کلچر ل اکادمی سے خصوصی انعامات اور اعزازات حاصل کیے ۔ مظہر امام کی شخصیت اور فن پر متھلا یونیورسٹی اور رانچی یونیورسٹی نے تحقیقی مقالے بھی لکھے جا چکے ہیں ۔بہار اردو اکیڈمی نے اردو زبان و ادب کی مسلسل خدمات کے اعتراف کے طور پر اپنے سب سے بڑے ادبی انعام سے نوازا ہے ۔نعمان شوق نے فیس بک کے ذریعے دوستوں کو مظہر امام کی وفات کی اطلاع دی ۔ مظہر امام 30 جنوری2012ء کو نئی دہلی میں دن 11:30 پر انتقال کر گئے ۔ ان کے انتقال سے انڈیا ایک صاحب طرز شاعر سے محروم ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے ۔ مظہر امام کا لکھا ہوا یہ شعر ایک بے ساختہ یاد آنے لگا ہے ۔
یہ سراب ِ جسم و جاں ہی تو اٹھا لے جائے گی
زندگی مجھ سے خفا ہوگی تو کیا لے جائے گی
٭٭٭٭٭