شاعر : پرویز شہریار
صفحات : 160
قیمت : 250 روپے
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ، دہلی
تبصرہ نگار : عظمت النسائ،ریسرچ اسکالر،شعبۂ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
پرویز شہریارایک اچھے فکشن نگار،شاعر اور ادیب ہیں۔ انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغازباضابطہ 1980 ء میں کیا۔ان کے دو افسانوی مجموعیــــــــــ ’’بڑے شہر کا خواب‘‘2005ء اور’’ شجر ممنوعہ کی چاہ میں‘‘2014ء میں منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ـاسی زمانے میں انہوں نے شاعری کی بھی شروعات کی تھی ۔انہوں نے اپنی شاعری کی ابتداء نظموں سے کی کیونکہ انہیں غزلیہ شاعری سے زیادہ نظمیہ شاعری سے دلچسپی رہی ہے۔جیسا کہ انہوں نے کہا ہے کہ ’’غزل سے بھی رغبت رہی ہے لیکن مجھے نظمیہ شاعری زیادہ عزیز رکھتی ہے‘‘یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نظم ہی کو اپنے تجربات کے اظہار کا وسیلہ ۔
حقیقی جذبات کے شاعر پرویز شہریار کی کتاب’’بھوک کی حمایتـ‘‘ میں ان کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔اس سے پیشتر ان کا شعری مجموعہ’’ بڑا شہر اور تنہا آدمی ‘‘ 2009ء میں منظر عام پرآچکا ہے،اس پر 2011ء میں اتر پردیش اردو اکادمی نے انعامات سے بھی نوازا۔45نظموں پر مشتمل ’’بھوک کی حمایت میں‘‘ کا انتساب مصنف نے ن م راشد کے نام کیا ہے۔پرویز شہریار نے سب سے پہلے اس کتاب میں ’گفتنی ‘عنوان کے تحت سوانحی اشاریہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تئیں ایک ادیب اور شاعر کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں اس پر مختصر روشنی بھی ڈالی ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’’ادیب اور شاعر اپنے معاشرے کے نبض شناس ہوتے ہیں۔وہ جس سماج میں اور جس دور میں جی رہے ہوتے ہیں،
ان کے فن پارے میں اس دور کے سماج کی دھڑکن سنائی دینی چاہیے ۔ان کے فن پارے میں واقعات اور بشری
محاکات بعید از امکان نہیں ہونے چاہیے۔ان کے کردار کی حرکات و سکنات سے اس معاشرے کی تہذیب کی جھلک
مترشح ہونی چاہیے۔کسی شاہکار فن پارے کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت کا ادبی دستاویز تو ہوتا ہی ہے ،لیکن
اس میں آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے امکانات بھی مخفی ہوتے ہیں…
ادیب جس سماج کا پروردہ ہوتا ہے ،اس کا اسے اخلاقی فرض بھی اتارنا ہوتا ہے۔جس طرح نقاد اپنے فرائض منصبی
کو بروئے کار لا کر ادیب اور شاعر کو گمراہ ہونے سے بچاتے ہیں۔اسی طرح شاعر اور ادیب پر بھی واجب ہو جاتا ہے
کہ وہ اپنے شائقین کو ابتذال و انحطاط سے بچائے‘‘
پرویز شہریار کی نظموں میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی ملتی ہے ،ان میں زندگی سے محبت کا احساس بھی ہے،انسانوں کے مسائل اور ان کی ذات سے آگہی بھی۔ان کی شاعری سماجی شعور ،نفسیاتی حقائق،اور تہذیبی قدروں کی پاسداری کا احاطہ کرتی ہے۔پیش نظر کتاب کی وہ نظمیں جن کا عنوان ،بھوک کی حمایت میں،شجر ممنوع سے پرے،صندل کی خوشبو اور سانپ،بڑے شہر کا خواب ،یہ سفر جاری رہے مشہور اور اہم نظمیں ہیں۔
پرویز شہریار نے علامتوں ،استعاروں اور تلمیحات کا استعمال بھی خوب کیا ہے۔انہوں نے معاشرے کی کلاسیکی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ان ساری تلمیحات اور علامات کو برتا ہے جن کا تعلق اسلامی تہذیب و تمدن سے ہے،خاص کر تلمیح حوا جابجا ان کی نظموں میں دیکھنے کو ملتی ہے:
دنیا کے سب سے اولین انسانی جوڑے
آدم اور حوا سے
خود کو جوڑ سکے
سکوت موت کی علامت ہے اگر
تو اس علامت کو جامد ہونے سے بچائے
نظم شجر ممنوع سے پرے سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
تجھ سے بچھڑ کے
اے بی بی حوا
ہم تیرے بچے
بشری سمندر کے
پے در پے تھپیڑوںسے
دور اور بھی دور ہو گئے ہیں
بھیڑ میں کھو گئے ہیں
ابلیس دور کھڑا تماشائی ہے نظم سے چند اشعار دیکھیے:
ابلیس کی آدم سے جنگ جاری ہے
ابلیس آج بھی آدمیت انسانیت پر بھاری ہے
بارگاہ الہی سے رائندہ در گاہ ہونے کے بعد
ابلیس نے قسم کھائی تھی
آدمی کو گمراہ کرنے کی
مذکورہ بالا اشعار کے مطالعے سے پرویز شہریار کی قرآن اور اسلامی تاریخ سے عقیدت و محبت اور انبیائے اکرام کی حیات مبارکہ سے بے پناہ رغبت ظاہر ہوتی ہے۔انہوں نے اپنی شاعری کو اسلامی تلمیحات سے مزین و ملون کیا ہے۔وہ اپنی نظموں میں مشتمل تلمیحات پر بڑا ناز کرتے ہیں ۔
پرویز شہریارنے اپنے عہد کے سماجی مسائل ،احساس بے چارگی ،ناکامی،ناامیدی،تنہائی،بے حسی،عدم تحفظ،خوف،زندگی کی تلخیاں وغیرہ کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔وہ ظلم کی مخالفت کرتے ہیںاور مظلوموں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔آج جنوری کی اس کڑاکے کی سردی میں ملک کا کسان اپنے حق کے لیے سڑک پر اترا ہے ،اس پر ہوئے ظلم کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔پرویز شہریار نے بہت پہلے کسان اور مزدور کی محنت کو جانا ہے اور اس کے دکھ درد سے اچھی طرح واقف بھی ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
تو مزدور ہے
یہی تیرا قصور ہے
تیری قسمت میں نہیں آرام
شام کو جوں توںصبح کر
صبح کو کر تو شام
اے محنت کش
تیرا نعم البدل ہے
کام،کام اور بس کام
جاگو کسان جاگو نظم کے یہ اشعار دیکھئے:
سر براہان اقتدار کی ہوس نے
کسانوں کے مسائل کی ایک عرصے سے ان دیکھی کی ہے
یہی اسباب ہیں کہ آج
ماوٗوادیوںاور مارکسیوں نے مل کر
بھوکے،ننگے اور بے گھر آدی واسیوں کی ریلی کی ہے
ایوان اقتدار میں آج پھر کھل بلی سی ہے
جاگو کسان جاگو
پرویز شہریار کی شاعری میںہند-اسلامی تہذیب کی اعلیٰ اقدار کی نمائندگی بھی جا بجا دیکھی جاسکتی ہے بلکہ اس طرح دیکھا جائے تو ان کے فکر و فن کی بلندی ہر جگہ نمایاں نظر آتی ہے،وہ مشکل الفاظ کے بجائے عام فہم الفاظ اور تراکیب کا استعمال کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں رومانی اور جمالیاتی عناصر بھی عمدہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔
تیرے صندل بدن کی خوشبو۔۔۔۔۔
کوئی امرت،کوئی سوم رس بھی نہیں،
پھر کیوں یہ دشٹ راہو کیتو کی طرح
پینا چاہتا ہے، اسے بوند بوند،چال بازی سے
تاریکی ہی تیرا مقدرٹھہرا،
تیرا مسکن بھی تاریک ہے
اے ذوالقرنین!
ظلمت ہی تو آب ِحیات کا سر چشمہ ہے
پیش نظر کتاب کی زیادہ تر نظمیںہند و پاک کے معتبر رسائل و جرائدمیں چھپ چکی ہیں۔
علاوہ ازیں، پرویز شہریار نے کو ویڈ ۱۹ کے دوران انگریزی میں تقریباً چالیس نظمیں لکھی ہیں۔ اب تک ان کی نظمیں چار عالمی انتھالوجی کے انتخابات میں سینکڑوں شعرا اور شاعرات کی نظموں کے ساتھ شائع ہو چکی ہیں ۔ ان کی نظمیںہندی اور انگریزی کی میگزینوں میں شائع ہورہی ہیں۔ ان کی نظمیں دُنیا کی جلیل القدر زبانوں مثلاً عربی، ہسپانوی، انڈونیشیئن اورپولیش میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔یہ نظمیں شعری ذوق رکھنے والوں کے لیے تسکین کا سامان فراہم کرتی ہیں۔امید ہے کہ ادبی حلقوں میں اس مجموعہ کی مزید پذیرائی ہو گی اور اسے پسنددیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔