بشیراحمد رونیال ساکنہ پنلہ مالیگام ،ضلع رام بن
رابطہ نمبر:9906148452
بسیّارخوباں دیدہ ام اماّتُو چیزے دیگری
یوں تواسیرؔ کشتواڑی کی ہفت رنگ شخصیت ،ادبی اُفق پرگذشتہ تین چاردہائیوں سے ایک درخشندہ ستارے کے مانند اپنی انفرادی آن بان اورشان سے اُردواورکشمیری زبان میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ان کے ہزاروں پرستارہیں جواِن کی تخلیقات ،ارشادات کوپسندکرتے ہیں ،پڑھتے ہیں، سردُھنتے ہیں ،سراہتے ہیں ان پرریسرچ بھی کرتے ہیں اُن میں سے میں بھی ایک ہوں ،عرصہ درازسے میری خواہش تھی کہ میں بھی اپنی والہانہ عقیدت کانذرانہ پیش کروں مگراظہارکرنے کی جرأت ہمت برنہیں آتی تھی ۔اپنی علم علمی ،بے مائیگی ،سِدراہ جنی رہی آج سوچانہ جانے کب کوہِ الوند سے بُلاواآجائے اورمیری دِل کی تمنّا دِل ہی میں رہ جائے اِس خوف سے عجلت میں قلم اُٹھایاہے ۔میراکچھ کہناچھوٹامُنہ بڑی بات ہوگی۔عنوان اپنی پسندکاہے اپنی محدودنظرپرہی اکتفاکیاہے۔ اسیرؔصاحب پربہت سے فاضل ادیبوں،اسکالروں نے اپنی اپنی آتش بیانی اور شخصیتوں کی گرمی سے تواگرم کردیاہے لگے ہاتھوں میں بھی مکّی کی ایک دوروٹیاں اسیرؔ صاحب کے لئے ڈال دوں جی میں قرارآئے گااِس طرح اِن کے پرستاروں کی صف میں بھی کھڑاہوجائوں گا ؎
گرقبول اُفتدزہے عزّوشرف
اسیرؔ صاحب نے چھوٹی عمر سے ہی سنجیدہ فکر اورپُرمغززتحریروں کے ذریعہ ملک کے دانشوروں کواپنی طرف بھی کیااورمتاثربھی ۔عملی زندگی میں بھی ایک کامیاب و کامران انسان رہے ہیں۔ملازمت میں اکونٹ آفیسر(K.A.S) کی حیثیت سے شروعات کی۔ترقی کرتے کرتے بام ِ عروج پر۔ڈائریکٹرجنرل خزانہ محکمہ تک رسائی حاصل کی اورسبکدوش ہوئے۔ یہ بھی ان کاکمال ہے ۔ملازمت کی ذمہ داریوں ،غیرادبی صحبتوں اورمصروفیات،کبھی ایک جگہ تعیناتی کبھی دوسری جگہ ان سب کانتیجہ یہ ہوناچاہیئے تھاوہ صرف ملازمت کے ہوکے رہ جاتے اوراسی کواپناسرمایہ حیات سمجھتے ہوئے اس پرقناعت کرتے لیکن ایسانہیں ہوا۔اُنہوں نے ملازمت کی ذمہ داریوں کوبھی حُسن وخوبی کے ساتھ انجام دیا۔ اپنے فطری ادبی ذوق وشوق کی آبیاری بھی کی وہ کتابوں کے مطالعے سے اپنی ادبی تشنگی بھی بجھاتے رہے اورمضامین ومقالات لکھ کراپنے ذوق خامہ فرسائی کی تسکین بھی کرتے رہے ۔میرے خیال میں انسان کاجتناعہدہ بڑھتاجاتاہے اسی طرح اِس کی فرصت کاوقت بھی گھٹتاجاتاہے۔موصوف جب ڈوڈہ میں (ضلع افسرخزانہ ) تھے اس کے ساتھ ہی ان کو ڈسٹرکٹ فنڈآفس ڈوڈ ہ کااضافی چارج بھی تھا۔دونوں جگہ پراپنے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دئے۔آفیسران بالاان کے کام سے مطمئن تھے ۔ اُسی زمانے میں مصروفیات کے باوجودروزوشب کی انتھک محنت سے دوضخیم کتابیں (۱)تصویرضلع ڈوڈہ (۲) ضلع ڈوڈہ کی ادبی شناخت منظرعام پرآئیں۔توروشن خیال حضرات عش عش ہوکررہ گئے۔ان کی اس کارکردگی پرایک بارمیں نے سوچاکہ میں بھی لکھوں گاکہ اسیرؔصاحب آپ آدمی ہویاکچھ اور۔۔۔۔۔۔یہ کام بہت مشکل تھاجوئے شیر لانے کے برابرتھا۔ ان کتابوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ شخصیت اورفطری قابلیت کاطلسم ہرمشکل کوپارکرسکتاہے۔اسیرؔصاحب دِن کودودفتروں کے درجنوں ماتحتوں سے کام لیتے تھے رات توآرام کے لئے ہوتی ہے لیکن ان کے لئے آرام حرام تھا۔ایساانسان ناممکن کوممکن بناکردکھادیتاہے اُردوزبان اورادب سے اُن کی محبت ،عشق کے درجے تک پہنچی ہوئی ہے ۔لگتاہے کہ لفظوں کے پیچھے ایک آدمی ہے جس کادِل انسانیت کیلئے دھڑکتاہے اورہرلفظ اس کے دِل سے نکل رہاہے ان کی خصوصیت ادبی قدروں پرنظرایک بہت دِل نشین اورمنفرداسلوب بیان ہے جس میں نکتے سے نکتہ پیداکرتے اورایک سنجیدہ ظرافت کے پھول کھلاتے چلے جاتے ہیں ان میں خُدادادسلیقہ ہے کہ خودریسرچ کریں یانہ کریں اوردوسروں کواس کے لئے ضرورتحریک دیتے ہیں۔جمالیاتی ذوق کی آبیاری سے ان کی شخصیت میں شادابی آتی ہے ۔ان کی صلاحیت میں معاملہ فہمی اورمردم شناسی کی خاص شہرت ہے مگرہمارے یہاں مروّت کاراج ہے پھرابھی ہم علاقائی ،لساّنی ،مذہبی تعصبات سے آزادکہاں ہوپائے ہیں جوصرف صلاحیت کودیکھ سکیں لیکن اسیرؔ صاحب کی منفرد شخصیت ہے ان کے پاس یہ خوبی ہے وہ صلاحیت والے کواپنے دِل کے گھر میں پناہ دیتے ہیں ۔ایک بارمجھ سے رازدارانہ طورپرکہاوہ ایک بزرگ کواحترام سے اپنے ہاں رکھتے تھے وہ دوسری ذات سے تھے۔ اس پررشتہ دار،دوست طنزکیاکرتے تھے ۔آپ ایسے لوگوں کوگھرمیں لاتے ہوجوہمارے ہم پایہ نہیں ہیں۔اسیرؔصاحب نے ایک بزرگ بیمارکی تیمارداری کی تھی ۔سرسیداحمدخان کی طرح ذات پات سے بالاترہوکرمیراخیال اسیرؔصاحب کایہ پہلوواقعی لائق ِ ستائش ہے ؎
فروتنی است دلیل رسیدگاں کمال
کہ چوّں سواربہ منزل رسّدپیادہ شود
اسیرؔصاحب شاعرہی نہیں ناقدبھی ہیں ان کی تنقیداکثرصائب ہوتی ہے ۔یہ شہرت اور فضل وکمال اس قدرعلمی وقارہرطرح کی آسودگی نصیب عزت اورآرام کی زندگی میسردفتری صلاحیت میں اپنی آپ مثال تھے وہ بہت اونچے عہدے پر فائز تھے۔میں ان سے ملنے جاتاتھا مجھے ان کی ذات اورشخصیت میں بڑی جاذبیت بلکہ محبوبیت نظرآتی ہے ۔ان کے ساتھ ملاقات دلچسپ اسی طرح فضامیں شروع سے آخرتک علمی پھُلجھڑیاں چھٹتی رہتی ۔اُن کی دلچسپ باتوں نے چائے اوراُس کے لوازم اورزیادہ لذیذبنادیاتھا مگرجب بھی ملناہوااُنھوں نے یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیاوہ کُرسی نشین ہیں اورمیں بوریانشین ہوں ۔اسیرؔ جس مقام پرتعینات رہے وہاں وہ اپنی کارکردگی،فرض شناسی ،ذہانت،علم دوستی اورادب نوازی کانقش چھوڑآئے ۔کالج کے زمانے سے اُن کی سب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے ۔صوم وصلوٰۃ کے پابند،نیکی اوربھلائی کی طرف طبیعت کارجحان تھا۔فطرتاً خیرپسند اورشریف النفس ،صاحب ِ کرداراوراہل ِ دِل اپنی ملازمت اورعہدے سے کسی قسم کاناجائز فائدہ نہیں اُٹھایا۔وضعداری ،مستقل مزاجی ،اصول پسندی اوردین داری کی جیتی جاگتی تصویرزبان وادب اورانشاء کے شیخ المشائخ ،کمزوریوں سے کون انسان خالی ہے مگران میں خوبیاں زیادہ ہیں وہ ہنگامہ پسندنہیں ۔سکون اورآشتی کے چاہنے والے اورخیرپسند ہیں ؎
آفاقہاگردیدہ ام مہربتاں ورزیدہ ام
بسّیارخوباں دیدہ ام اماتوچیزیں دیگری
ولی محمدصاحب اسم بامسمّیٰ ہیں ۔میرامانناہے جس گھڑی ان کے والدین نے نام رکھاہے وہ گھڑی قبولیت ہوتی ولیوں کی اس سرزمین میں اللہ عزوجل نے ایسالعل جوہرتولدکیاجس نے سروس کے دوران ہی جموں وکشمیرکے اولیائے کرام کی ایک ضخیم کتاب کی تدوین،ترتیب ،کڑی محنت ،عرق ریزی سے جوبارہ تیرہ سوصفحات پرمشتمل ہے اتنی بڑی دستاویزی تواریخ موصوف نے دُوردرازدشوارگذارعلاقوں کاپاپیادہ سفرکرکے گُم نام ولیوں کی کھوج کرکے جن کے رُوحانی معجزے لوگوں کے سینہ بہ سینہ یادوں پرمحفوظ تھے اُن کاپتہ لگایااورلوگوں کے سامنے پیش کیاہے ۔اس طرح ہمارے سامنے علم میں اضافہ کیاہے اوردوگناثواب حاصل کیاہے ان سے قبل بھی اس موضوع پرکام ہواہوتالیکن جب کوئی شخص کسی کتاب پراس قدرمحنت کرتاہے وہ ایک معنی میں اسی کی ہوجاتی ہے ۔جیسے کہ اسیرؔصاحب کی کتاب ہے ۔اس کتاب کامطالعہ بڑی دلچسپی سے کیا ۔اب میرے ولی اسیرؔصاحب ہی ہیں وہ ولی ہونے کے علاوہ شاعربھی ہیں اورشاعرکتناہی پارسااورصاحب ِ تقویٰ کیوں نہ ہورنگین مزاج بھی ہوتاہے ۔ ؎ جب کہیں پھول کھلتاہے۔ شاعرکاکلیجہ ہلتاہے۔
کالج میں ہم نے دوسال آخری ساتھ ہی تعلیم حاصل کی تھی میںاُن کابڑا بھائی صاحب تھا۔بقول کرشن چندر(افسانہ ) فارسی اوراُردوکاپرڈ(Period)ایک ساتھ پڑھتے تھے ۔اُس وقت بھی اسیرؔصاحب بڑے ذہین اورفطین تھے ۔کتنی کھٹی اورمیٹھی حسین یادیں ابھی ذہن میں موجودہیں۔ایک مرتبہ کلیم عاجز نے مجھے لکھاتھا۔محبت بوڑھی نہیں ہوتی پیاربوڑھانہیں دِل بوڑھانہیں ہوتا۔میرے عزیزبھائی شہروں میں زندگیاں پیارسے خالی ہوجاتی ہیں ۔شہروں کی مصنوعی آب وہوا پیارکوزندہ رہنے نہیں دیتی ۔پہاڑوں میں،دیہاتوں میں محبت سدّاجوان رہتی ہے ۔اس پیرانہ سالی میں مجھے آپ کے لڑکپن کی دانابیناباتیں آج بھی یادآتی ہیں تواس پرایمان لاناپڑتاہے ؎
بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال
توانگری بہ دل است نہ بہ مال
۲۵ ؍دسمبر ۲۰۱۴ء کی صبح اسیرؔ صاحب کے لئے ایک اندوہ ناک المیہ کاموجب بنی جبکہ ان کادرویش صفت ،جواں سال فرزند محمدعارف ندیم ؔ کچھ عرصہ بیماررہنے کے بعدداغ مفارقت دے گیا۔ہنستاکھیلتا جواں سال لخت ِ جگرنے ہمیشہ کے لئے شادمانی چھین لی ۔دنیاان کی آنکھوں میں اندھیری ہوگئی ۔ان کی وفات کاغم کیاہے۔ناقابل ِ بیان ہے بقولِ جانثاراختر ؎
وہ ندیم ومضطرب وہ ساقی کہاں گم ہوگیا
خلوتوں کی انجمن آرائیاں جاتی رہیں
کچھ عرصے کے بعد میں اُن کے دولت کدہ پرجمّوں تعزیت کے سلسلے میں پہنچااُس وقت وہ بے ریش سے باریش بن چکے تھے۔اُن کومُجھ جیسامعمولی شخص کیاتسکین یاتشفی دے سکتاتھا ان کو خاصانِ خداسے خاص تعلق ہے ۔ولی محمد ہیں میں خوب سمجھتاہوں گومعجزہ کازمانہ نہیں رہالیکن محبت اورخلوص میں اب بھی بڑی کرامتیں پوشیدہ ہیں ۔دوسروں کی وہ کون سی تکلیف ہے جس کومیں یاآپ محبت سے کچھ اورنہیں توتھوڑی دیر کے لئے زائل نہیں کرسکتے ۔بڑی مدت کے بعد دوبچھڑے یارملے تھے ۔اسیرؔصاحب دوسرے مہمانوں سے توجہ ہٹاکرمجھے اپنے سامنے بٹھایا۔پُرنم آنکھوں سے بقول ِ کلیم عاجزؔ ؎
زخموں کے لئے پھول کھلانے کے لئے آ
پھرموسم ِ گل یاددلانے کے لئے آ
بل ابروں پرڈالے بکھیرے ہوئے گیسو
آپھرمجھے دیوانہ بنانے کے لئے آ
اپنے عجیب غُلمان عجیب درویش کی جُدائی کااحوال سُنانے لگا اُن کی کیفیت بقول ِ شاعر ؎
سخن عاجزکاکیوں پیارالگے ہے یہ کوئی دردکامارالگے ہے
ایمان کی قوت اورعقیدے کی مضبوطی ہی صرف ایک چیز ہے جوسخت سے سخت وقت میں آدمی کوسنبھالتی ہے اورسہارادیتی ہے ۔دُکھ کی نوبت انفرادی ہے ۔دوسرے لاکھ ہمدرد ی کریں ۔انسان کواپنادُکھ خودہی سہناپڑتاہے ۔زندگی کے غم بوجھ نہیں جوبانٹ لئے جائیں ۔اسیر ؔ صاحب کے چہرے کے اُتارچڑھائو کوبڑی دیرتک تکتارہا۔اُن کی مغموم حالت مُجھ سے دیکھی نہ گئی بادل ناخواستہ اجازت چاہی ۔بولے آج میرے پاس ٹھہرجائو،جی بھرکرباتیں کریں گے ہمارالڑکپن کُچھ دیرکے لئے مہمان آجائے گا۔میرے بارباراصرار پراپنے چھوٹے فرزندارجمندسے کہا میرے ساتھی کوگجرنگرتک چھوڑآئو۔خودبھی ساتھ ہولیئے۔مجھے اپنے درویش صفت فرزندارجمندمحمدعارف ندیم کی آخری آرام گاہ مرقدسے ہوتے ہوئے گجرنگر پہنچادیا۔ اُس کے بعدفون پرہی ملاقات ہوتی رہی۔ اپریل ۲۰۱۶ء میں جب اسیرؔصاحب نے کتابچہ ’’یادِ ندیم ‘‘شائع کیامجھے بھی ایک کاپی عنایت کی۔اس میں فاضل ادیبوں کے مضامین ہیں ۔اس کے علاوہ عارف ندیم کی کہانی تصویروں کی زبانی بہت دلکش ہے ۔مہدسے لحدتک رنگین تصویروں سے مزئین ہے۔ان سے روزِروشن کی طرح عیاں ہے عارف ندیم عجیب غُلمان ،عجیب درویش تھااُس کے لئے لفظ ملنگ بالکل نہیںجچتاجواسیرؔصاحب نے استعمال کیاہے ۔ یاکسی اورفاضل ادیب نے ۔میرے ذہن میں کانٹے کی طرح چبھتاہے ۔میری دانست میں عارف سرتاپاغُلمان تھا۔ درویش تھا ملنگ ہوتااگران کے والدین کی طرف سے بے توجہی ہوتی پرورش اورپرداخت میں۔ اُنھوں نے ان کی دیکھ بھال ایک شہزادے کی طرح کی تھی۔میں اپنے دِل کی عمیق گہرائی سے ان کی مہروشفقت کودلی مبارکباددیتاہوں ۔آپ نے لوگوں کے لئے ایک مثال قائم کردی۔شفقت مادری پدری کیاہوتی ہے ۔کیسے نبھائی جاتی ہے۔ہرخوشی غمی میں اِس غلمان ۔درویش خُدامست ۔کوہرمحفل میں آگے آگے رکھا۔اسے محسوس نہ ہونے دیاکہ مُجھ میں کوئی کمی ہے بصورت دیگر محسوس ہوتی۔ندیم اپنی ماں کانگہبان وپاسبان ہی نہ تھا بلکہ اپنے رشتہ داروں کی جواں سال لڑکیوں کی رکھوالی بھی کرتاتھا۔ جب ان کے والدین گھرسے باہرہوتے بقول ِ اسیرؔ۔اللہ تعالیٰ نے ان میں بہت اوصاف عنایت کئے تھے جواپنے خاص بندوں کوہی عطاکرتاہے ؎
یہ فیضانِ نظرتھایاکہ مکتب کی کرامت تھی سِکھائے کس نے اسماعیل کوآدابِ فرزندی
اسیرؔ صاحب کاقلم احساس ِمسرّت ہوکہ اندوہ وغم ہرمیدان میں رواں دواں نظرآتاہے۔ان کی زبان پختہ ہونے کے ساتھ دلکش اورشیریں بھی ہے ۔ان کایہ شعرمُجھے (Haunt) کرتاہے ۔
ساری خوشیاں ہی ہوگئیں معدوم کاش اسیرؔمرگیاہوتا۔
ندیم کے داداجان کامرثیہ بھی بڑادردانگیز ،بردل خیزدبردل ریزدکی عکاسی کرتاہے۔
لکھئیے مرثیہ چانُی ء جانانہ لولو
زُلف ِنازس کری کمی شانہ ٔ لولو
کلیم عاجزؔ کاایک شعراس سے ملتاجلتاہے۔
بل آبروں پرڈالے بکھیرے ہوئے گیسّو
آپھرمجھے دیوانہ بنانے کے لئے آ
کتنی صحیح عکاسی کی ہے ؎
مول چھئے ونان اُچھن ہندگاش رووم ماج چھئے ونان کوٹھن ہندگاش روئوم
دوشوے چھ دیدہ گریانہ لولو زُلف نازس کری کمی شانہ لولو
میرے خیال میں دیدۂ گریاں ہی حقیقت میں دیدۂ انساں ہے وہ کسی پتھرکے تراشے ہوئے بُت کی آنکھ سے بھی بدترہے جوکبھی آنسوئوں سے لبریز نہ ہوئی ہوایساشعر اسیرؔ نے یااِن کے والد مکرم کی زباں سے نکلاہے قابل ِ تحسین ہے ان دونوں کوکشمیری زبان پر عبورحاصل ہے۔عارف ندیم کی جُدائی نے اسیرؔ کے خیالات ،جذبات میں ایک تہلکہ خیزانقلاب برپاکردیاوہ حقیقی معنوں میں ولی بن گئے ؎
جہانبانی سے ہے دشوارترکارِجہاں بینی
جگرخوں ہوتو،چشمِ دِل میں ہوتی ہے نظرپیدا
اسیرؔصاحب بیک وقت شاعر،ادیب،مورخ اورنقاد ہیں۔ ان کی تحریروں نے اُردوادب میں اضافہ کیاہے اوراس قافلے کوآگے بڑھایاہے ۔دُنیامیں بڑے آدمی اکثر گذرے ہیں لیکن ان میں بہت کم ایسے نکلیں گے جن میں اتنی حیرت انگیزلیاقتیں اور اوصاف جمع ہوں ۔اسیرؔصاحب صاحب ِ علم وفضل ہوتے ہوئے انتہادرجے کاانکسارپایاہے ۔ان کی نظرمیں فن کی قدریں اورانسان کی قدریں یکساں ۔بغیرمذہب وملت ہرفرد ِبشرسے ایک جیسابرتائوروارکھاہے ۔ان کے کلام سے بھائی چارہ ،حُب الوطنی کی انسان دوستی کی صداسنائی دیتی ہے ؎
تسخیرایں دوعالم تفسیرایں دوحرف است
بادوستاں قلطف بادشمناں مدارا
اسیرؔصاحب میں ایک غیرمعمولی صفت یہ بھی ہے کہ وہ جس موضوع پرجوکچھ لکھنایاکہناچاہتے ہیں اس کے لئے تمام ضروری معلومات فراہم کرنے کی انتہائی کوشش کرتے ہیں جومستندکام کرنے والوں کاامتیاز ہے وہ بڑے مخلص ہمدرد ،ذہین ،دلیرعالی حوصلہ ،دوراندیش ان تھک اور ناقابل تسخیرہے ۔میری نظرمیں اسیرؔصاحب تاریخ کے تنہاشخص ہیں جوانتہائی حدتک کامیاب رہے ۔مذہبی سطح پربھی اوردینوی سطح پربھی ۔میری دُعاہے اللہ تعالیٰ ان کی صحت اورصلاحیت میں روزافزوں ترقی دے ۔اُردوزبان اورادب سے اُن کی محبت عشق کے درجے تک پہنچی ہوئی ہے۔بہت کچھ کہہ چکے لکھ چکے ہیں کماحقہ بڑے اعزازات سے بھی سرفرازکیاگیاہے ۔اس بے قدری کے زمانے میں جب کہ ادبی ذوق رکھنے والے عنقا ہیں انشاء اللہ آپ کی محنت ضروررنگ لائے گی آپ کے اثاثے کواُردوادب کے خیرخواہ کاسرآنکھوں پرقبول کریں گے بقول ِ سرورؔ ؎
لہوکی چندبوندیں میں نے بکھرائی ہیں راہوں میں
نہ جانے کس شگوفے کوبہاروں کاسلام آئے (سرورؔ)