عاقل حسین، مدھوبنی (بہار)
موبائل. 9709180100
میل. [email protected]
ہندوستانی جمہوریت کو بچانے کے لئے جس سرزمین سے جئے پرکاش نارائن نے 5؍ جون 1974؍ کو بہار کی راجدھانی پٹنہ کے گاندھی میدان میں غیررسمی طور سے ’سمپورن کرانتی‘ کا اعلان کیا تھا. آج اسی سرزمین پر ان کے سینانی کی حکومت میں جمہوریت پر حملہ کیا جارہا ہے۔ ویسے ملک میں سال 2014؍ سے ہی مرکز کی این ڈی اے حکومت من مانے طریقے سے فیصلہ لیتی آرہی ہے اور جمہوریت کے ڈھانچے پر حملہ جاری ہے۔ اسی طرح بہار میں سال2020؍ کے نومبر میں پھر سے آئی نتیش کمار کی قیادت والی این ڈی اے حکومت بھی من مانے فیصلے لینے لگی ہے۔ حکومت کا وہ فیصلہ جمہوریت میں عام لوگوں کی آزادی پر حملہ قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد چہار جانب جے پی سینانی بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار پر تنقید کا دو رجاری ہے اور یہ لازمی بھی ہے۔ جس جمہوریت کو بچانے کے لئے جے پی سینانی نے سال 1974؍ میں پولسیا لاٹھی کھائی اور جیل میں بند کئے گئے آج انہی کی ریاست میں جمہوریت پر حملے شروع ہوگئے ہیں۔ نتیش حکومت کے ای او یو کے آئی جی پی نیرحسنین خان نے حکومت کے سکریٹریز کو لکھے مکتوب میں کہاہے کہ کچھ لوگ اور تنظیمیں لگاتار وزراء، ایم پی، ایم ایل اےاور سرکاری افسران کے خلاف سوشل میڈیا پر توہین آمیز اور افواہوں پر مبنی تبصرے کرتے ہیںجو قانون کے خلاف ہے اور سائبر جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے خلاف کارروائی کرنا ضروری لگتا ہے۔ ایسے واقعات سامنے آنے پر ای او یو کو مطلع کریں۔ ’سوشاشن بابو‘ کے نام سے معروف نتیش حکومت میں کچھ مہینے سے جرائم واقعات میں بے تحاشہ اضاف ہوا ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر نتیش حکومت کے خلاف لوگ جمہوریت میں ملے اختیارات کے بدولت اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔ بہار میں بڑھتے جرائم اور بدعنوانی کے خلاف سوشل میڈیا پر لوگوں کی مخالفت دیکھتے ہوئے بہار حکومت کے ای او یو نے مکتوب جاری کر جمہوری نظام میں ’فرد کی آزادی‘ پر ہی حملہ کردیا ہے۔ لوگوں کے مسائل کو حکومت تک پہنچانے کا ذریعہ جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا تھا لیکن سال 2014؍ کے بعد سے زیادہ تر میڈیا ہائوس سرکاری ترجمان بن کر کام کرنے لگا۔ اس کا اثر اب بہار میں بھی دیکھا جانے لگا ہے۔ لوگوں کو اپنی بات رکھنے کی آزادی سوشل میڈیا سے ملتی تھی مگر اب اس پر بھی حکومت نے ہٹلرشاہی فرمان جاری کردیا ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ موجودہ بہار حکومت کے مکھیا نتیش کمار کے گرو ’جے پی‘ نے سماجی انصاف اور نسل پرستی سے پاک سماج کے لئے تحریک کی شروعات کی تھی۔ لیکن اندرا حکومت میں جمہوریت کا گلا گھٹتے دیکھ جے پی نے جمہوریت کوبچانے کے لئے 1974؍ میں نئی تحریک کے آغاز کا اعلان کیا اور جے پی کے ایک اعلان پر ان کے چیلے تحریک میں کود پڑے تھے۔ لیکن آج ان کے چیلے کی آنکھ پر اقتدار کا ایسا نشہ چڑھ گیا ہے کہ ان کے سامنے لگاتار جمہوری نظام پر حملے ہورہے ہیں مگر وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انہیں ڈر ستارہا ہے کہ اگر کچھ بول دیںگے تو کہیں اقتدار سے بے دخل نہ ہوجائیں۔ آزادی کے سنہرے دور کے بعد جس عظیم لیڈرکو ملک نے لوک نائک کی شکل میں قبول کیا اس جئے پرکاش نارائن یعنی جے پی کے بغیر آزاد بھارت کا کوئی بھی سیاسی چرچہ مکمل نہیں ہوتا۔ موجودہ سیاسی دور میں قیادت کرنے والی پوری پیڑھی جے پی کے چھتری سے نکل کر ہی اس مقام تک پہنچی ہے جو آج حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے کردار میں ہے۔ لوگ جے پی کی عظیم شخصیت کو کس طرح یاد رکھنا چاہیں گے؟ اس کے تعین کی ذمہ داری در حقیقت ان کے سیاسی شاگردوں کی تھی۔ جے پی کے موازنہ ان کے ورثاء کی خدمات سے کیا جائے تو جے پی کے نظریات کا حشر شدید مایوسی کا احساس کراتا ہے۔ جس سماجی، سیاسی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی انقلاب کے لئے جے پی علم بلند کیا تھا وہ آج بھارت میں کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ تاناشاہی اور آمریت کے خلاف جے پی نے تحریک کا علم بلند کیا تھا‘ اپنی بیٹی کے مثل اندرا گاندھی کے ساتھ ان کے اختلافات اصل میں نظریاتی تھے۔ اصل میں جے پی یہ مانتے تھے کہ ملک کے عوام کو حکمرانوں کی جانب سے دھوکہ دیا جارہا ہے۔ آزادی کے لئے مہاتما گاندھی اور دیگر قائدین نے جس مقصد کے ساتھ جدوجہد کی، اندرا اور کانگریس نے اسے محض اقتدار تک محدود کردیا۔ دراصل گاندھی موجودہ کانگریس کو سیوا سنگھ میں تبدیل کرنے کی بات کررہے تھے۔ نہرو اور اندرا نے انہیں کنبے کا صفر سوچ کا پیادہ بنادیا۔ سمپورن کرانتی بھارت کی اسی نو تعمیرکے لئے وقف ایک عوامی تحریک تھی جس میں گاندھی کے خوابوں کو زمین پر لانے کا عزم بھی تھا۔ آج لالو یادو، نتیش کمار، شرد یادو، حکم دیو یادو، سوشیل مودی ، روی شنکر پرساد، ملائم سنگھ، وجئے گوئل، ریوتی رمن سنگھ، کے سی تیاگی سے لے کر شمال اور مغربی ہندوستان کی تمام ریاستوں میں جے پی موومنٹ کے قائدین کی ساٹھ پلس پیڑھی سرگرم ہیں۔ ان میں سے بیشتر مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا ہی جانا چاہئے کہ جس نو تعمیر کے لئے جے پی جیسی شخصیت نے کانگریس میں اپنی اثردار حیثیت کو چھوڑ کر سماجواد اور گاندھی واد کا راستہ منتخب کیا، اس جے پی کے پیروکاروں نے ملک کی تعمیر نو میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ نتیش کمار، لالو یادو اور ملائم سنگھ کی حیثیت سے جے پی کے شاگرد صرف اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سیاسی انقلاب برپا تو ہوا لیکن صرف وزیر اعلی اور دیگر وزراء کے عہدوں تک کے لئے۔ جے پی اور لوہیا کا نعرہ لگاکر یوپی، بہار، اڈیشہ، گجرات، کرناٹک جیسی ریاستوں کے وزیر اعلیٰ بنے نیتائوں نے ہندوستان کے اندر اس نظام کو تبدیل کرنے کے لئے کیا کیا ہے! جس کے لئے جے پی نے ’سمپورن کرانتی‘ کا تصور اپنی قربانیوں سے پیش کیاتھا۔ بہار اور اترپردیش جیسی ملک کی سب سے بڑی ریاستوں میں، جے پی تحریک کے ورثاء طویل عرصے سے برسر اقتدار ہیں۔ تیجسوی، اکھلیش، چراغ جیسے چہروں کو غور سے دیکھیں اور جے پی تحریک کے اس نعرے کو یاد کریں جو سنجے اور اندرا گاندھی کو لے کر ملک بھر میں سمپورن کرانتی کے علم بردار گنگناتے تھے۔ آج جے پی کی نیک نامی کے ساتھ ان کی وراثت کا ازسرنو جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں جے پی کو ایک عظیم مفکر اور اقتدار سے اصولوں کی جنگ لڑنے والے مجاہد کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بہار میں ایک بار پھر ملک کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام پر حملے ہورہے ہیں اور جے پی کے شاگرد کیوں خاموش بنے ہیں؟ یعنی اقتدار کی لالچ نے جے پی کے شاگردوں کو جمہوریت پر ہورہے مستقل حملے کو روکنے کے بجائے خاموش تماشائی بنادیا ہے۔