نجمہ منصور : سرگودھا ،پاکستان
بھارت اپنی قدیم تہذیبی و سماجی اور ادبی روایات کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتا ہے تاہم مرزا اسد اللہ خان غالب کی وجہ سے اُسے جو
شہرتِ دوام حاصل ہوئی ہے وہ سب سے زیادہ ہے ۔ مرزا اسد اللہ خان غالب بھارت میں پیدا ہوئے اور وہاں آسودہ خاک ہیں ۔ ان کے اردو اور فارسی کلام کا ایک زمانہ معترف ہے ۔ عبدالرحمن بجنوری جیسے نقاد کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے پاس دو الہامی کتابیں ہیں ’’دیوان غالب ‘‘اور دوسرا ’’مقدس وید ‘‘ اتنا بڑا اعزاز غالب کوحاصل ہوا ۔ غالب شناسی میں طباطبائی سے لے کر آج کے زمانے تک کئی نامور ناقدین نے اپنے اپنے طور پر غالب کی شرحیں لکھیں اور غالب کے شعروں کے نئے سے نئے معانی دریافت کرنے کی سعی کی ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
بھارت کے ادبی افق پر چمکنے والے شمس نے ادبی ایوانوں کو منور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا ۔ یہ شمس اپنی تخلیقی کرنوں کو بکھیرتے ہوئے ایسا قیمتی خزانہ دے گیا ہے کہ بھارت ہمیشہ اس پر فخر کرتا رہے گا ۔اس شمس کا نام شمس الرحمن فاروقی ہے جو۱۹۳۵ ء کو طلوع ہوا اور ۲۵دسمبر ۲۰۲۰ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ۔ شمس الرحمن فاروقی بہت وسیع مطالعہ رکھنے والے نقاد ، شاعر ، ناول نگار ، غالب شناس ، میر شناس ، افسانہ نگار ، مدیر اور دانش ور کی حیثیت سے معروف ہوئے ۔ انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ادب کے میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ جنھیں کبھی فراموش نہیںکیا جا سکتا ۔ ان کے تخلیقی سرمایہ میں ’’تفہیم غالب ‘‘ ، ’’شر شور انگیز‘‘ ، ’’ تنقید ی افکار ‘‘‘،’’ اثبات نفی ‘‘ ،’’ غالب پر چار تحریریں ‘‘ ،’’ اردو غزل کے اہم موڑ ‘‘ ، ’’ عروض و آہنگ اور بیان ‘‘، جدیدیت کل او رآج ‘‘ ، ’’درس بلاغت ‘ ‘،’’ اردو کا ابتدائی زمانہ ‘‘، ’’ آب حیات ‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ۔شمس الرحمن فاروقی نے شاعری میں بھی اپنا ایک منفرد مقام و مرتبہ بنایا ۔’’ گنج سوختہ ‘‘ ،’’سبز اندر سبز ‘‘ اور ’’ آسمان محراب ‘‘ فکشن کے حوالے سے دیکھا جائے تو ’’ افسانے کی حمایت میں ‘‘ ،’’ سوار اور دوسرے افسانے ‘‘ ، ’’ اور ’’ کئی چاند تھے سر آسماں ‘‘ ( ناول ) شامل ہیں ۔ ان کے ناول ’’ کئی چاند تھے سر آسماں ‘‘ نے ان کی شہرت کو چار چاند لگائے ہیں ۔
فاروقی صاحب نے ’’تفہیم غالب ‘‘اور ’’ شعر شور انگیز ‘‘ میں غالب ؔ او ر میرؔ کی شاعری کی تفہیم و تشریح ایک بالکل نئے اندا زمیں کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ ان کی شرح نے ناقدین کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ پہلے سے لکھی ہوئی شرحوں کو دوبارہ فاروقی صاحب کی تنقید کی روشنی میں دیکھیں ۔ ’’ تفہیم غالب ‘‘ سے پہلے غالب کے کلام پر متعدد شرحیں لکھی جا چکی تھیں ۔شمس الرحمن فاروقی نے پہلے سے لکھی ہوئی شرحوں کو پڑھ کر ان سے مرعوب ہونے کے بجائے اپناایک الگ نقطہ نظر قائم کیا اور غالب شناسی میں ایک ایسا انقلاب برپا کردیا ہے کہ پہلے سے لکھی ہوئی تمام شرحیں بہت کمزور اور تشنہ دکھائی دینے لگیں ۔ شمس الرحمن فاروقی شعر فہمی میں کمال رکھتے ہیں انھوں نے غالب کے شعروں کو جس طرح کھولاہے وہ ناقدین کو متحیر کر دینے والا ہے ۔ وہ شعر کو جدید ادبی تھیوریز کے مطابق کھولنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے سے موجود تفہیم اور شرح میں تشنگی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ وہ شاعر بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جنھیں کوئی اچھا نقادمیسر آجاتا ہے ۔ مرزا غالب اس حوالے سے بڑے ہی خوش قسمت ہیں کہ انھیں شمس الرحمن فاروقی ایسا نقاد میسر آیا ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون ’’مطالعات غالب ‘‘ میں جو ’’اوراق ‘‘ میں شائع ہوا سبک ہندی او رپیروی مغرب پر سیر حاصل بحث کی ہے یہ مضمون ’’اوراق ‘‘ کے شمارہ جنوری / فروری ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا ۔اس میں بھی شمس الرحمن فاروقی نے تفہیم غالب کو نئے انداز میں پرکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔
محمد منصور عالم لکھتے ہیں:
’’فاروقی نے ’’تفہیم غالب ‘‘ ( کتاب ) میں ایک خوبی یہ تو پیدا کی کہ کالی داس گپتا رضا کے دیوان غالب
( کامل) سے استفادہ کر کے اپنی تفہیم کے ہر شعر کا زمانہ تحریر نقل کر دیا ہے ۔‘‘(۱)
’’تفہیم غالب ‘‘ میں مرزا غالب کے ۱۵۰ شعروں پر جوتفہیم و شرح لکھی ہے ۔یہ تفہیم دراصل شمس الرحمن فاروقی گاہے گاہے اپنے عہد ساز ادبی جریدے ’’شب خون ‘‘ کے لیے لکھتے رہے،بعد ازاں ان میں ترمیم و اضافہ کر کے انھیں کتابی صورت میں پیش کر دیا ۔شمس الرحمن فاروقی نے ہر شعر جس پر قلم اٹھایا ہے اس کا زمانۂ تخلیق بھی درج کیا ہے تاکہ بحث کرتے وقت قاری کسی قسم کی الجھن کا شکار نہ ہو ۔ شمس الرحمن فاروقی مشرقی تنقید کے علاوہ مغربی تنقید کے اصولوں کو بھی بخوبی سمجھتے تھے، اسی لیے انھوںنے جب غالب کے شعروں کی تشریح و تفہیم کا آغاز کیا تو انھوں نے مشرقی و مغربی دونوں تنقیدی دبستانوں کو مد نظر رکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تشریح و تفہیم کو سر آنکھوں پر رکھا گیا ۔ شمس الرحمن فاروقی کی مذکورہ کتاب کے بارے میںمظفر علی سید لکھتے ہیں :
’’ فاروقی کی تنقیدی فکر کی تعمیر میں امریکی نئی تنقید ساختیاتی لسانیات اور ہمارے زمانے میں تجدید شدہ کلاسیکی بعدیعیات ( ریطور یقا) کے عناصر شامل ہیں ۔ اس طرح یہ کتاب قدیم و جدید شعر یات کی روشنی میں غالب کے منتخب اشعار کی شرح کے طور پر سامنے آئی ہے حالانکہ فاروقی نے کم از کم بیش پیش رو شارحین غالب سے رجوع کیا ہے پھر بھی ان کی شرح ان سب سے قطعی مختلف ہے ۔ غالب کے یہاں مستعمل غیر واضح اور مبہم فقروں کی توضیح کے لیے فاروقی نے معیاری لغات او رشاعرانہ اطہار و بیان کی فرہنگوں سے مدد لی ہے ۔ اس تجربے نے فاروقی کے کارنامے کو نئی تنقید کے ان عام نقادوں کی کار گزاریوں کے مقابلے میں زیادہ جامع بنادیا ہے جو ادبی متن کومحض لاشخصی اور خود مختار سمجھتے ہیں او راسی روشنی میں اس کا تجزیہ کرتے ہیں ۔‘‘ (۲)
شمس الرحمن فاروقی نے غالب کے شعروں کی جس طرح تفہیم کی ہے وہ قاری کے لیے بہت حیران کن ہے کہ وہ ایک اک لفظ کے بارے میں کئی کئی دلائل و حوالہ جات لے کر آجاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اس لفظ کو فلاںشاعر نے اس معنی میں برتا ہے، اور غالب نے اس لفظ کو یہاں کسی او رمعنی میں لے کر آئے ہیں ۔ اسی طرح طباطبائی اور دیگر ناقدین کی شرحوں کو بھی ہدف ِتنقید بنایا ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی نے دوسرے ناقدین کی طرح آنکھیں بند کر کے طباطبائی اور دیگر کی شرحوں کو قبول نہیں کیا بلکہ اگر ان میں کوئی خامی دکھائی دی ہے تو وہ اس کو چھپانے کے بجائے اس پر تنقید کے نشتر بھی چلائے ہیں ، اور صرف تنقید ہی نہیں کی بلکہ اس کی اصلاح بھی کرتے چلے گئے ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر غالب کے کسی شعر میں کوئی خامی یا خیال کسی استاد شاعر سے ملتا جلتا نظر آیا ہے تو شمس الرحمن فاروقی نے غالب کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہوئے ان کے مذکورہ شعر کے سامنے قدیم اردو اور فارسی کے متعدد شعر لا رکھتے ہیں کہ یہ وہ شعر ہیں جن کو پڑھ کے غالب نے اپنے اس شعر کی عمارت کی اساس اٹھائی ہے ۔لیکن غالب نے اسے پہلے شعرا کے مقابلے میں بہتر انداز میں پیش کیا ہے ۔ ایک مثال پیش خدمت ہے :
’’آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
(زمانۂ تحریر : ۱۸۵۱ئ)
اڑتی خبر کا مضمون ذوق ؔ نے بھی خوب باندھا ہے ۔
قفس کے لے اڑیں اس پر اسیر مضطرب تیرے
خبر گل کی سنیں اڑتی سی گر باد بہاری سے ‘‘ (۳)
شمس الرحمن فاروقی ایک وسیع المطالعہ نقاد تھے ان کی نظر اردو ، فارسی ، عربی اور انگریزی ادبیات پر بہت گہری تھی یہی وجہ ہے کہ وہ جب شعر فہمی لکھتے ہیں تو انہیں اردو ، فارسی کے ہزاروں شعر سامنے رکھنے پڑتے ہیں ۔ غالب کے مذکورہ بالا شعر میںصرف ایک لفظ ’’اڑتی سی ‘‘ کو لے کر انھوں نے ابراہیم ذوق کے شعر کو ڈھونڈ کر بطور مثال پیش کر تے ہیں ۔ صرف اور صرف ایک لفظ ’’اڑتی سی ‘‘ کو بنیاد بنا کر جو تشریح و توضیح کرتے ہیں وہ ان کے حافظے اور ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔’’تفہیم غالب ‘‘ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ وہ چونکہ ایک ماہر لسانیات بھی ہیں اس لیے لفظ کے زیر و بم سے کھیلنا اور لفظوں کی نشست و برخاست کے حوالے سے بحث کرنا ان کا ایک پسندیدہ مشغلہ رہا ہے ۔ اس سلسلے میں ایک او رمثال پیش خدمت ہے :
’’ خو نے تری افسردہ کیا وحشت دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے
(زمانۂ تحریر : ۱۸۱۶ ئ)
طباطبائی کو لفظ ’’ وحشت ‘‘ پر اعتراض ہے کہ یہاں ’’ خواہش ‘‘ کا محل تھا ، نہ کہ ’’ وحشت ‘‘ کا ۔ با ت دل کو لگتی ہوئی ہے ۔ شاداں بلگرامی نے اپنے قلمی حاشیے میں ’’ وحشت دل ‘‘ کی جگہ ’’ جوش جنوں ‘‘ او ر’’ جذبہ دل ‘‘ تجویز کیا ہے ۔ میر اخیال ہے کہ لفظ ’’ وحشت ‘‘ کے معنی پر غور کیا جائے تو طبا طبائی کا اعتراض اتنا باوزن نہیں ثابت ہوتا جتنا وہ بظاہر لگتا ہے ۔ ’’وحشت ‘‘ صفت ہے ’’ دیوانگی ‘‘ کی او ر’’دیوانگی ‘‘ تفاعل ہے عشق کا ۔ لہٰذا ’’وحشت دل ‘‘ کے وہی معنی ہیں جو ’’جذبہ دل ‘‘ یا ’’ جوش جنوں ‘‘ کے ہیں ۔ ’’ خواہش دل ‘‘ کے مقابلے میں ’’وحشت دل ‘‘ زیادہ پُرزور ہے ۔ سہا مجددی نے خوب کہا ہے کہ ’’وحشت دل سے دیوانہ پن کی امنگ مراد ہے …… اور سچ ہے معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے ‘‘۔(۴)
خیال کے علاوہ انھوںنے شعروں کی لفظیات کو بھی ساختیات کے حوالے سے پرکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ وہ غالب کی
لفظیات کو نہایت جزئیات نگاری کے ساتھ دیکھتے ہیں اور پھر اردو اور فارسی ادب کو کھنگالتے چلے جاتے ہیں اگر کسی کلاسیک شاعر کے ہاں وہ لفظ پہلے برتا گیا ہے تو اس کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ فلاں شاعر نے یہ لفظ جن معنوں میں لیا ہے غالب نے جب اس لفظ کو اپنے شعروں میں برتا تو اس کے معانی میں بہت زیادہ فرق موجود ہے یا پھر غالب نے اگر انھی معنوں میں لیا ہے تو غالب نے اس سے بہتر باندھنے کی کوشش کی ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی چونکہ ماہر لسانیات بھی ہیں اور ساختیات پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اس شرح کو لفظوں اور اس کے معانی کے حوالے سے بھی دیکھتے رہے ہیں ۔شمس الرحمن فاروقی نے ’’تفہیم غالب ‘‘ لکھتے ہوئے تقریبا ً بیس پیش رو ناقدین کی شرحوں کو بھی سامنے رکھا ۔ شمس الرحمن فاروقی کے بارے میںسید محمد ابو الخیر کشفی لکھتے ہیں :
’’ ادب کے بنیادی مباحث سے الجھنا تنقید کا ایک منصب اور فریضہ ہے ۔ فاروقی نے یہ کام بھی سرانجام دیا ہے مگر ان کی شعرفہمی او رشعر کے متن سے دلچسپی کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں ۔ آج کے بیشتر نقاد شعر وا دب پر گفتگو کی لال ہری جھنڈیوں کی نمائش تو خوب کرتے ہیں لیکن ان سے کسی شعر کے معانی ، اس کے مختلف پہلوؤں او رتہوں کی بات کی جائے تو جواب میں خاموشی ہوگی یا ماتھے پر پسینہ نظر آئے گا ۔ فاروقی اس منزل سے بامراد گزرے ہیں ۔‘‘ (۵)
شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’’ تفہیم غالب ‘‘ غالب شناسی میں ایک اہم پیش رفت ہے ۔ انھوںنے غالب کے کلام کو عصر حاضر کے مطابق پرکھنے کی کوشش کی ہے پہلے سے لکھی ہوئی تمام شرحوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید ادبی تھیوریز کے مطابق شرح غالب لکھ کر شمس الرحمن فاروقی نے کمال کر دیا ہے ۔ غالب کو پڑھنے والوں کو چاہیے کہ وہ مذکورہ کتاب کا مطالعہ کریں اور غالب کو نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔غالب دو سو سال سے اسی غالب ہیں کہ ان کے شعر عصری تقاضوں کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں ۔ ایسے میں جدید نقاد کا میسر آنا بھیغالب شناسی میں ایک اہم سنگ میل ہے ۔
٭٭