شیخ ریحان احمد
یہ احمد کا دوسرا سال تھا جب وہ یونیورسٹی میں داخلے کے لئے مسلسل پڑھ رہا تھا – احمد کا خواب تھا کہ وہ یونیورسٹی میں پڑھے-وہ دو سال یونیورسٹی میں لگا چکا ہے اس نے ایم اے صوبائی یونیورسٹی سے کی-اس نے بچپن میں سنا تھا یونیورسٹی میں پڑھنے والے ہمیشہ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں-دن رات پڑھائی میں ایک کرنے والے احمد نے یونیورسٹی میں داخلہ لینا اپنا مقصد بنالیا تھا ایم اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے عثمان نگر میں ہی کمرہ رکھا اور ڈاکٹری کے لئے چار مختلف یونیورسٹیوں میں عرضیاں دے دیں- لیکن چاروں یونیورسٹیوں کے تحریری امتحانات میں کامیاب ہونے کے باوجود وائوہ میں اچھے نمبرات حاصل نہ کرنے کی وجہ سے احمد کو کہیں بھی داخلہ نہ ملا- اس نے اس سال پچھلے سال کے مقابلے میں اور بہتر تیاری شروع کردی وہ پر امید تھا کہ اس سال اس کا پی ایچ ڈی کے لیے کسی نہ کسی یونیورسٹی میں داخلہ ضرورہو جائے گا
احمد غریب ہونے کی وجہ سے اپنے ہم جماعت دوستوں سے بھی بہت کم ملتا تھا وہ دو سالوں میں کبھی بھی سنیما ہال نہیں گیا تھا اس نے ان دو سالوں میں کبھی کسی ریستوران میں کھانا بھی نہیں کھایا تھا اور وہ ان سب میں شوق بھی نہیں رکھتا تھا پھر گھر کی حالت ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے تھی-
عثمان نگر مسجد میں عصر کی نماز کے بعد احمد کی ملاقات عمر سے ہوئی- عمر اسلامیک یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رہا ہے اس نے احمد کو بتایا کہ آج کل یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لیے قابلیت کے ساتھ ساتھ پیسوں اور سفارش کی ضرورت بھی پڑتی ہے- احمد نے یہ سنا تو اس کا خیال یقین میں بدل گیا کہ اسی وجہ سے اس کا پچھلے سال کسی یونیورسٹی میں داخلہ نہ ہو سکا- احمد نے عمر سے کرید کرید کر یونیورسٹی میں داخلہ کے متعلق باتیں پوچھیں عمر سنجیدگی سے ہر ایک سوال کا جواب دیتا رہا-
” میں نے کسی بھی حال میں پی ایچ ڈی کرنی ہے ”
احمد نے عمر سے پر امید ہو کر کہا –
” خدا کرے تمہارا یہ خواب پورا ہو ”
عمر نیسنجیدگی سے جواب دیا
شام کی نماز کے بعد احمد گھر آیا تو وہ کچھ نہ پڑھ سکا یہاں تک کہ وہ رات کے بارہ بجے تک سوچتا رہا مختلف پروگرام بناتا رہا اور رات کو کھانا بھی نہ کھا سکا – اس کو ایسے لگا جیسے وہ کسی جیل میں قید کردیا گیا ہے بار بار اس نے اس خیال کے رفع کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہاتھ لگی اس نے موبائل میں موجود نمبروں کو دیکھنا شروع کیا-تاکہ کسی دوست سے مشورہ لے سکے اس کا دوست سراج الدین پونے یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا اس نے اس کو کال لگا دی
احمد” ہیلو اسلام علیکم”
سراج” وعلیکم السلام جی احمد کیسے ہیں” –
ٹھیک ہوں بھائی ایک مشورہ کے سلسلے میں فون کیا ہے –
سراج "جی جی بولیں”
احمد” کیا مجھے بغیر کسی سفارش اور رشوت کے یونیورسٹی میں داخلہ مل سکتا ہے”
سراج” مشکل سے تیس فیصد داخلے دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے بغیر ہوتے ہیں احمد آپ محنت کریں شاید مل جائے”
کچھ اور سوالات پوچھنے کے بعد احمد نے سراج کو الوداع کہا- احمد آج بہت پریشان ہوا تھا اس نے گھر فون کیا اور بتایا کہ وہ گھر آ رہا ہے کیونکہ اس کے دو یونیورسٹیوں کے نتائج آ چکے ہیں جہاں وہ کامیاب نہیں ہوا اب صرف جے- ایم- سی یونیورسٹی کا وائوہ بچا ہے وہ گھر سے جا کر دیا جا سکتا ہے- والدین تذبذب کا شکار تو ہوئے لیکن ماں نے بھی شوہر کی ابتر حالت کے باوجود احمد کو عثمان نگر میں جے-ایم-سی یونیورسٹی کا وائوہ ہونے تک رہنے کی ہدایت کی لیکن احمد نے کہا کہ ایک مہینے کا کرایہ فالتو کا پڑ جائے گا-25 تاریخ کو جے-ایم-سی یونیورسٹی کا وائوہ ہے اور انیس تاریخ کو کمرہ کا کرایہ دینا ہوتا ہے احمد کے کچھ اور سمجھانے سے ماں مان گئی. الغرض احمد ماں کو داؤ دینے میں کامیاب ہو چکا تھا- احمد نے اسی دن اپنا سازو سامان درست کیا اور دوسرے ہی دن گھر روانہ ہوا احمد کے والد کی طبیعت پچھلے تین مہینوں سے ناسازگار چل رہی تھی انہیں اچانک بی پی ہائی ہو جاتا تھا – بی پی ہائی ہونے کی وجہ سے سے ان کی آنکھیں اس قدر سرخ ہو جاتی تھی کہ یوں معلوم ہوتا جیسے شیر اپنے شکار کو دبوچنے ہی والا ہے- گھرمیں اتنیپیسینہیں تھیکہ کسی بڑے اسپتال کا رخ کرتے البتہ حکیم منظور حسین کے پاس جاتے اور وقتاً فوقتاً معجون اورعرق لے لیتے جس سے کچھ افاقہ بھی ہو جاتاتھا-
احمد گھر آ رہا تھا نوری احمد کا انتظار کر رہی تھی کیوں نہ کرتی بھائی جو چھ مہینے کے بعد گھر آ رہا تھا ولی محمد کی پانچ اولادیں ہوئیں تھیں جن میں سے صرف احمداور نوری ہی زندہ بچے تھے باقی بچپن میں ہی خدا کو پیارے ہوگئے- نوری احمد سے دو سال چھوٹی تھی اور اس کی شادی پٹواری سرخرو سے ہونا طیپائی تھی-
نوری سے بھائی کی ملاقات ہوئی تو کچھ سمجھ نہ آیا بھائی اتنا مجبور کیوں ہے ہم نے تو اس سے عیش و عشرت میں رکھا گھر میں جو کچھ ہوتا رہا اس کی خبر تک نہ کی تاکہ احمد بغیر کسی تناو کے پڑھ سکے – نوری احمد کا سامان لانے عیدگاہ والے پل پر چلی گئی تھی-سلام و دعا کے بعد دونوں بہن بھائیوں نے دکان سے فریش جوس کا ایک ایک گلاس لیا اور گھر کو روانہ ہوئے- نوری نے نہ جانے کتنی بار احمد سے اس کی مایوسی پوچھنی چاہی لیکن ہر بار کچھ سوچ کر رک جاتی – گھر کے حا لات سے پریشان تو نوری بھی تھی-آخراحمد نے پوچھ ہی لیا نوری آپ اتنی پریشان کیوں ہو
نوری "نہیں میں نہیں ہوں پریشان آپ کو ایسے ہی محسوس ہو رہا ہوگا-گرمی کچھ زیادہ ہے شاید اس وجہ سے میرے چہرے کا رنگ اڑا ہے-”
خیر بیٹھتے چلتے نوری اور احمدشام چھے بجے گھر پہنچ گئے-
رات تو پریشانی میں گزر گئی – کیونکہ احمد کے والد کو اچانک احمد کے آنے کے بعد بی پی ہائی ہوا-منظور حسین کے دیئیگئے کچھ عرق دیئے تو کچھ افاقہ ہوا-
احمد نے مجبور اورغصیلے لہجے میں ماں کہا-
"امی آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا عثمان نگر میں ایک بڑا ڈاکٹر ہے میں اس سے بات کرتا آپ ابو کو عثمان نگر لے آتے علاج تو ہو جاتا”
ماں نے احمد کی بات کو ہلکے میں لینے کی کوشش کی اور بولیں-
"ان کو آج ہی اتنا دورہ پڑا نہیں تو کبھی کبھی تھوڑا بہت بیمار ہوجاتے تھے حکیم صاحب کی دوا بھی تو کارگر ثابت ہو رہی ہے اور بیٹا یہ جو انگریزی دوائیاں ہوتی ہیں یہ ایک بیماری کو ختم کرتی ہیں تو دس بیماریوں کے لیے راستہ ہموار کرتی ہیں-بزرگ کہا کرتے ہیں انگریزی دوائی کھانے سے تو بہتر ہے انسان مرض میں ہی مبتلا رہے-دراصل انگریزی دوا سے بیماری کو دعوت دی جاتی ہے او یونانی دوائیوں کے مقابلے میں انگریزی دوائیاں مہنگی بھی ہوتی ہیں-
” امی یہ پرانے خیالات ہیں اور کہنے کی باتیں ہیں-”
"نہ نہ بیٹا عمر بیت جانے سے تجربے حاصل ہوتے ہیں اور تجربے کسی بھی مقصد کی کامیابی کی ضمانت ہیں-”
احمد جانتا تھا ماں نے اتنی بڑی تھیوری کیوں پیش کی، آخرماں جو ہے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے- پیسوں کی کمی ہی علاج نہ کروانے کی مجبوری رہی ہے – احمد نے سوچا تبھی تو میں سوچ رہا تھا اگر پی ایچ ڈی ہو جاتی پھر کوئی نوکری ضرور ملے گی اور میں نوری، ماں اور باپ کو سکون دے سکوں گا-
دوسرے دن احمد کے باپ کی طبیعت سازگار تھی-احمد نے پریشانی کے عالم میں پی ایچ ڈی میں داخلہ کے متعلق تمام باتیں باپ کو بتا دیں نوری اور احمد کی ماں نے بھی ساری باتیں سنیں باپ نے ایک بار یہ بھی سوچا کہ کہیں احمد اپنی قابلیت تو نہیں کھورہا ہے لیکن پدرانہ شفقت کی وجہ سے اس سے کچھ نہ کہہ سکا- ماں باپ اور نوری تینوں اپنے آپ کو احمد کی تعلیم کی خاطر بھوکے ننگے رکھنے کو تیارتھے-چھ مہینے سے ولی محمد کوئی کام بھی نہیں کر سکا تھا – گھر کا خرچ تک چلنا مشکل ہو چکا تھا-وہ تو بھلا ہوا شریف صاحب کا کہ جنہوں نے احمد کی ماں کو گھر میں برتن دھونے اور صفائی کرنے کے لیے تین ہزار کی اجرت پر بلالیا احمد کی ماں صبح اور شام کو ایک ایک گھنٹہ شریف صاحب کے گھر جاکر برتن دھویا کرتی تھی شریف صاحب پونچھ ڈگری کالج میں پروفیسر رہنے کے بعد سبکدوش ہوئے تھے-
"بیٹا آپ کو پی ایچ ڈی کرنی ہے اور داخلہ کسی بھی صورت ہونا چاہیے”
ولی محمد نے احمد سے کہا-
"وہاں معیار نہیں دیکھا جاتا اکثر سفارش اور بعض اوقات رشوت کے ذریعے ہی داخلہ ہو سکتا ہے-میرے بہت سے دوستوں نے مجھے بتایا اور مجھے خود بھی ایسا لگتا ہے کیونکہ مجھے پچھلے اور اس سال کسی بھی یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملا-جب کہ تحریری امتحانات اچھے ہوئے تھے اور وائوہ میں بھی تمام سوالات کے جواب دیئے تھے اب صرف جے-ایم-سی یونیورسٹی کا وائیوہ بچا ہے- وہاں نہ ہوا تو اگلے سال پھر عرضیاں مانگی جائیں گی اور میں اگلے سال تک انتظار نہیں کر سکتا کوئی کاروبار ہی کرنا ہی ہوگا-
"بیٹا جو لوگ داخل ہو رہے ہیں وہ تعلیمی اعتبار سے آپ سے بہتر ہوں گے – کیا حیال ہے آپ کا-”
ولی محمد نے اپنے سر پر ہاتھ پھرتے ہوئے کہا –
"ابو ہو سکتا ہے کچھ بہتر بھی ہوں لیکن سب نہیں، دانش کو ہی دیکھو میں نے ایم اے میں ٹاپ کیا اور وہ تو بائیسویں نمبر پر رہا لیکن جس دن وائیوہ تھا-اس دن ان کے ابو شریف نکل ان کو ساتھ لے کر گے اور کافی دیر تک شر یف انکل ایچ-او-ڈی سر سے گفت وشنید کرتے رہیاور جب نتائج آئے تو دانش پی-ایچ-ڈی کے لئے منتخب تھا-”
بیٹے کی یہ بات سن کر باپ کے چہرے پر مسکراہٹ اور تذبذب کے آثار نمودار ہوئے اور بولے بیٹا کل تک کچھ حل کرتے ہیں-
احمد” مطلب ”
” کل بات کرتے ہیں کہ کس طرح اس سارے مسئلے پر قدم اٹھایا جائے”
باپ نے کہا
دوسرے دن ولی محمد نے پروفیسر شریف صاحب کے گھر جانے کا ارادہ کیا – تاکہ احمد کے متعلق کچھ گفتگو کرسکے -نوری بھی شائدہ کے گھر جانے کے لئے تیار ہوئی احمد ذہنی تناؤ میں تھا-ولی محمد جانے لگے تو بیوی سے کہا وہ گلاب جامن کا ڈبہ دے دینا جو کل احمد لایا تھا میں شریف صاحب کے گھر جاتا ہوں احمد کی ماں کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی جیسے اس کا بیٹا پی-ایچ-ڈی میں منتخب ہو چکا ہو اور اسی خوشی میں مٹھائی بانٹی جا رہی ہو-احمد کو یہ بات ناگوار گزری اس نے باپ سے پوچھا وہاں کیوں لے جارہے ہیں وہ تو میں نوری کے لئے اور آپ کے لئے لایا ہوں-
"بیٹا بڑے لوگ ہمیشہ خوش آمد کو پسندکرتے ہیں – گلاب جامن کے ایک ڈبہ کی وجہ سے وہ تیرے ابو کو تیرے داخلے کے متعلق صیحیح جانکاری ضرور دے دیں گے-اور پھر آپ کا داخلہ پی-ایچ – ڈی میں ہو جائے گا تو پھر نوری کے لیے ہر دن گلاب جامن لا نا-”
ماں نیاحمد کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ مادرانہ شفقت سے لبریز الفاظ کہے
احمد کو یہ باتیں ہرگز پسند نہیں تھیں اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پچھلے سال دانش کے ساتھ اس کا جھگڑا بھی ہوا تھا کہ دانش پی- ایچ- ڈی میں رشوت دے کر داخل ہوا-
احمد نے کہا "ابو آپ ہرگز ایسا نہ کریں میں رشوت کے ذریعے کوئی مقام حاصل نہیں کرنا چاہتا میں نے تو صرف اس لیے آپ سے کل تمام پہلوؤں پر گفتگو کی تھی-خدا نخواستہ جے-ایم-سی یونیورسٹی میں بھی داخلہ نہ ہونے پر آپ کے دل نہ ٹوٹیں بلکہ آپ سمجھیں کہ جس نہج پر یونیورسٹیوں میں داخلے ہوتے ہیں اس اعتبار سے ہمیں شہنشاہیت کو بھی قبول نہیں کرتے-دنیا و آخرت کو بھول کر صرف اور صرف رشوت کے بل بوتے پر کوئی مقام حاصل کر لینا بھلاکہاں کی عقلمندی ہے-
احمد کے ابو نے بنا کوئی بحث کیے گلاب جامن کا لفافہ پکڑا اور یہ کہتے ہوئے شریف صاحب کے مکان کی طرف چل دئیے کہ بیٹا مجھے صرف اور صرف رہنمائی حاصل کرنی ہے-
کچھ دیر بعد بعد نوری نیبھی اپنی ماں سے کانا پھوسی کی اور شاہدہ کے گھر جانے کے لئے تیار ہوئی-احمد نے پوچھا نوری آج کیوں شاہدہ کے گھر جا رہی ہو-نوری نے جواب دیا بس احمد ایسے ہی- تو کیا کہو گی شاہدہ سے میرا بھائی آیا اور کوئی تحفہ تک نہ لایا – امی وہ گلاب جامن کا ڈبہ شریف انکل کو نہیں بلکہ شاہدہ کے گھر دینا چاہیے تھا-تاکہ نوری اور شاہدہ دونوں بہنیں خوشی خوشی کھاتیں-لیکن یہاں انسان کس سے سمجھائے، بڑے لوگوں میں ہمیشہ احساس کی کمی ہوتی ہے شریف انکل کے ہاں ایک کیا سو ڈبے لے جاؤ انہیں احساس تک نہ ہوگا اور اگر شاید اور نوری صرف ایک ایک قاش بھی کھا لیتیں تو ضرور دعائیں بھی دیتیں اور حق بھی ادا ہوتا-
” بیٹا خدا تمہیں سلامت رکھے شاہدہ اور نوری کو کسی دوسرے وقت بھی یہ سب دیا جاسکتا ہے-”
ماں نے احمد کے ہاتھ کا بوسہ لیتے ہوئے کہا –
ولی محمد شریف صاحب کے گھر پہنچے ان سے تمام پہلوؤں پر گفتگو کی شریف صاحب نے ولی محمد کی موجودگی میں اکشے کمار نامی کسی آدمی کو فون لگایا اور جے-ایم-سی یونیورسٹی میں پی- ایچ – ڈی کے لئے منتخب ہونے کے متعلق تفصیلی گفتگو کی- اکشے کمار نے بتایا کہ اگر ساٹھ ہزار روپے کا بندوبست ہوجائے تو داخہ مل سکتا ہے، ولی محمد کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی اس نے پھر بھی شریف صاحب سے کوئی اورتدبیر نکالنے کی کوشش کی لیکن شریف صاحب نے بہت جلد ولی محمد کو ساٹھ ہزار روپے دینے کے لئے آمادہ کر لیا-کیونکہ انہوں نے نہ صرف اپنے بیٹے کے متعلق کہا کہ داخلے کے وقت سفارش کرنی پڑی بلکہ انہوں نے اپنی پی – ایچ- ڈی کی ڈگری کے متعلق بتایا کہ جب وہ پڑھ رہے تھے تو انہوں نے ایک ہزار روپے بطور رشوت
د ئیتھے-غرض پروفیسر شریف ولی محمد کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگے کہ پی- ایچ – ڈی میں داخلہ رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں ہوتا-
ولی محمد تھرتھرا گئے، ” پروفیسر صاحب پیسوں کا بندوبست کیسے ہوگا”
شریف صاحب نے نہایت ہی نیک رائے دی کہ وہ آپ کی بیٹی کی شادی جو بابو سرخرو سے ہونے والی ہے انہوں نے جہیز کتنا مانگا ہے-
‘‘”پروفیسر صاحب بس اسی ہزار روپیکا
"تو پھر کیا ہے شادی کچھ مدت بعد کرلیں یا پھر انہیں جہیز دینے سے انکار کر دیں – ان پر تو خدا کا کرم ہے وہ بھی کون سے اب جہیز کے پیچھے پڑے ہیں سرخرو کی تو دن کی اوپر کی کمائی تین ہزار روپیہے-”
ولی محمد کچھ جواب نہ دے سکا اور بغیر کچھ کہے گھر چلا آیا-راستے میں اس نے آتے ہوئے سوچا کہ اگر وہ لوگ جہیز لینے پر اڑے رہے تو پھر کیا ہوگا گا-احمد کے لیے نوری کی زندگی بھی خراب تو نہیں کی جاسکتی- ان حالات میں احمد پی- ایچ- ڈی کیسے کرے گا- یہی سوچتے سوچتے محلہ عمرنگر میں پہنچا-اور چشمے پر پانی پینے کے لئے نیچے کیا جھکا کہ گرگیا اور بڑی دیر کے بعد ہوش آیا اپنے آپ کو سنبھالا اور اور گھر پہنچ کر بیوی سے مشورہ کرنے لگا- دونوں میاں بیوی کافی دیر تک باتیں کرتے رہے-اسی اثنا میں نوری بھی شاہدہ کے گھر سے واپس آگئی- آج پورا دن نوری بھی شاہدہ کی گھر بھائی کی پی- ایچ- ڈی میں داخلہ کے متعلق باتیں کرتی رہی شاہدہ نینوری کو بتایا کہ اگر پی ایچ ڈی رشوت کے بل بوتے پر ہوتی ہو تو تم اپنے بھائی کے لیے ہوکر جہیز کے پیسے دے دو- لیکن یہ بات سرخرو کو بلکل نہیں بتانا لیکن نوری نے کہا کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتی- وہ سرخرو سے پوچھے گی کہ اس مسئلے پر کیا کرنا چاہیے – احمد آج دن بھر کتاب کھول کے نہ جانے ذہنی طور پر افریقہ کے کن کالے اورہیبت ناک جنگلوں کی سیر کر رہا تھا پورے گھر پر افسردگی چھائی ہوئی تھی
نوری کے آنے پر باپ نے نوری کو بلایا – اور پروفیسر کے گھر ہونے والی ساری گفتگو کے متعلق بتایا جب ولی محمد گفتگو پوری کرچکے تو نوری باپ کے گلے سے لگ کر زاروقطار رونے لگی آج نوری کو کائنات گھومتی نظر آئی-اس کو لگا کے کسی نے کوئی بڑا سا پتھر اس کے سر پر مارا ہے وہ کافی دیر تک مسلسل سسکتی رہیں اس کے ابو بھی روتے رہے آخر نوری نے کہا-
"ابو زندگی میں بس احمد کے علاوہ میرا کوئی نہیں کب سے کہا تھا اپنا علاج ان پیسوں سے کروا لوجو جہیز کے لئے رکھے ہیں – جن لوگوں کو آج ہمارے ان حالات میں ہم سے ہمدردی نہیں وہ کل کو کیا ہمدردی کریں گے اور ویسے بھی وہ پیسے پر جان دینے والے لوگ ہیں ابو – آپ نے اپنی بیماری پر تو پیسے خرچ نہیں کییاب میں ہاتھ جوڑتی ہوں کہ موقع کو ہاتھ سے نہ گنوانا کیونکہ میں احمد کو مجبور نہیں دیکھ سکتی اور پی- ایچ- ڈی کے متعلق لگائے گئے اس کے خوابوں کو ٹوٹتا ہوا دیکھنا میرے بس کی بات نہیں – "یہ کہتے ہوئے نوری کمرے سے باہر چلی گئی ولی محمد پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے کرے تو کیا کرے- نوری نے کچھ دیر بعد اپنے ہونے والے شوہر پٹواری سرخرو کو کال کی نوری نے سرخرو سے افسردگی اور بیچارگی کے عالم میں کچھ کچھ باتیں بتا دیں سرخرو نے کہا کہ گھر میں یہ بات کروں گا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بول دیا کہ جب آپ سے رشتہ ہوا تھا تو وہ بے روزگار تھا اس وقت صرف اور صرف خوبصورتی ہی اس کے نزدیک کسی لڑکی کو ماپنے کا پیمانہ تھی- اب وہ کسی لڑکی کو ماپنے کے بہت سے پیمانوں سے واقف ہے-یہ کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا- نوری نے سرخرو کی کوئی بات باپ کو نہیں بتائی نوری اس کے ابو اورامی نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ احمد کو یونیورسٹی میں داخلہ دلوانے کے لیے بطور رشوت ساٹھ ہزار روپے دیں گے- کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر احمد کو رشوت کے متعلق معلوم ہوگیا تو وہ وائیوہ دینے بھی نہیں جائے گا- اور یوں یہ سارے خواب ادھورے رہ جائیں گے دوسرے دن ولی محمد نے ساٹھ ہزار روپے لیے اور پروفیسر شریف صاحب کے گھر پہنچا – پروفیسر نے آج غیر متوقع استقبال کیا اور بیٹے کی پی- ایچ- ڈی کے لیے منتخب ہونے کی پوری پوری امید دلائی – ولی محمد لگاتار تذبذب کا شکار تھا نوری بھی بہت دکھی ہو گئی تھی لیکن اس سے بھائی پر اتنا بڑا احسان کر کے دلی سکون ضرور مل رہا تھا-
اب سرخرو نے نوری کو فون کرنا بھی چھوڑ دیا تھا شاید وہ غریب تھی اور اس کے پاس جہیز تک میسر نہ تھا- 24 تاریخ کو وائیوہ دینے کی خاطر احمد جے-ایم-سی یونیورسٹی چلا گیا – ولی محمد پروفیسر شریف صاحب کے گھر گئے اور رشوت کے بارے میں پوچھا کہ بھلا اکشے نام کیآدمی نے پی- ایچ- ڈی کے لئے منتخب کرنے والے پروفیسروں سے ملاقات کی- شریف صاحب نے بتایا کہ آپ کے بیٹے کا داخلہ پکا ہے آپ اس بارے میں کوئی فکر نہ کریں-
ولی محمد نے یہ سنا تو بغیر کوئی دوسری بات کیے گھر چلا آیا-29 تاریخ کواحمد کے نتائج کا انتظار تھا اور نوری کو اپنے منگیتر کی پر خطر اورایک اہم کال کا، کیونکہ اس نے کہا تھا کہ وہ 29 تاریخ کو کوئی فیصلہ کن کال کرے گا- نوری اور ولی محمد پہلے ہی گفتگو کر رہے تھے – کہ سرخ روح کو کہہ دیں گے کہ احمد کا داخلہ ہونے والا ہے اس کے چھ مہینے کے بعد ہم شادی کریں گے- کیونکہ احمد کو بطور فلو شپ سولہ ہزار روپے ملیں گے- کیونکہ اس کے ایم اے کے نمبرات بہت اچھے تھے اور یہ فلو شپ ایم اے کے نمبرات کے اعتبار سے چند بچوں کو ہی ملتا ہے- یہ جانکاری احمد نے اپنے باپ کو آج ہی دی تھی جس کی وجہ سے اس کو کچھ سکون ملا تھا-
اچانک احمد کا فون آیا، ولی محمد کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو ٹپک رہے تھے کہ یہ گھنٹی احمد کی کامیابی کی خبر دے گی ولی محمد شاہد کامیابی کا اچانک سن کر خوشی کے عالم میں جان ہی نہ گنوا دے اس لیے اس نے یہ خوشی اپنی چہیتی بیٹی نوری کو ہی دینا چاہی، نوری نے فون اٹھایا احمد نے زندگی میں پہلی بار بنا سلام کیے سسکیوں سے لبریز یہ الفاظ نوری کے کانوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ضبط کر دئیے –
"ابو میں زندگی کی کامیابی کی یہ جنگ ہار گیا، پھر نیلے آسمان نے بے ضابطگیوں کی دلدل میں پھنسے ہم جیسے انسانوں کی چیخ و پکار کو سننا مناسب سمجھا اور پھر کوئی رشوت کے سہارے ہمیں زندہ نعش میں منتقل کر گیا-میرا نام کامیاب طلبائ میں شامل نہیں ہے میں کل گھر آ رہا ہوں ہوں-چچا عزیز سے میرے متعلق بات کرلیں اب میں مستری بننا چاہتا ہوں ”
یہ کہہ کر احمد نے فون کاٹ دیا – نوری کے ہاتھ سے موبائل نیچے گر گیا نوری کے ہاتھ شل ہو چکے تھے آنکھوں سے نہ روکنے والا سیلاب جاری تھا باپ نے چہرے پر بدلتے رنگوں کو دیکھا بیٹی کو تھامتے تھامتے پوچھا احمد کیا کہہ رہا ہے –” اس کو داخلہ نہیں ملا” یہ کہتے ہوئے نوری زمین پر گر پڑی نوری کی ماں گھڑے سے ٹھنڈا پانی لائیں اور نوری کے منہ میں انڈیلنا شروع کیا – ولی محمد روتا ہوا باہر چلا گیا دن کے تین بج رہے تھے کچھ دیر بعد نوری کو ہوش آیا-ہوش آتے ہی اپنے باپ سے کہا-
"ابو جاؤ اس حرام خور پروفیسر سے پوچھو کہاں ڈالے ہماری آخری امیدوں کے پیسے امی جاؤ اس پروفیسر کا سر نو چ لو سچ ہی تو کہا تھا احمد نے –” ولی محمد اور اس کی بیوی شکیلہ رو رہے تھے نہ جانے احمد سے وابستہ امیدوں کے ساتھ ساتھ ان کا کیا کیا لٹ چکا تھا – عین مصیبت کے ان لمحات میں نوری کے موبائل پر ایک میسج آیا اس نے دیکھا سرخرو کا ہے- اس سے پتہ تھا کہ آج سرخروح فون کرکے ضرور اپنارادہ ظاہر کرے گا – اس نے ایک بار پورا میسج خاموشی سے پڑھا چہرے کے رنگ بدل گے – نہ جانے کیا ہوا وہ پھر اسی میسج کو اونچی آواز میں ماں باپ کے سامنے دہرانے لگی-
"نوری میں تم سے شادی نہیں کروں گا بھلا میں ایک کلرک جس کی دن کی آمدن تنخواہ کے علاوہ پانچ ہزار ہو وہ آپ جیسی کمبخت اور غریبی کی ماری لڑکی سے شادی کیوں کرے- رشتہ میں نے نہیں تم نے توڑا ہے جو تم نے جہیز کا کہنے کے بعد بھی انکار کردیا، محض دھوکے سے تم نے مجھے اپنے چنگل میں پھنسایا – تم ضرور خوبصورت ہو لیکن میرے نزدیک اب خوبصورتی اہمیت نہیں رکھتی لوگ آخر کیا کہیں گے کس لڑکی سے شادی کی جس کو سر ڈھانپنے کی چادر تک نہیں ہے اور مجھے تو کل ہی پروفیسر شریف انکل ملے تھے انہوں نے کہا بیٹا اس مقام پر پہنچ کر بھی ایک ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو جس کے پاس دو کوڑی کا جہیز بھی نہیں- بیٹا تم اگر ہمارے قصبے کی کسی بھی لڑکی سے شادی کرو گے تو کم سے کم پانچ لاکھ کا جہیز ملے گا-نوری میں تو اب چاہتا ہوں کہ پروفیسر انکل کی لڑکی شیریں سے شادی کر لوں گا- ہاں خوبصورت نہ سہی لیکن جہیز کے طور پر پانچ لاکھ روپے تو ملے گے- اور میرے نزدیک ایک خوبصورتی معیار نہیں بلکہ جو لڑکی اپنے ساتھ ساتھ اس بزرگ کی بہت سی تصاویر بھی لے کر آئے جس کو دہائیوں پہلے دشمنوں نے قتل کر دیا تھا- اور جس کی دھوتی اور عینک کی اہمیت نے مجھے ایک کامیاب انسان بنایا اپنے باپ سے کہنا شرم سے ڈوب کر مر جائے، جو تمہارے لئے اس انسان کی تصاویریں اکھٹا نہ کر سکا اور مجھے آپ سے کچھ دیر مناسبت کرکے پورے قصبے میں ذلیل کیا-”
نوری کے آنسو تھم چکے تھے وہ کہہ رہی تھی تم لوگ سیرت تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ حرام کی اولاد ہمیشہ حرام ہی جمع کرتی ہے-
ولی محمد نے جب یہ میسج سن لیا تو الٹے منہ زمین پر گرپڑا، شکیلہ نے پانی حلق میں ڈالا لیکن نہ اترا ہاتھوں کی نبض دیکھنا چاہی تو نہ ملی،
"نوری نوری تیرے ابوکو کیا ہوا”
نوری کہیں خیالوں میں کھو چکی تھی ماں کی آواز سن کر نوری نے فوراً اپنے ابو کے ماتھے پر ہاتھ رکھا – ماتھا پسینے سے تر تھا، بازو کی نبض دیکھنا چاہء تو نوری کو بھی نہ ملی نوری نے پاؤں کو چھوا تو وہ برف کی سل ہو چکے تھے –