ڈاکٹر مسعود چودھری : ایک تاریخ ، ایک تحریک

0
0

 

 

 

17 جنوری کو ان کی شخصیت پر جموں میں کتاب کی رسم رونمائی ہورہی ہے

ذاکر ملک بھلیسی
9622124432
آج مجھے گوجر دیش چیری ٹیبل ٹرسٹ جموں کی جانب سے ایک کارڈ موصول ہوا جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ ڈاکٹرمسعود احمد چودھری صاحب کی شخصیت پر ایک کتاب ّ مسعود احمد چودھری شخص، شخصیت اور خدمات کے عنوان سے 17 جنوری 2021 ایتوار کے روز رسم رونمائی کی تقریب منعقد ہورہی ہے جس میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ مہمان خصوصی ہیں جبکہ ممبر پارلیمان جناب یوگل کشور مہمان ذی وقار ہیں۔ یہ تقریب گوجر دیش چیری ٹیبل ٹرسٹ چھنی ہمت میں منعقد ہورہی ہے۔ مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی کہ گوجر دیش ٹرسٹ نے مجھ حقیر انسان کو بھی یاد رکھا اور اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔
جوں ہی میں نے کارڈ پڑھا تو بے ساختہ اندر سے آواز آئی میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے ڈاکٹر مسعود چودھری کو خراج تحسین پیش کروں۔ ڈاکٹر مسعود چودھری خود میں ایک تاریخ بھی ہیں اور تحریک بھی ہیں جن کے کاموں سے پوری دنیا واقف ہیں ۔ ان کا تعارف کرانا ایسا ہی ہے جیسے سورج کو موم بتی کی روشنی دکھانا ہو۔ چونکہ میں 5 سال کا عرصہ ان کے قریب رہ کر گزارا ہے اسلئے جتنا مجھے ان کے بارے میں واقفیت حاصل ہے اس کو کاغذ پر اتارنا لازمی سمجھتا ہوں۔
ڈاکٹرمسعود احمد چودھری بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ہیں۔موصوف کے خدوخال کی تصویر کشی کرتے ہوئے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے معروف شاعر اور شعبہ ٔعربی کے صدر ڈاکٹر شمس کمال انجم ؔ یوں رقمطراز ہیں ’’ عزم و عمل کے پیکر، روادار اور وطن پرست، پُر اعتماد و ایماندار، حق شعار و خود دار، جہد مسلسل کے خوگر، عمل پیہم ، فکر و تدبر، صاف گو، خوش پوشاک، درمیانہ قد، کسرتی جسم، مسکراتے ہوئے چہرے پرنظر کی عینک، پریشانیوں سے آزاد، حالات کا سامنا کرنے کی خو، ٹھہر ٹھہر کر اور پوری طرح متوجہ ہوکر بات کرنے کی عادت۔ ان اوصاف حمیدہ سے جس شخصیت کی تشکیل ہوتی ہے اُسے ہم بجا طور پرمسعود احمد چودھری کہہ سکتے ہیںــ‘‘ (ماھنامہ عاکف کی محفل، نئی دہلی، ستمبر2009؁ؑ)۔
ڈاکٹرمسعود احمد چودھری 10اپریل1944کو ضلع پونچھ کے مینڈھر علاقے کے کالابن گائوں میں ایک خانہ بدوش کنبے میں بابو فیض احمد صاحب کے گھر پیدا ہوئے ۔ بنیادی تعلیم گائوں کے سرکاری اسکول سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے جموں سے گریجویشن کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1964میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ یہ وہ دور تھا جب ریاست کو 1965کے نا مساعد حالات نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور ریاست کے سرحدی علاقے اس سے سب سے زیادہ متاثر تھے۔ ہندوستان اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کا رخ ایک دوسرے کی طرف کردیا تھا اور لوگ بے اطمینانی کا شکار تھے۔ اس دور میں عام لوگوں کے لئے پڑھائی نہیں بلکہ اپنی جان بچانا زیادہ ضروری عمل سمجھا جاتا تھا۔ ویسے بھی اس دور میں گوجر و بکروال طبقہ کے اندر پڑھائی کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ مسعود احمد چودھری نے حالات سے بغاوت کرکے اپنی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور وہ غالباــ خانہ بدوش طبقہ کے پہلے طالب علم تھے جنھوںنے ریاست سے باہر نکل کر تعلیم حاصل کی اور ایل ایل بی کی ڈگری سے سرفراز ہوئے ۔
انہوں نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1967میں جموں کشمیر پولیس میں بطور ڈپٹی سپر انٹنڈنٹ آف پولیس ملازمت کا آغاز کیا۔ پولیس سروس کے دوران جن اضلاع میں وہ ضلع پولیس چیف رہے ان میں جموں ، کھٹوعہ، اودھمپور اور سرینگر شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ ایس ایس پی ویجی لینس اور ایس ایس پی سی آئی ڈی بھی رہے جس کے بعد ڈی آئی جی ویجی لینس، ڈی آئی جی کھٹوعہ جموں رینج، ڈی آئی جی ایڈمنسٹریشن ، ڈائریکٹرپولیس اکاڈمی اودھمپوراور پھر انسپکٹر جنرل آف پولیس ریلوے کے عہدے پر فائز ہوئے۔2002میں وہ گوجر بکروال طبقہ سے پہلے پولیس آفیسر بنے جن کو آئی پی ایس کا کیڈر ملا اور اسی کے ساتھ وہ پولیس کی سب سے اونچی پوسٹ یعنی ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل آف پولیس کے بطور 2004میںملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ سروس کے دوران ان کو کئی اعزازات سے نوازاگیا جن میں1985میں پولیس میڈل، 1994میں پریزیڈنٹ پولیس میڈل، شیر کشمیر پولیس میڈل اور فخر قوم ایوارڈ شامل ہیں۔
اپنے طبقے کی تعلیمی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی بیداری کو لے کر انھوں نے آواز بلند کرنا شروع کیا اور1989میں گوجر دیش چیری ٹیبل ٹرسٹ (Gujjar Desh Charitable Trust)کی بنیاد ڈالی۔ اس ٹرسٹ نے گوجر و بکروال طبقہ کے اندر ایک نئی جان ڈال دی اور ان کو نہ صرف تعلیم کی طرف راغب کرنے کا اہم کارنامہ انجام دیا بلکہ اس طبقہ کے اندر سیاسی بیداری پیدا کی اور انہیں اپنے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے کیلئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ اس ٹرسٹ نے جموں کے اندر گوجر ہیریٹیج سنٹر (Gujjar Heritage Centre)قائم کیا جس کو عام طور پر لوگ گوجر و بکروال طبقہ کا ’’ تاج محل ‘‘کہتے ہیں۔ 29مئی2010کو ٹرسٹ کے زیر اہتمام اسی سنٹر کے اندر ایک عالیشان پروگرام کا اہتمام کیا گیا جس میں یو پی اے کی چیئرپرسن محترمہ سونیا گاندھی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئیں ۔ سونیا گاندھی نے اس پروگرام میں چودھری مسعود احمد کے کارناموں کی تعریف کی اور گوجر و بکروال طبقہ کیلئے ان کی قربانیوں کی ستائش کی۔ چودھری مسعود احمد نے اسی اثنا ء میں جموں کے اندر گوجری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (Gojri Research Institute)اور بیگم اکبر جہاں فونڈیشن اینڈ ریسرچ لائبریری ( Begum Akbar Jahan Foundation and Research Library)قائم کی جو قبائلی کلچر پر تحقیقی کام کرنے کیلئے جموں کشمیر میں واحد مرکز بنا۔
چودھری مسعوداحمد کا سب سے بڑا کارنامہ بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کا قیام تھا۔ پولیس آفیسر کے بطور سبکدوشی کے بعد اس وقت کے چیف منسٹر مفتی محمد سعید نے 2004میں چودھری مسعود احمد کو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کا پراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کیا اور 15دسمبر2004کو یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا جہاں مفتی محمد سعید نے آنے والے سال یعنی2005سے کلاسیں شروع کرنے کا اعلان کردیا ۔ اسی اثنا ء میں ڈاکٹر مسعود احمد چودھری کو پہلے وائس چانسلر کے طور تقرر کیا گیا ۔
دھنورعلاقہ کویونیورسٹی کے قیام کے لئے منتخب کیا گیا ۔ یہ وہی علاقہ تھا جہاں نہ سڑک تھی، نہ پانی تھا، نہ بجلی کا کوئی انتظام تھا۔ دھنور کا یہ علاوہ گوجر و بکروال طبقہ کی چراہگاہ تھی اور کسی بھی زاویے سے یہ نہیں لگ رہا تھا کہ یہاں کوئی یونیورسٹی قائم ہوسکے گی ۔ مسعود احمد چودھری کیلئے اس یونیورسٹی کو قائم کرنا زندگی کا سب سے بڑا چیلنج تھا لیکن انہوں نے اس چیلنج کو دل سے قبول کرلیا اور 15دسمبر 2004سے دن رات ایک کرکے یونیورسٹی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ 8ماہ کے کم عرصے کے اندر انھوںنے نہ صرف اس یونیورسٹی میں تعمیر و ترقی کرکے عمارتیں کھڑی کردیں بلکہ 29 اگست 2005کو باضابطہ4کورسوںسے کلاسوں کا باضابطہ آغاز بھی کردیا ۔ اسی سال یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے یونیورسٹی کو منظوری دلانے میں بھی کامیابی حاصل کی اور ایم بی اے و ایم سی اے کورسوں کو چلانے کیلئے اے آئی سی ٹی ای کی منظور ی بھی دلائی گئی ۔
اسی دور کی منظر کشی کرتے ہوئے ڈاکٹر شمس کمال انجم ؔلکھتے ہیں ’’علاقہ دور دراز تھا ، وسائل کی قلت تھی، بجٹ مختصر تھا، سرمایہ کی کمی تھی مگر یہاں سارے وسائل پیدا کئے گئے۔ مواصلات کی مشکلوں کو آسان کیا گیا۔ گلوبل دنیا کے اس دور دراز علاقے کی مسافتوں کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ آب رسانی اور برقی ترسیل عمل میں لائی گئی ۔ سب رنگ اسکوائر بھی بناجہاں آج وہ سب کچھ موجود ہے جو کسی شہر کی سہولیات کی علامت ہیں، جہاں وہ سب کچھ لایا جارہا ہے جس کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی اس علاقے کی فضائوں کو عزم مسعودکی رعنائیوں اور بلندیوں کو چھو نہیں سکتی تو وہ ہے قنوطیت، مایوسی، تھکان ، سستی اور کاہلی۔ ھمارے اس قائد کا عزم آج بھی جواں ہے، ولولہ رنگین ہے، یقین محکم ہے، نگاہ بلند ہے، دنیا کو فتح کرنے کی للک ہے، طلبہ و اساتذہ کو بہم پہنچائی جانے والی سہولیت اور معیار تعلیم پر ان کی عقابی نظر ہے ۔اس ولولہ اور کچھ کرنے کا دم خم رکھتا ہے جس سے مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو ، ان کی جہالت کا خاتمہ ہو، ان کی پسماندگی دور ہو اور ان کی تہذیب و ثقافت کا تحفظ ہو‘‘ (ماہنامہ عاکف کی محفل دہلی)
مسعود احمد چودھری کی شخصیت کو’’ون مین آرمی‘‘ (One Man Army) کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کے دور میں یونیورسٹی کے اندر کیا کچھ ہوا اس سے قبل مسعود احمد چودھری کی شخصیت پر میرے ایک محترم دوست ، تحریک بقائے اردو کے صدر اور اسسٹنٹ پروفیسر اردو ، محکمہ اعلی تعلیم ، عرفان علی عارف ؔنے ایک خاکہ کھینچا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ریا ست ِ جموں و کشمیر کی پوری علمی ، ادبی ، سیا سی اور سماجی دنیا میں مسعود احمد چودھری کا نام بڑے ادب سے لیا جا تا ہے۔وہ بیک وقت مصلحِ قوم،ہوش مند مدبّر،بلند خیال مفکّر اوراعلیٰ اقدار و اخلاق کے ما لک ہی نہیںہیںبلکہ ایک متحرک سماجی کارکن ،بہتر منتظم ،سنجیدہ معلم ،دلکش فلسفی بھی ہیں اور با با غلا م شاہ با دشاہ یو نی ورسٹی راجوری کے با نی و بنیا د گزار وائس چا نسلر بھی رہے ہیں۔
مسعودصاحب کا شمار اکیسویں صدی کے ایک عظیم رہنما کی حیثیت سے ہوتا ہے۔جدیدتعلیم اور بابا غلام شاہ با دشاہ یو نی ورسٹی کی بہتری کو لے کر اُن کی فکر مندی قابل ِ غور اور قابل ِ تعریف رہی ہے۔بے شک اس وقت وہ کے۔بی۔پبلک اسکول اور گرجر چیرٹ ایبل ٹرسٹ جیسے اداروں کے نگراں بھی ہیں لیکن میرا ذاتی طور پر یہ ما ننا ہے کہ بابا غلام شاہ با دشاہ یو نی ورسٹی کے اُن شروعاتی دنوں میں مسعود صاحب کے علاوہ کوئی بھی دوسرا اکیڈمیشن ہوتا تما م تر مشکلات سے لڑ کر بھی یو نی ورسٹی کی وہ پُختہ بنیا د نہ رکھ پا تا جو مسعود صاحب نے رکھی ہے۔دراصل اُن کی پولیس بیک گرونڈ نے انہیں ایک ایسا فائٹر بنا یا ہے ،جو صرف جیتنا جا نتا ہے ۔مسعود صاحب نے جن حالا ت و واقعات اور مسائل سے لڑ کر یونی ورسٹی کوقائم کیا ہے وہ کسی عام انسان کے بس کی با ت نہیں ۔آج یہ یونی ورسٹی ایک فعال ادارہ کی حیثیت سے پورے ملک میں اپنی پہچان بنا چکی ہے۔
دھنور جیسے بیا بان میں جہا ں ایک وقت سڑک ، بجلی ، پا نی جیسی بنیا دی سہولیات بھی میسر نہ تھیں اور لو گ اندھیرا ہوتے ہی گھر جا نے سے ڈرتے تھے ایسی جگہ پر تعلیم کی روشنی سے جگمگاتی یونی ورسٹی قائم کر کے انہوں نے جنگل میں منگل کر دکھایا۔جس کے لئے نہ صر ف آج بلکہ آنے والی نسلیں بھی ان کی احسان مند رہیں گی۔
کسی بھی منزل تک پہنچنے کے لئے راستے کی ضرورت ہوتی ہے ۔چنانچہ با با غلام شاہ بادشاہ یو نی ورسٹی کے قیا م کے بعد وہا ں پہنچنا بڑا دشوار گزار مرحلہ تھا ۔اس مرحلے میں بھی مسعود صاحب نے کبھی مقامی لوگوں سے مل کر تو کہیں پولیسی اثر و رسوخ سے راستے ہموار کر ائے ۔ یہ کام گویا ستم کی سیاہ را تو ں میں سروں کے چرا غ جلا نے کے مترا دف تھا ۔وہ ایک ایسا علاقہ تھاجہاں تا حد ِ نظر تنہا ئی کاایک بیا با ن سا دکھا ئی دیتا تھاجسے کسی نے ڈوبتے جزیرے کا نا م دیا۔کسی نے سمندر کی موجو ں کی ما ر کھائے ٹیلہ کہا ۔ کسی نے مال و جان اور وقت کا زیاں بتایا، ایسے میں وہاں قیام کرنا بے حد دشوار تھا چاروں طرف دھوپ کا صحرا بچھا ہوا تھا۔خاک ہی خاک رستوں سے اڑتی رہتی۔چہرہ شناسی مشکل ہو جاتی ۔ جہا ں سڑک تھی نہ بجلی پا نی ۔انسان کیا جانور بھی خوف زدہ رہتے تھے۔ایسے میں جس طرح وہاںمسعود صاحب نے کوہ ِ شب کاٹ کر جوئے نور نکالی اوراس جنگل میں منگل کر دکھایا۔ایک خوبصورت ،دلکش اور صحت افزا شہر آبا د کیا ، یہ ایک ایسی نا قابل ِ فراموش داستان ہے جس کااب نام و نشان مٹانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہےفطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندہ صحرائی یا مرد ِ کوہستانی
مسعود صاحب ایک خوش فکر انسان ہیںاور بنیا دی طور پر فکر و عمل کے مرد ِ میدان مانے جا تے ہیں۔ان کو اپنے علمی کیریر میں کئی اعزازات حاصل ہوئے تھے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔وہ اگرچہ بنیا دی طور پر ایک استا د نہ تھے لیکن انھوں
نے خود کو نہ صرف ہمیشہ درس وتدریس سے منسلک رکھا بلکہ علم و ادب اور بالخصوص جدید تعلیم کی ہمہ جہت ترقی و ترویج کے لئے کو شاں رہے۔تعلیم کے عصری مسائل سے انھیں گہری دلچسپی رہی ہے اور جدید تعلیم کے حقوق کے تحفظ کے لئے وہ ہمیشہ سینہ سپر رہے ہیں ۔اُن کا ایک بڑا کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہر خاص و عام کو جہالت ، پسماندگی اور لاچاری کو خیر باد کہنے اورایک نئی بیداری ،سائنسی شعور ، حقیقت پسندی ،فکری آزادی اورحقیقت شناسی کی تعلیم تقریری اورتحریری صورت میںپیش کی ہے۔ وہ کسی بھی علمی ، ادبی، سیا سی ،سماجی موضوع اور مسائل پر بڑی بے باکی ،جرأت مندی اور صاف گوئی سے انتہائی خوبصورت اور محبت بھرے لہجے میں انٹریو دیتے رہتے ہیں۔پھر چا ہے کوئی دشمن ہی کیوں نہ ہو جا ئے۔وہ اکثر کہتے ہیں کہ
مخالفت سے میری شخصیت سنورتی ہے
میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں
آج ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں وہ سا ئنس اور ٹیکنا لوجی کا دور ہے ،اسے سائبر ایج بھی کہا جا رہا ہے۔دنیا گلوبلائزڈ ہو کر ایک کرسر میں سمٹ گئی ہے۔ہر کوئی خود میں سمٹ رہا ہے لیکن مسعود صاحب کبھی بھی ذاتی مفاد کے حصار میں گرفتار نہیں ہوئے۔ بلکہ ہمیشہ خود کو قوم و ملک کی خاطر وقف رکھا ہے۔بلاشبہ مسعود صاحب نہ صرف خطہ ٔ پیر پنجال بلکہ ریاست کے وہ درخشندہ ستارہ ہیں جس کی چمک رہتی دنیا تک قائم رہنے والی ہے۔ 17 جنوری 2021 کو ان کی شخصیت پر لکھی گئی کتاب کی رسم رونمائی انجام دی جارہی ہے ۔ اس موقعے پر میں ذاتی طور ان کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں اور میری دعا ہے کہ ان کو لمبی عمر اور صحت عطا ہو تاکہ وہ اسی طرح ملت کے کام کرتے رہیں۔ (ذاکر ملک بھلیسی کتاب دانش گاہ کے مصنف و کالم نگار ہیں جن سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے[email protected]

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا