بے حال کسان ، بے پرواہ اہل اقتدار!

0
0

محمد حسین ساحل
ممبئی

 

کیاکسانوں کو پھر دبوچ لیں گے سرمایہ داروں کے پنجے!!

جمہوریت میں عوام کو اظہار خیال کی پوری پوری آزادی ہے۔ہندوستان کا آئین اہل اقتدار سے سوا ل پوچھنے کی بھی شہریوں کوآزادی دیتا ہے ۔اہل اقتدار کی پالیسیوں پر تنقید کرنا ، جہاں ضرورت ہو وہاں اہل اقتدارکے خلاف احتجاج کرنا اور سڑکوں پر اُتر کر امن وامان کے ساتھ مورچے نکالنے کی بھی آزادی ہندوستان کے آئین نے شہریوں کو دی ہے۔گزشتہ 45دنوں سے زائد مدت تک ہندوستان کے کسان راجدھانی دہلی میں سردی، بارش، بھوک ،پیاس اور دیگر سفر کی اذیتیں برداشت کرکے کسان مخالف نئے زراعتی قوانین کی مخالفت کررہے ہیں ، ان نئے قوانین کو منسوخ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں، اس طرح کے احتجاج کے دوران کم وبیش 70سے زائد کسانوں نے اپنی جانیں گنوا دی ہیں،مگر سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
حکومت نےجو تین زراعتی قوانین بنائے ہیں وہ کسانوں کی بیشمار تنظیموں اور بعض ماہرین اقتصادیات کے مطابق کسانوں کے مفادمیں بالکل بھی نہیں ہیں ۔مستقبل میں کسان تباہ ہوجائیں گے ،یہاں تک کہ وہ اپنے کھیت کھلیانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔مہنگائی بڑھ جائے گی اور عوام دانے دانے کو ترسے گی ۔بڑے بڑے صنعت کاراور سرمایہ دار کسانوں کے گلے میں پٹہ ڈال کر کسانوں کی حالت کتے سے بدتر کردیں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو قوانین کسانوں کے مفاد کے لیے بنائیں گے ہیں ،اُن ہی کسانوں کو یہ قوانین قبول نہیں ہیں پھر اہل اقتدار اسے نافذ کرنے پر کیوں بضد ہے ؟جب یہ قوانین نہیں تھے تو سالہا سال کسانوں کو کسی قسم کی شکایت نہیں تھی،کسانوں کو جو قرض دینا چاہیے تھا ، وہ نہیں مل رہا تھا، جو زراعت کے لیے بیج ، بجلی اور پانی دینا تھا وہ نہیں مل رہا تھا مگر کسانوں نے کبھی اس نوعیت کا احتجاج نہیں کیا ۔کسانوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ اُن کے حق اور اختیار کا زراعتی مارکیٹ اُن کے ہاتھوں سے چھین لیا جائے گا۔اناج کا معقول نرخ کیا ہوگا وہ کس طرح طے کیا جائے اس تعلق سے اس نئے زراعتی قوانین میں کہیں بھی کسی قسم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔پھر Surety Rateکو نظر انداز کرکے حکومت کس کے مفاد کو مدنظر رکھ رہی ہے اس کا اندازہ نہیں لگ رہا ہے۔Contract Farmingیعنی معاہدہ کے مطابق کاشتکاری یا کھیتی کرنا اس قانون پر کسان کافی برہم ہیں اور انھیں اس قانون پر کافی اعتراض ہے۔اس قانون کے تحت بڑے بڑے صنعت کار اور سرمایہ دار ان غریب کسانوں سے معاہدے کریں گےاور پھر ایک بار سرمایہ دارانہ ہی نہیں بلکہ جاگیردارانہ نظام کا بھی آغاز ہوگا کیونکہ چند برسوں میں ہی یہ سرمایہ دار منصوبہ بند طریقے زمین کے مالک بند بیٹھیں گے۔اس قانون کے ذریعہ دھیرے دھیرے سرمایہ دار کسانوں کی زمینوں پر قابض ہوں گے،یہ خوف کسانوں پر طاری ہے۔مرکزی حکومت نے یہ واضح کیا کہ یہ معاہدہ زراعتی زمین کانہیں ہوگا بلکہ ان زمینوں میں پیدا ہونے والے اناج کا ہوگا۔مگر اس میں اناج کی کوالیٹی اور معیار دیکھا جائے گا۔مثال کے طور پر اگر کسی سرمایہ دار نے کسان سے اناج کا معاہد ہ کرلیا مگر کوالیٹی اور معیار کی وجہ سے وہ اسے خریدنے سےانکار کرسکتا ہے۔اس قانون کے تحت کسان کو اپنا اناج جہاں زیادہ نرخ مل رہا ہو اُسے وہاں فروخت کرنے کی آزادی ہے مگر کیاپنجاب کے کسان کو اپنا اناج ممبئی میں فروخت کرنے کی آسانی رہے گی؟اس طرح اس قوانین میں بیشمار اگر مگر ہونے کے باوجود ان قوانین کو انقلابی قوانین کہہ کر مخاطب کرنا عجیب سا لگ رہا ہے۔اگر یہ انقلابی قوانین ہیں تو ماہرین معاشیات اور زراعت کے ذریعہ ان قوانین پر غورو فکرکرنے کی ضرورت تھی۔ان قوانین پر تبادلہ خیال کرنے کی ضرورت تھی۔ان قوانین کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا چاہیے تھا،اُس پر بحث و مباحشہ ہونا چاہیے تھا،کسانوںکی تنظیموںاور کسانوں کے لیڈران اور ماہرین کی ان قوانین کے تعلق سے رائے لینا ضروری تھا مگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ،کیونکہ حکومت اس پر فخر محسوس کرتی ہے کہ ہم اکثریت میں ہیں اور جس سمت انگلی اُٹھائیں گے اسی سمت سفر کا تعین کیا جائے گا۔اگر اس طرح کا مرکزی حکومت نے طے کیا ہے تواس کا کوئی علاج نہیں ہےمگر ایسے کھوکھلے فیصلوں کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں وہ ہم سب نے جی ایس ٹی اور نوٹ بندی قوانین کے دوران دیکھ لیا ہے۔
پھر ہمارے یہاں ایک بُرا چلن یہ ہے کہ غربت ، کسان اور بیروزگاری کے تعلق سے اہل اقتدار کے ذریعہ کو ئی پالیسی پیش کی جاتی ہے تو اپوزیشن اس کی مخالفت نہیں کرتی کیونکہ اگر اپوزیشن نے مخالفت کی تو ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کے اپوزیشن ان کی ترقی میں رخنہ اندازی کررہی ہے۔جس کی وجہ سے اس کے اراکین ِ پارلیمان اس پالیسی کا کسی قسم کا مطالعہ کئے بغیر آنکھ بند کرکے حمایت کر دیتے ہیں ۔
زراعتی قوانین کے تعلق سے بھی ایسا ہی ہوا،کسی بھی پارٹی نے ان قوانین کا کوئی مطالعہ نہیں کیا اور بنا سوچے سمجھےآنکھیں بندکرکے اس کی حمایت کردی ۔تمام پارٹی کے لیڈران خواب خرگوش میں مبتلا ہوئے مگر جب پنچاب اور ہریانہ کے کسانوںنے ٹریکٹرلے کر دہلی کے شاہرائوں پر قبضہ کرلیا اور دہلی کو گھیر لیا اس وقت تمام پارٹیوں کے لیڈران اپنی اپنی نیند سے بیدا رہوئے ۔اس احتجاج یا مورچےکا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کسان اپنا احتجاج ختم کرنے کے لیے تیا ر نہیں ہیں۔مرکزی حکومت کے وفد اور کسانوں کے لیڈران کے درمیان جو بھی میٹنگ ہوئیں وہ تمام میٹنگیں ناکام ثابت ہوئیں۔کسانوں کے خلاف ہو چاہیے مفاد میں ، ان تینوں قوانین کومنسوخ کیا جائے اس بات پر کسان قائم ہیں۔پھر احتجاج کرنے والوں پرالزام تراشی کابھی مرکزی حکومت نے حوصلہ دکھایا۔مرکزی حکومت نے کسان کے اس احتجاج کو غیرقانونی، نیکسلائٹ اور خالصتان نواز جیسے لیبل بھی لگاکربدنام اور ناکام کرنے کی کوشش بھی کی ۔اُتر پردیش سے لوگوں کو ان زراعتی قوانین کی حمایت میں طلب بھی کیا گیا۔احتجاج کرنے والی کسانوں کی چالیس انجمنوں اور انکے لیڈران پر سوالیہ نشان بھی لگایا گیا ، گویا کسانوں کے اس احتجاج کو مکمل طور پر ناکام کرنےکے تمام حربے استعمال کیے گئے۔
اب ہمارے وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ان کسانوں سے براہ راست رابطہ کریں،انھیں میرے پیارے بھارت واسیو! کہہ کر مخاطب کریں، کیونکہ یہ کسان اس ملک کے شہری ہیں ، انھیں پیار اور خلوص سے سمجھائیں تو یقیناً وہ ہمارے وزیر اعظم کی بات اور مشورے سے انکا ر نہیں کریں گے۔یہ صحیح وقت ہے کہ ہمارے پیارے وزیر اعظم کسانوں کے سامنے اپنے من کی بات پیش کریں۔یہ وہ وقت ہے جب ہمارے پیارے وزیر اعظم کوکسانوں کے سامنے اپنی نرم دلی کا ثبوت پیش کرنا ہوگا ، اُن کی کچھ باتیں مان لیں ،کچھ اپنی باتیں منوا لیں ورنہ ہمارے ملک کا حال ملک ِروم جیسا ہوگا،روم جل رہا تھا اورنیرو بانسری بجا رہا تھا۔یہاں نوبت تھالی بجانے تک پہلے ہی آچکی ہے۔خدا خیر کرے۔۔۔۔۔
جس عہد میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ساغر صدیقی

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا