جموں کشمیر ایک بڑے شاعر سے محروم ہوگیا: ڈاکٹر شمس کمال انجمؔ

0
0

راجوری یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں شمس الرحمن فاروقی اورعرشؔ صہبائی کی وفات پر ایک تعزیتی نشست کا انعقاد
لازوال ڈیسک

 

راجوری؍؍ آج بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں اردو کے عالمی شہرت یافتہ نقاد، محقق، فکشن نگار،مترجم اور شاعرجناب شمس الرحمن فاروقی اور جموں کشمیر کے معتبر شاعر جناب عرشؔ صہبائی کی وفات پر شعبۂ اردو ،عربی اور اسلامک اسٹڈیزکے اساتذہ ،ریسرچ اسکالرس اور طلبہ نے آن لائن شرکت کی ۔اس تعزیتی نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیاگیا ۔ایم اردو کے ایک طالب علم جاوید احمد نے تلاوت کاشرف حاصل کیا ۔اس کے بعد ڈاکٹر شمس کمال انجم صدر شعبۂ عربی ،اردو اور اسلامک اسٹڈیز نے کلیدی خطبہ پیش کیا ۔انھوں نے اپنے کلیدی خطبے میں فرمایا کہ شمس الرحمن فاروقی متنوع الجہات ادبی شخصیت تھے جنھوں نے نہ صرف تقریباً تمام اصناف ادب کی افہام وتفہیم کی بلکہ وہ ایک دیدہ ور محقق،نقاد،معتبر فکشن نگار،شاعر اور ایک اچھے مترجم بھی تھے ۔انھوں نے ’’شب خون ‘‘جیسا معیاری اردو کا رسالہ جاری کیا جس کے زیر اثر انھوں نے اردو کی ایک جدید نسل پیدا کی جو ادب کے مقتضیات کو بہتر طور پر جاننے اور لکھنے لگی اُن کے بڑے ادیب ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ خورد نواز تھے ۔ڈاکٹر شمس کمال انجم نے ریسرچ اسکالر س اور طلبہ پر زور دیا کہ انھیں شمس الرحمن فاروقی کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے خاص طور پر ’’شعر شور انگیز ‘‘اور’’درس بلاغت‘‘ جموں کشمیر کے ایک بڑے شاعر جناب عرش صہبائی کے بارے میں بھی ڈاکٹر شمس کمال انجم نے اظہار تاسف کیا انھوں نے کہا کہ جموں کشمیر ایک بڑے شاعر سے محروم ہوگیا ہے ۔انھوں نے عرش صہبائی کے کچھ اشعار بھی سنائے ۔ڈاکٹر مشتاق احمد وانی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نے شمس الرحمن فاروقی کو اردو کی ایک ہمہ جہت اور نابغہ ٔ روز گار شخصیت قراردیا ۔انھوں نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی نے اردو کی جو خدمات انجام دی ہیں وہ جدید اردو ادب کی تاریخ کا ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ڈاکٹر وانی نے یہ بھی کہا کہ شمس الرحمن فارواقی نے داستان جیسی متروک صنف ادب کو ازسر نو زندہ کیا اور باضابطہ داستان گوئی کا سلسلہ شروع کرایا۔ انھوں نے عرش صہبائی کے ساتھ اپنے گزارے دن بھی یاد کئے اور کہا کہ وہ ایک بڑے شاعر کی حیثیت رکھتے تھے جنھیں عروض پر اچھی دسترس حاصل تھی۔ ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو نے اپنے تعزیتی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کی کتابیں اُن کی باکمال ذہانت اور تخلیقی ہنرمندی کا ایک عظیم سرمایہ ہیں ۔انھوں نے کہا کہ میں نے اُن کی بیشتر کتابوں کا مطالعہ کرنے کے دوران یہ پایا کہ وہ سوالات قائم کرتے ہیں اور پھر اُن کی روشنی میں اپنااستدلال اور جواز پیش کرتے چلے جاتے ہیں ۔بلاشبہ شمس الرحمن فاروقی کا دنیا سے گزر جانا اردو والوں کا ایک بہت بڑا خسارہ ہے ۔انھوں نے عرش صہبائی کو بھی ایک بڑا شاعر قرادیا اور کہا کہ انھوں نے شاعری کے معیار کے معاملے میں کسی سے بھی سمجھوتا نہیں کیا ۔اس موقع پر اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر جناب ڈاکٹر رفیق انجم نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا انھوں نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی ایک Legendکی حیثیت سے جانے جاتے رہیں گے ۔اُن کے تنقید ی شعور اور تخلیقی ذہانت پر جہاں حیرت ہوتی ہے تو وہیں رشک بھی آتا ہے ۔ڈاکٹر رفیق انجم نے شمس الرحمن فاروقی کو سانٹیفک تنقید کا علمبردار قراردیا ۔عرش صہبائی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ایک بڑا شاعر ہم سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگیا ہے ،عرش صہبائی کی شخصیت اور اُن کی شاعرانہ عظمت کو اردو والے ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے ۔اس پروگرام میں ڈاکٹر نسیم گل اسسٹنٹ پروفیسر بھی شریک رہے ۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر شمس کمال انجم صاحب نے بحسن وخوبی انجام دیے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا