صفدر امام قادری
صدر شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
خطرناک سرد لہر، کورونا متاثرین ایک کروڑ کے پار— حکومت اسکول کالج کھول کر جان مارنے کے لیے تیار
مرکز اور اس کی ہدایت پر صوبائی حکومتیں ایک کے بعد ایک الٹے سیدھے فیصلے کر رہی ہیں مگر حقیقی مسئلوں سے مقابلہ کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔
ملک کے سارے شمالی حصے میں زبردست سرد لہر اور برفیلی ہوائیں چل رہی ہیں۔ تین چار اور پانچ ڈگری درجۂ حرارت ہے مگر ایک کے بعد ایک کرکے مختلف صوبوں میں تعلیمی نظام کو پٹری پر لانے کے لیے اسکول اور کالج کھولنے کا سلسلہ قائم ہورہا ہے۔ پرائیویٹ کالج اور اسکول تو یوں بھی کھلنے اور بند ہونے کے بیچ میں محفوظ طریقے سے پہلے سے ہی فیس کی موٹی رقم وصول کرنے کے لیے سرگرم رہے۔ نقلی اور اصلی پڑھائی کا ملا جلا کھیل ہر جگہ نظر آیا۔ امتحانات اور مقابلہ جاتی امتحانات بھی ہوئے، میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلبہ کو بھی اپنے کالجوں میں داخلہ ملا۔ کہنا چاہیے کہ حکومت نے رفتہ رفتہ ایسا ماحول قائم کیا کہ اسکول اور کالج کے بچوں کو کم سے کم نقصان ہو اور ان کی زندگی تعلیم کے پرانے راستے پر لوٹ آئے۔
حکومت ہند نے اب سے دو تین ماہ پہلے ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ تعلیمی اداروں اور چند دیگر کاموں کے سلسلے سے فیصلہ لینے کے معاملے میں صوبائی حکومتیں آزاد ہیں۔ اسی فیصلے سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے پرائیویٹ اسکول اور کالج کے دفتر کھلے اور سرپرستوں سے فیس لینے کی مہم شروع ہوئی۔ حکومت نے سرپرستوں کی جیب پر بغیر پڑھے پڑھائے یہ بوجھ آنے دیا۔ رپورٹیں ایسی بھی آئیں کہ اسکولوں نے اسپورٹس اور گیم کے لیے بھی رقومات وصول کیں جب کہ اب تک وہاں بچے پہنچے بھی نہیں۔ یہ یاد رہے کہ آن لائن تعلیم کا معاملہ بھی خانہ پری سے بڑی کوئی حقیقت نہیں رہی اور مختلف انداز کے سروے اس بات کو ثابت کرتے رہے کہ ان سہولیات سے ملک کے بیس فی صد سے بھی کم طالب علم لیس تھے مگر یہ خانہ پری خشوع و خضوع کے ساتھ مرکزی حکومت کے مشورے سے پایۂ تکمیل تک پہنچے۔
مختلف ماہرین موسمیات نے پہلے ہی اس بات کی پیشین گوئی کردی تھی کہ اس بار سردیاں بڑھیںگی اور لاک ڈائون کے سبب ماحول میں جو تبدیلی آئی ہے اور آلودگی میں جو کمی آئی ہے، اس کے سبب بے شک نومبر کے اواخر سے ہی سردی شروع ہوگئی۔ دسمبر کے پہلے عشرے میں ہی شمالی ہندستان کے بہت سارے شہروں میں دو تین ڈگری درجۂ حرارت پہنچ چکی ہے اور یہ سلسلہ پوری جنوری میں قائم رہے گا مگر اس بات کو سمجھے بغیر ملک کے مختلف صوبوں میں اسکول اور کالج کھولے جانے لگے۔ پرائیویٹ اسکولوں کے بعد سب سے پہلے اڑیسہ حکومت نے پیش قدمی دکھائی اور رک رک کر دوسرے صوبوں نے بھی پیش قدمی جاری رکھی۔ صوبۂ بہار نے تو ابھی ابھی اعلان کیا کہ ۴؍جنوری سے اسکول اور کالج طالب علموں کے لیے کھول دیے جائیںگے۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ صوبۂ بہار میں کافی پہلے سے اسکول اور کالج اساتذہ کے لیے بہت حد تک کھلے ہوئے ہی رہے ۔ یہاں تک کہ لوگوں کو لاک ڈائون کے زمانے میں بھی من مانی کرنے والے افسروں کے بلاوے پر پرائیویٹ ٹیکسی سے آتے جاتے دیکھا گیا کیوں کہ بس اور ٹرین کا سفر بند تھا مگر وہ اساتذہ سرکاری حاکموں کے بلاوے پر بے وجہ اپنے اداروں تک پہنچے۔
حکومت ہند نے داخلہ وزارت کے علاوہ یو جی سی اور اپنے گورنروں کی معرفت تعلیمی نظام کو اپنے چنگل میں رکھا اس کی وجہ سے بہت سارے ایسے فیصلے آئے دن ہوتے رہے جن پر عقل حیران ہے۔بہار کی یونی ورسٹیوں میں جو امتحانات کا سلسلہ قائم ہوا، اس میں اچانک صد فی صد معروضی سوالات پوچھ لیے گئے۔ ابتدائی دور میں ، اب سے سات آٹھ مہینے پہلے وزیر تعلیم نے اعلان کیا تھا کہ نصاب میں تیس فی صد یا پچاس فی صد تخفیف کرکے بچوں کے امتحانات لیے جائیں گے مگر اب امتحانات کے پرچے بچوں کے ہاتھ میں آئے تو دیکھا یہ گیا کہ وہ پورے نصاب پر مشتمل ہے اور پہلے سے کچھ زیادہ ہی مشکل ہے مگر طالب علم مجبور محض ہیں ، ان کی پشت پناہی آخر کون کرے گا؟ حکومت کے فیصلے کے چنگل میں وہ پسنے کے لیے مجبور ہیں۔ ابھی اخباروں میں یہ سرخی قائم ہو رہی ہے کہ کورونا متاثرین کی تعداد میںہندستان ایک کروڑ سے زیادہ کے اعداد و شمار تک پہنچ گیا۔ دنیا میں اب صرف امریکہ ہی ہندستان سے آگے ہے۔ پورے آٹھ نو مہینوں میں ملک میں نظامِ صحت کے سلسلے سے ایک فی صد بھی ترقی نہیں ہوئی جب کہ دنیا کے مختلف ملکوں نے اپنے ملک کے نظامِ صحت کی خامیوں کو سمجھا اور پھر اسے نئے حالات کے تحت بدلنے میں کامیابی پائی مگر ہندستان ایک ایسا ملک ہے کہ سیاسی شعبدہ بازی کے سامنے کسی دوسرے کام کا کوئی مول ہی نہیں ، اسی لیے کوئی معقول اصلاح نظر نہیں آتی اور حکومت کچھ اس انداز سے اپنے رنگ روپ ظاہر کررہی ہے کہ اب وہ کورونا کے علاج اور ویکسین تقسیم کرنے کے کام میں لگ چکی ہے۔ یہ یاد رہے کہ ہندستانی حکومت اور اس سے ملحق اداروں کو کبھی اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس مشکل مرض سے مقابلے کے لیے اپنے سائنس دانوں کو آگے بڑھائے۔ دوسرے ملک کے ایجاد کردہ ویکسین ، ان کے ماحول اور موسم کے اعتبار سے ٹرائل میں کامیاب ہورہے ہیں مگر ہندستان میں عوامی طور پر ان کا استعمال ابھی بھی ایک خواب ہے۔ مگر وزیر اعظم سے لے کر مختلف صوبوں کے وزرائے اعلا تک سب ویکسین تقسیم کے متعلقات پر ہی گفتگو کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب آخری علاج ان کی مٹھی میں آگیا حالاں کہ یہ سب چھلاوا ہے اور وقت یہ ثابت کردے گا کہ جھوٹ کی بنیاد پر تشہیر تو ہو سکتی ہے مگر عوامی علاج ناممکن ہے۔
یہ سو فی صد درست ہے کہ ملک میں طالب علموں کا جو نقصان ہو چکا ہے اس کی بھرپائی کسی قیمت پر ممکن نہیں مگر ان مشکل حالات میں حکومت عام طلبہ کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر نہیں آتی۔ جیسے ہی میڈیکل کے امتحانات کا فیصلہ ہوا تھا، اسی وقت یہ بات سمجھ میں آنے لگی تھی کہ اس حکومت کو مجبور اور مشکل حالات میں مبتلا عوام ہی نہیں، اپنے طلبہ سے بھی کوئی مطلب نہیں۔ جب روزی روٹی اور دو وقت کے کھانے کی الجھنوں میں پورا ہندستان مبتلا تھا، کسی قسم کی کوئی سواری کا انتظام نہیں تھا، اس وقت حکومت نے بڑے سفاکانہ انداز میں بچوں کے امتحانات کا فیصلہ کیا یعنی جو خوش حال آبادی ہے، وہ اپنے بچوں کو اس مشکل دور میں بھی تعلیم کے دروازے تک پہنچا چکی تھی مگر کمزور افراد بھلا اس کام کو کیسے انجام دے سکتے تھے، اس میں غریب اور مزدور کے بچے ہی ہارے۔ حکومت کو اس سے کچھ خاص مطلب بھی نہیں تھا۔
بازار سے لے کر اسکول کالج تک حکومت کا مزاج ذمہ داریوں سے بھاگنے والا رہا اوراسے کسی طرح خانہ پری کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے تک سے مطلب ہے۔ ایک فلاحی جمہوریت میں یہ بات یوں تو ناقابلِ یقین لگتی ہے مگر سچائی یہی ہے کہ حکومتِ ہند اور اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں وقت گزاری کے عمل میں زیادہ مستعد ہیں اور انھیں ملک کے مسائل سے کوئی خاص غرض نہیں ہے۔ ان کی حکومت قائم رہے ۔ اربوں کی آبادی والے ملک میں دس بیس لاکھ لوگ مر کھپ جائیں تب بھی حکومت کو کیا پڑی ہے۔ ابھی ہر طرف یہی دیکھنے میں آرہا ہے۔سرد لہر میں اسکول کھولنا اور بغیر کسی تدریس کے طلبہ کو امتحان کے لیے مجبور کرنا، وبا کے نام پر غیر ضروری طور پر قانونی اختیار حاصل کرنے والی حکومت کا عوام مخالف کام ہے۔ جس کے نتائج کسی طور پر بھی معقول نہیں ہوسکتے۔ ملک کے کسان ٹھٹھرتی رات میں سڑکوں پر حکومت سے احتجاج کرتے ہوئے، اپنی جان دے رہے ہیں، مگر حکومت بے خبر اور فرائض سے بھاگتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مکمل عوامی مخالفت اور انقلابی تحریک کے بغیر اس صورت حال کا ملک مقابلہ نہیں کرسکتا۔ کورونا کے درمیان کئی ملکوں کے سربراہوں کو اپنی کرسیاں چھوڑنی پڑیں۔ نریندر مودی کے سب سے مثالی دوست ٹرمپ اپنی جگہ سے ہٹنے کے لیے مجبور ہوئے۔ وہ دن ہندستان میں بھی جلد آئے گا جب ذات پات اور مندر مسجد یا دین دھرم کے مقابلے حقیقی سوالوں پر انتخابات ہوں گے اور یہاں بھی واضح سیاسی تبدیلی سامنے آئے گی۔
[email protected]
[مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں صدر شعبۂ اردو ہیں]