بیوی، شوہر کی غلام نہیں ہے

0
0

 

ابوبکر
9560877701

 

گوکہ معاشرے میں مرد اور عورت دونوں اپنی اپنی سماجی،معاشی اور عائلی ذمہ داریوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ دونوں کے وجود سے ہی معاشرے کا وجود ممکن ہوپا یاہے، لیکن بغور دیکھیں تو ہم نے جس معاشرے کی تعمیر کی ہے وہ ’’مرد اساس معاشرہ‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔مرد کسی ’حاکم‘ یا’سوامی‘ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔اس معاشرے میں ‘بیوی’ کی حیثیت ایک ایسے گھریلوغلام کی سی ہوگئی ہے، جس کا کام بچے پیدا کرنا،پھر ان کی پرورش و پرداخت کرکے ان کو بڑا کردینا ہے۔ظاہر ہے کہ جہاں حاکم اور سوامی ہوں گے وہاں ان کے سامنے غلام ہی ہوں گے!
حالاں کہ قصہ مختصر یہ ہے کہ بیوی شوہرکی شریکِ حیات ہے۔وہ اس کی نصف ہوتی ہے۔ گھرپریوار اور دیگر لوگوں کی نظروں میں دونوں ایک دوسرے کی زندگی میں ایک دوسرے کو قبول کرتے ہوئے شریک ہوتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کے معاون و مددگار اور ایک دوسرے کے ساتھی سنگنی ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے یک طرفہ معاشرتی تانے بانے کی وجہ سے بیوی کی حیثیت گھریلو غلام کی سی ہو جاتی ہے۔جب کہ شوہر بیوی کا غلام نہیں ہوتا ہے۔گوکہ ’’جورو کا غلام‘‘ جیسے فقرے طنزاً ہمارے معاشرے میں رائج ہیں،لیکن حقیقت میں اس فقرے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ شوہر کسی طور سے بیوی کا غلام نہیں ہوتا ہے۔
حق اور انصاف کی بات یہ ہے کہ اس کائنات میں کوئی کسی کا غلام نہیں ہے،خواہ کوئی کتنا ہی اچھا شوہریا کوئی کتنی ہی لائق و فائق بیوی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی کتنا ہی رئیس یا کوئی کتنا ہی محتاج کیوں نہ ہوجائے، لیکن کوئی کسی کا غلام نہیں ہے۔اب نقطہ ملاحظہ فرمالیا جائے کہ ’’انسان، خواہ وہ عورت ہو یا مرد، بیوی ہو شوہر ہو یا وہ عمر کے کسی بھی مرحلے میں ہو، کسی کا کسی بھی سطح پرغلام نہیں ہے۔بحیثیت مجموعی ‘انسان’ آپس میں برابرہیں‘‘۔
اچھا جی مذکورہ سطر میں بطور تمہید جو بات بیان کی گئی ہے وہ اصولی بات ہے،نیزایک صحت مند اورمثالی انسانی معاشرے سے تعلق رکھتی ہے۔ تاہم دیکھنا ہمیں یہ ہے کہ ہم جس انسانی معاشرے میں صبح و شام کرتے ہیں،وہاں یہ مذکورہ بات عملی صورت میں پائی جاتی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاغذی حقائق اورزمینی حقائق میں کچھ میل مناسبت ہے یا دونوں کا آپس میں عدم مناسبت کا رشتہ ہے!
دو ٹوک لفظوں میں بات کی جائے تو مذکورہ اول بات بطور اصول و ضوابط خوب صورت لفظوں میں ملبوس اجلے اجلے کاغذوں تک ہی محدود ہے۔ ہماری زندگی کے عملی صفحات ان سنہرے اقوال سے یکسرخالی ہیں۔ گوکہ بظاہرغلامی کے دور لدچکے ہیں،مالک اورآقا کی اصطلاحیں مٹ چکی ہیں، عورتوں کے حقوق اور ادھیکار کی باتیں کی جانے لگی ہیں، بیویوں کی پسند اور نا پسند اور ان کی اہمیت و افادیت کا بھی خیال رکھا جانے لگا ہے، لیکن اندر خانہ جب ہم جھانکتے ہیں تو یہ ساری خوب صورت باتیں کسی خوب صورت خیال یا کسی وہم سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتی ہیں۔معاملہ ‘ڈھول کا پول’ والا نظر آتا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ سب کاغذی حقیقتیں ہیں،زمینی حقائق سے ان کا دورکا رشتہ ہو تو ہو، قریب سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ہمارے ذہنوں پرآج بھی غلام بنانے اورشاہ بن کرجینے کا خناس ہنوز سوار ہے۔ہمارے روز مرہ رویوں اور اعمال و افعال سے یہ باتیں ثبوت کو پہنچتی ہیں۔
شوہر آج بھی معاشرے میں ’سوامی‘ کے روپ میں رہتا ہے اور بیوی خواہ پڑھی لکھی ہو یا اَن پڑھ، اس کی حیثیت کسی داسی دیوداسی جیسی ہی ہوتی ہے۔مجھے خوب یاد آرہا ہے کہ ایک دفعہ میرے ایک عزیز کی خاتون دوست مجھ سے کہنے لگیں:
’’ابوبکر،میں جن صاحب کے بچوں کو ‘فرنچ زبان’ سکھانے جاتی ہوں وہ سب لوگ اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔بچوں کے والد ‘آئی ایف ایس’ ہیں اور محکمہ خارجہ کی جانب سے بیرون ملک اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔بچوں کی والدہ محترمہ’ سافٹ وئیر انجینئر ‘ہیں۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی کہ ان دونوں کے درمیاں تعلقات میں ذرا بھی گرمی نہیں ہے۔بچوں کی سافٹ وئیرانجینئرماں ساس کے کوسنے سنتی ہے اور کسی آیا کی طرح دور دوڑ کرگھر میں اپنے فرائض انجام دیتی رہتی ہے۔ اپنی لیاقت کی بنیاد پر ایک دفعہ اس نے جاب کرنے کی فرمائش کی تو اس کی اجازت اسے نہیں دی گئی۔ البتہ اس کے شوق پر خاک ڈالنے کے لئے اسے دس پندرہ ہزار کی جاب کرنے کے لیے کہا گیا‘‘۔
یہ ایک واقعہ ہے۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ بیویاں اُف تک نہیں کررہی ہیں۔کبھی بچوں کا سہارا لے کر بیٹھ جاتی ہیں تو کبھی’’ ہائے ایسے میں، میں کہا ں جائوں گی بھلا‘‘کہہ کر چپ ہو جاتی ہیں۔ اچھا جناب اسی رو میں پڑھی لکھی فیملی سے ایک اور واقعہ سن لیجئے تاکہ اعلی تعلیم یافتہ گھرانے کے میاں بیوی کے درمیان رشتوں کی نوعیت مزید واضح ہوجائے۔ایک روز میری ایک عزیزہ دوران گفتگو فرمانے لگیں:
’’یاربکر،اگرچہ میرے شوہرتعلیم یافتہ ہیں۔ وسیع القلب ہیں اورکھلا ذہن بھی رکھتے ہیں۔ بڑی سی یو نیورسٹی میں بطور لکچررتدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ہم نے دوران تعلیم ہی اپنی مرضی سے ایک دوسرے کا انتخاب کیا اور رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ ہم دونوں کو ایک ساتھ رہتے ہوئے آج پندرہ سولہ برس ہوگئے ہیں لیکن ان سب کے باوجود بعض دفعہ میرے ساتھ ان کا رویہ بڑا روایتی اور بڑا ہی غیر سا ہوجاتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ،وہ ہوں ہی نہ جس کا میں نے انتخاب کیا تھایا ان کے سامنے میں وہ ہوں ہی نہ، جس کا انہوں نے انتخاب کیا تھا۔یقین جانیں ان کے اس پہلو سے میں قطعی واقف نہیں ہوتی ہوں۔ ذہن نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’آخرکو وہ بھی ایک مرد ہی تو ہیں‘۔ کہیں نہ کہیں ان کے اندر بھی وہ’ مرد‘ جاگ اٹھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وقفے وقفے سے ان کے اندر کا ’’چودھری‘‘، ’’نمبردار‘‘یا گاوں سماج کا کوئی ’’جاگیردار‘‘ جاگ اٹھتا ہے۔جسے رائی بھر بھی یہ خیال نہیں ہے کہ میں ان کی وہ بیوی ہوں،خس کا انتخاب انہوں نے از خود کیا تھا اور جس کی خاطر انہوں نے اپنے خان دان کی روایات کا خیال بھی نہیں کیا تھا۔ خیران کے اس رویے کو بھی میں نے قبول کرلیا ہے۔ان کے اس رویے کو بدلنے کے بجائے میں نے خود کو ہی بدل لیا ہے۔کیا کروں،اب وہ میرے شوہر ہی نہیں ،بل کہ میرے جان عزیز بچوں کے والد محترم بھی ہیں۔برداشت کر لیتی ہوں کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے واسطے دو روٹی اور سر چھپانے کے واسطے ایک عدد چھت تو مہیا ہے۔ یار ابوبکر اٹلیسٹ ’’ہی اِز مائی ہزبنڈ ‘‘(Atleast he is my husband)
ان کا یہ آخری جملہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ ان کے اسی جملے نے مجھے یہ فہم عطا کی کہ مذکورہ جملہ اس وقت مکمل ہوتا ہے جب سامنے والے کو بھی اس بات کا احساس ہو کہ’’ اٹلیسٹ شی اِز مائی وائف‘‘۔ (Atleastshe she is my wife۔) بھئی بات تو تب بنے گی جب دونوں طرف سے بات ہو۔ایک فریق اپنی انا کو توڑ کرجھکتا چلا جا رہا ہے اور دوسرا فریق ہے کہ نام نہاد انا کے زعم میں اکڑے جا رہا ہے۔
راز کی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا دوم کہانی بھی اعلی تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔اب ایسے میں جہاں تعلیم نامی روشنی بھی نہیں پہنچی ہے وہاں کا کیا ذکرکرنا۔ اچھا اس سے ایسا بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ اعلی تعلیم یافتہ نہیں ہیں وہ بہترین شوہریا بہترین رفیق نہیں ہیں۔ میرے سامنے ایسی بھی مثالیں ہیں جہاں تعلیم کے نام پربس دو ایک کتابوں کا پڑھ لینا کافی سمجھا جاتا ہے لیکن وہاں بیویوں کو ہنستے مسکراتے دیکھا ہے۔مجھے یاد آتا ہے کہ ہمارے محلے میں ایک صاحب (جو خدا کے فضل سے اب بھی باحیات ہیں) ان کی شریک حیات محترمہ اکثر بیمار رہا کرتی تھیں۔ وہ صاحب اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنی بیماربیوی کے بھی کپڑے لتے دھویا کرتے تھے۔ جب کہ تعلیم ان کے پاس نام کو بھی نہیں تھی۔یہی نہیں ہمارے عزیز داروں میں ایک صاحب ایسے بھی ہیں جن کی شریکِ حیات شادی کے معاً بعد ہی کسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوگئیں۔شہر شہر علاج و معالجہ کے بعد بھی افاقہ نہیں ہوا۔پچھلے بیس سالوں سے ان کی شریک حیات محترمہ دونوں پیروں سے یکسر معذور بیڈ پرہیں۔ عالم یہ ہے کہ کھانا پکانا تو دور خود کے واسطے کھانا لے بھی نہیں سکتی ہیں لیکن صاحب کا مزاج دیکھئے کہ ُاف تک نہیں کہا۔ان کے کسی عمل سے کبھی کسی طرح کی ناگواری کا اظہار بھی نہیں ہوا۔آج بھی وہ ان کے ساتھ خوش و خرم ہیں۔
یہ چند ایک واقعات ہیں جو میرے مشاہدے میں ہیں۔ایسے بے شمار واقعے سماج میں موجود ہیں جو میرے مشاہدے میں نہیں ہیں۔ اچھا ان چند ایک واقعات سے اس بات کا اندازہ لگا لینا قطعی جلد بازی ہوگی کی اعلی تعلیم یافتہ طبقے میں سے سرے سے برائیاں ہی برائیاں ہیں اور کم علمی حلقے میں اچھائیاں ہی اچھائیاں ہیں۔اچھائیاں اور برائیاں دونوں جگہیں ہیں۔ مدعا اصل یہ ہے کہ بیویوں کے تعلق سے ہمارا رویہ کسی طور سے درست نہیں ہے۔ہمیں اپنے رویوں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔بیوی آپ کی ساتھی ہے، آپ کی دوست اور آپ کی زندگی کے راز و نیاز کی ساجھی دار ہے۔اگر یہ باتیں سمجھ میں نہیںآرہی ہیں تو یہی خیال کر لیا کریں کہ وہ آپ کے پیارے پیارے بچوں کی پیاری سی ماں ہے۔
اچھا جی چلتے چلتے بیویوں سے بھی عرض کرتا چلوں کہ جس طرح آپ اپنے شوہر کی غلام نہیں ہیں عین اسی طرح شوہر بھی آپ کا غلام نہیں ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں آپ ایک دوسرے کے خوب صورت لباس ہیں۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا