ہم یہاں امن کا پیغام لے کر آئے تھے اور اب یہاں امن چاہتے ہیں: ثومیہ صدف
یواین آئی
سرینگر،؍؍سرحدی ضلع کپوارہ کے درگمولہ حلقہ انتخاب کی ڈسٹرکٹ ڈیولوپمنٹ کونسل کے انتخابات کی امیدوار اور کشمیر کی پاکستانی بہو ثومیہ صدف نے کہا ہے کہ ہم یہاں امن کا پیغام لے کر آئے تھے اور میں یہاں امن وخوشحالی چاہتی ہوں۔انہوں نے کہا کہ مجھے یہاں بہت پیار ملا جس کے بدولت اس مقام پر پہنچی ہوں کہ آج انتخابات میں حصہ لے کر قیام امن اور اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے روزگار کو یقینی بنانا چاہتی ہوں۔ثومیہ صدف کا تعلق دراصل پاکستان زیر قبضہ کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے ہے اور وہ ان پاکستانی خواتین میں سے ایک ہے جو سال 2010 میں عمر عبداللہ کی حکومت میں پاکستان چلے جانے والے کشمیری نوجوانوں کی واپسی کے لئے اعلان شدہ پالیسی کے تحت اپنے کشمیری شوہر کے ساتھ کشمیر آئی تھیں۔ان کا انتخابی نشان لیپ ٹاپ ہے اور وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں ہیں۔موصوفہ نے جمعرات کے روز اپنے حلقہ انتخاب میں انتخابی مہم چلانے کے دوران نامہ نگاروں کو بتایا: ‘ہم لوگ یہاں امن کا پیغام لے کر آئے تھے اور میں چاہتی ہوں کہ یہاں امن قائم ہو اور بے روزگاری ختم ہوجائے’۔انہوں نے کہا کہ اب میرا گھر کشمیر ہی ہے اور میں یہاں کے بھائی بہنوں کے لئے کام کرنا چاہتی ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں اب نوکریاں ملنا مشکل ہیں لہٰذا نوجوانوں کو چھوٹے موٹے کاروبار شروع کرنے چاہئے جس کے لئے میں ان کی مدد کروں گی۔صدف نے کہا کہ مجھے یہاں کافی پیار ملا جس کی وجہ سے میں اس مقام پر پہنچ گئی اور میری ووٹروں سے اپیل ہے کہ وہ مجھے کامیاب بنائیں تاکہ میں ان کی خدمت کر سکوں۔انہوں نے کہا کہ بیٹی کا آخر کار سسرال ہی مستقل گھر ہوتا ہے اور وہاں (پاکستان زیر قبضہ کشمیر) میرا میکے ضرور ہے اور میرا ان لوگوں سے کبھی رشتہ ختم نہیں ہوگا۔بتادیں کہ سال 2010 میں سابق ریاست جموں و کشمیر میں عمر عبداللہ کی حکومت میں 1989 سے 2009 تک سرحد پار کرنے والے کشمیری نوجوانوں کی واپسی کے لئے ایک باز آباد کاری پالیسی کا اعلان کیا گیا۔واپسی کے خواہش مند نوجوانوں سے کہا گیا کہ وہ واہگہ اٹاری، سلام آباد اوڑی، چکن دا باغ پونچھ اور اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ نئی دہلی میں سے کسی ایک راستے سے واپسی اختیار کرسکتے ہیں۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں رہائش اختیار کر چکے 4587 کشمیری نوجوانوں میں سے اس پالیسی کے تحت 489 نوجوان ہی واپس لوٹ آئے جنہوں نے واپسی کے لیے نیپال کا راستہ اختیار کیا۔ ان میں سے تقریباً 350 نوجوان اپنے پاکستانی بیوی بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے آئے۔ بعد ازاں 2016 میں بی جے پی کی حکومت نے متذکرہ پالیسی پر روک لگا دی۔