علامہ خادم حسین رضوی ایک انجمن کا نام ہے

0
0

اہل دنیا آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے شہرت و مقبولیت کے طلبگار رہے ہیں اور اس کے حصول کے لیے اپنے طور پر ہر صغیر و کبیر،نیک و بد،جائز و نا جائز اور حلال و حرام طریقے بروئے کار لاتے رہے۔کوئی اہل حکومت کی چاپلوسی کر کے حصول شہرت کا سامان کرتا ہے تو کوئ اہلِ ثروت کی مدح خوانی کر کے،کوئی فن کاری کا جوہر دکھا کر اپنی مقبولیت کا لوہا منواتا ہے تو کوئی علم و حکمت کے کرشمے دکھا کر لیکن ایسے لوگوں کی یہ شہرت و مقبولیت وقتي اور چند روزہ ہوتی ہے۔اسی دنیائے رنگ و بو میں کچھ ایسے نفوسِ قدسیہ بھی ہیں جنہیں شہرت و مقبولیت بارگاہ ایزدی سے عطا کی جاتی ہے جس میں ایّام کے کم ہونے کہ ساتھ ساتھ روز افزوں ترقی بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اس دنیا کو خیر آباد کہنے کے باوجود بھی ان کی شہرت کا ڈنکا حیات ظاہری کے بالمقابل زیادہ آن بان شان سے بجتا ہے
یہ شہرت و مقبولیت کس کو اور کس طرح سے ملتی ہے اس سلسلے میں حدیث پاک بتاتی ہے کہ مخبر صادق صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ان اللہ اذا احب عبدا دعا جبرائيل عليه السلام فقال اني احب فلانا فاحبه قال فيحبه جبرائيل ثم ينادى فى السماء فيقول ان الله فلانا فاحبوه فيحبه اهل السماء قال ثم يوضع له القبول في الارض. و اذا ابغض الله عبدا دعا جبرائيل فيقول انى أبغض فلانا فابغضه قال فيبغضه جبرائيل ثم ينادى فى اهل السماء ان الله يبغض فلانا فابغضوه قال فيبغضونه ثم توضع له البغضاء في الارض.
یعنی بے شک جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اپنا محبوب بناتا ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بلا کر ارشاد فرماتا ھے کہ بے شک میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو تو جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر آسمان میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ فلاں بندے کو اپنا محبوب رکھتا ہے اے اہلِ سما! تم بھی اس سے محبت کرو تو سارے فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں_
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کے پھر اس بندے کی شہرت و مقبولیت اہل زمین میں عام کردی جاتی ہے_
جب اللہ تعالٰی کسی بندے سے نفرت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بلا کر ارشاد فرماتا ہے : اے جبرئیل! میں فلاں بندے سے نفرت کرتا ہوں تم بھی اس سے نفرت کرو تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں پھر فرشتوں میں یہ اعلان فرماتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے نفرت فرماتا ہے اے فرشتو! تم بھی اس سے نفرت و عداوت کرو تو فرشتے اس سے عداوت کرنے لگ جاتے ہیں پھر اہلِ زمین میں اس کی نفرت و عداوت عام کر دی جاتی ہے_
اس حدیث پاک سے واضح ہوا کہ خلق خدا میں شہرت و مقبولیت عامہ اسی کو نصیب ہوتی ہے جسے خالق کائنات نے اپنا محبوب بنایا ہو اور اللہ اسی سے محبت فرماتا ہے جو اس کا مطیع و فرما بردار،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا جاں نثار،متقی و پرہیزگار اور شریعت کا پاسدار ہو تو جس پر خلق خدا پروانہ وار نثار ہونے لگے سمجھ لیجئے کہ یہ بندہ خالق کائنات کا فرماں بردار،جانِ کائنات کا وفادار اور شریعت اسلامیہ کا تابعدار ہے اور جس سے خلق خدا دور و نفور ہونے لگی سمجھ جائیے کے یہ بندہ مغضوب بارگاہ الٰہی اور مردودِ رسالت شاہی ہے_
امیر المجاھدین کی حیاتِ مبارکہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ آپ حدیث پاک میں بتائی گئی تفصیل کی جیتی جاگتی تصویر میں بارگاہ رب العزت اور تاجدارِ رسالت کے در سے چلنے والی شہرت و مقبولیت کی باد بہی نے امیر المجاھدین کو جیسے ہی اپنے سرمدی حلقے میں لیا خلق خدا دیوانہ وار آپ پر نثار ہونے لگی نا معلوم کہاں کہاں سے پروانوں کا سیلاب اُمنڈنے لگا ۔آپ کی شخصیت اپنے اکابر و اصاغر،عوام و خواص اور ملک و بیرون ملک میں یکساں مقبول و معتبر ہو گئی۔ آپ کا علمی جاہ و جلال،حسن و جمال کی تمکنت،تقویٰ و طہارت اور تصلب فی الدین کا شہرہ ہند و سندھ کی سرحدیں پار کر کے بلاد عرب و عجم کے عوام و خواص اور علما و مشائخ کے دلوں کو گدگدانے لگا،ہر ایک فرد امیر المجاھدین کو علم و تمکنت اور فکر و فن کا دریا تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا_
یہ شہرت و مقبولیت،یہ علمی جلال و اعتبار اور یہ تصلب و تقویٰ روزِ افزوں ہے،ایسا لگتا ہے کے قدرت ہر صبح آپ کے لیے شہرت و مقبولیت کے نئے آفتاب طلوع کرتی ہے اور ہر شام آپ کے لیے شہرت و مقبولیت کے نئے باب کھولتی ہے،ہر دن آپ کے علم و فضل اور فکر و نظر کی نئی جہتیں رہتا ہے اور ہر رات آپ کے تقویٰ و طہارت کو بالیدگی کی نئی سوغات پیش کرتا ہے_
22 مئی 1966۶ میں پیدا ہونے والے علامہ خادم حسین رضوی بچپن سے ہی حصول علم کا ایک عجیب جنون رکھتے تھے۔پس آپ نے اپنے اس جنون کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ دین اسلام کی اس طرح خدمات کیں کہ رہتے دنیا تک آپ کے احسانات کو فراموش نہیں کیا جائے گا_
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق جب قرن شیطان کا ظہور ہوا اور حجاز مقدس و بلاد عرب میں دین متین محمدی کے ساتھ گستاخیاں اور بے حرمتیاں شروع ہوئیں،شریعت مطہرہ میں تغییر و تبدیل کی جانے لگی جب کے قرآن ناطق ہے *لا تبدیل لکلمات اللہ* مگر قرآن کریم کی آیات کریمہ کی غلط تفسیر اور ہے آفرینی کر کے اسلام کی شبیہ بدل کر رکھ دی ، اسلام تو اللہ کے اس دین کا نام ہے کہ جس کی روح عشقِ مصطفیٰ ہے_
جی ہاں! اسی عشقِ رسول کو مجروح کرنے کے لیے اہانت رسول اور سب و شتم کی راہ نکالی گئی،ارض حرم سے شرق بعید تک فتنہ نجدیت و وہابیت نے مذہب اسلام کی صورت مسخ کرنے کی کوشش کی۔کفر و شرک و بدعت کے نام پر وہ شورش برپا کی اور ایسی آندھی چلائی کے انسانیت کراه اٹھی،تہذیب و شرافت آہ بھرنے لگی،کون سا جور و ستم تھا ہو نجدیت نے حرم اور اہل حرم پر روا نہ رکھا؟؟؟
بہر حال اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پاک روحوں پر جنہوں نئے بحر ایمان و عقیدے میں اس شیطانی تلاطم کا رخ پھیر کر رکھ دیا اور نجدیت و وہابیت کے سائے میں اگنے والے خور رو جھاڑیاں (جنہیں دیوبندیت،چکڑالویت،رافضیت وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے) ایسی مرجھائیں اور خشک ہوئیں کے ہزار آبیاری کے باوجود اُن کی جڑیں سڑتی گلتی ہی رہیں،اپنے وطن ہندوستان میں *”میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے”* اللہ تعالیٰ نے ایسی مقبول بارگاہ اور ستودہ صفات شخصیتیں پیدا کیں جنہوں نے نجدیت کا قلع قمع گویا وہابیت کی جان نکل گئی تو فرعون کی ممّی لاش آج بھی میوزیم میں اولی الابصار کے لیے درس عبرت ہے_
اسی طرح عظیم شخصیت یعنی امیر المجاھدین بھی انہیں روحوں میں سے ایک پاک روح ہیں۔آپ اہل سنت و جماعت کے ساتھ ہر وقت شانہ بشانہ رہ کر کفار سے لڑنا آپ کی زندگی کا حصہ تھا۔اس مرد مجاہد کی عظمتوں کو لاکھوں سلام جس نے ناموس رسالت کے لیے کئیوں مرتبہ جیل کی ہوا کھائی ہے اس کے باوجود بھی دین کی خدمات کرنے میں ذرا بھی فرق نہیں آیا،اس عظیم انسان کی قوتوں کو سلام جس نے کفار کو ہمیشہ میدان میں للکارا ہے مگر کفر اس چٹان کا مقابلہ تو کیا سامنا بھی نا کر سکا،اس مرد قلندر کی رفعتوں کو لاکھوں سلام جس نے کبھی بھی اہلِ دنیا کے لیے اپنے دین کا سودا نہیں کیا،اس عاشقِ رسول کی محبتوں پر لاکھوں سلام جس نے کفر کے سامنے سینا تان کر کہا *من سب نبیا فاقتلوہ*
اس دور پر فتن میں بھی اپنے ایمان کی حفاظت کرنا اور سارے ایمان کے ڈاکووں کا تن تنہا مقابلہ کرنا یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی اور اگر یہ میں کہوں تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ *آپ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی،رسول کے معجزات میں سے ایک معجزہ اور اللہ کے اولیاء میں سے ایک ولی ہیں*
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عالم رنگ و بو اور جلوہ گاہ ہست و نیست میں جس نے بھی قدم رکھا ایسے ایک نا ایک دن اپنا قدم پیچھے کرنا ہے اور معرکے موت و حیات میں بلاآخر موت کے آہنی پنجوں میں گرفتار ہو کر اپنی متاعِ حیات کو اس کے قدموں میں ڈالنا ہے۔جو بھی یہاں آیا ہے اُسے ایک نا ایک دن یہاں سے چلا جانا ہے،کوئی اس دار ابتلا و حزن میں نہ ہمیشہ رہا ہے نہ رہے گا،آمد و رفت اور بود و ہست کا یہ ہنگامہ کسی نہ کسی وقت ختم ہوجائے گا اور یہ بزم کائنات برخاست ہو جائے گی،یہ اسی ذات واجب الوجود کا اعلان ہے جس نے خود اس بزم کو سجایا اور سنوارا ہے۔ارشاد فرماتا ہے *کل نفس ذائقۃ الموت* ہر جان کو موت چکھنی ہے اور فرماتا ہے *کل من علیہا فان و يبقی وجہ ربک ذو الجلال و الاکرام* زمین پر جتنے ہیں سب کو فنا ہے اور باقی ہے تمہارے رب کی ذات عظمت اور بزرگی والا_
مگر یہ حقیقت بھی مسلّم اور اٹل ہے کے جانے والے کی طرح کے ہوتے ہیں کسی کے جانے پر آنسووں کا بہنا تو دور کی بات ہے آنکھیں بھی نم نہیں ہوتی ہیں،صف ماتم بچھنا تو خواب ہے کوئی ایک فرد بھی ماتم کرنے والا نہیں ہوتا،فضاؤں کا سوگوار ہونا تو ایک خیال ہے اس کا گرد و پیش بھی سوگوار نہیں ہوتا،زمین و آسمان کا رونا تو الگ ہے ایک آہ بھی سنائی نہیں دیتی گویا وہ ایک معمولی انسان تھا جو ختم ہو گیا،پانی کی ایک ہلکی سے لہر تھی جو ٹوٹ گئی_
مگر کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس کا جانا جان جہاں کا نکل جانا ہے اس کے فراق کا غم صرف اس کے خاندان کا غم نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک عالم نہیں کی عالم کا غم ہوتا ہے،وہ بظاھر تنہا جاتا ہے مگر انجمن کی انجمن سونی کر جاتا ہے ۔وہ اکیلا جاتا ہے مگر نا معلوم کتنی بستیوں اور آبادیوں کو روتا بلکتا چھوڑ جاتا ہے،وہ تو مسکراتا چلا جاتا ہے مگر لوگ اس کی یاد میں خون کے آنسو رو رہے ہوتے ہیں،وہ تو نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے مگر اس کی یادوں کے انمنٹ نقوش نظروں کا نور بنے رہتے ہیں،وہ تو اس محسوساتی دنیا سے روپوش ہو جاتا ہے مگر اپنے فضائل و کمالات کی بدولت لوگوں کے قلوب میں زندہ رہتا ہے اور اپنے کردار و گفتار کی خوشبو سے ماحول کو مشکبار بنائے رکھتا ہے_
امیر المجاھدین،عاشقِ رسول،شیخ الحدیث والتفسیر،حضرت علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمۃ و الرضوان انہیں نفوسِ قدسیہ اور پاکیزہ شخصیات میں سے تھے جن کی رحلت سے پورا عالم اسلام دہل اٹھا،اہل طریقت چیخ پڑے،اہل حکمت رو پڑے،ارباب علم و دانش کی آنکھوں سے آنسو اُبل پڑے،مسلمان تو مسلمان دوسری قومیں بھی بلک اٹھیں،در و دیوار پر اُداسی چھا گئی،زمین و آسمان میں بھی آہ و فغاں کا شور برپا ہو گیا،ہر سو صف ماتم بچھ گئی اور چاروں طرف سے یہی صدا آنے لگی کہ ہاے افسوس! ہو گیا
*بجھا چراغ وہی جس کی لو قیامت تھی*
اب وہ اپنے رب غفور و رحیم کی بارگاہ میں حاضر ہیں۔حبیب دو جہاں،شفیع عاصیاں،رحمت عالم کے طفیل وہ رب کریم کی ضیافت و نوازش سے شاد کام اور مسرور ہو رہے ہیں۔جنت کے بالا خانے اور حوران بہشت اُن کے استقبال اور خیر مقدم میں ہوں گی اور ہر چہار جانب سے یہ نوید جانفزا آرہی ہوگی *يا ايتها النفس المطمئنة ارجعي الى ربك راضية مرضية فادخلي في عبادي و ادخلي جنتي* اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی اور وہ تُجھ سے راضی پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو اور میری جنت میں آ_
رب کائنات نے اپنے خزانہ عامرہ سے حضور امیر المجاھدین کو بے شمار کمالات اور خصوصیات سے نوازا تھا،آپ کی شخصیت بڑی پہلو دار اور دلآویز و مقناطیسی تھی،علم وفضل،زہد وتقوی،فقہ و فتاویٰ،تدبّر و تفکر،دانائی و بینائی،گہرائی و گیرائی،ذھانت و فطانت،عزم و ہمت،جرات و بے باکی،صبر و استقلال،جود و نوال،شعور و آگہی،دینی غیرت و حمیت،اِحقاق حق و ابطال باطل اور رد بد مذہبیت و لا دینیت کے اعتبار سے یگانہ عصر اور یکتائے روزگار تھے۔ آپ کیا گئے کہ ۔۔۔۔
جان گلستاں چلی گئی
اللہ ربّ العزّت آپ کی تربت مبارک پر رحمت و غفران کی بھرن برسائے اور آپ کے فیضان سے عالم اسلام کو بہرا ور کرے۔آمین یارب العالمین بجاه سیّد المرسلین_

حامد رضا خان قادری
ممبئی،گوونڈی

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا