نیک لوگوں کے باوجود بھی انسان ہلاکت میں کیوں

0
0

۔۔۔۔۔طالب دعا فاروق احمد قادری

 

اس میں شک نہیں کہ موجودہ دور فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے اور فتنے بھی مختلف رنگ و روپ مختلف طرز و انداز مختلف نتائج عواقب میں آتے جا رہے ہیں ہر دن ہی نہیں بلکہ ہر آن ایک نیا فتنہ سامنے آتا ہے اور کوئی نہ کوئی گل کھلاتا ہے اور ان فتنوں کی وجہ سے جہاں ہماری اقتصادیات معاشیات متاثر ہوتی ہیں وہی ہمارے ایمان و اعمال کے لیے بھی خطرات لاحق ہیں بلکہ بعض کا تعلق براہ راست ہمارے ایمان و اعمال سے ہوتا ہے۔اسی احوال کے مطابق ایک حدیث مبارک در کی جاتی ہے
ام المومنین حضرت زینب بنت حجش سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ایسی حالت میں بھی ہلاک ہوسکتے ہیں آیا کہ جب ہمارے درمیان نیک لوگ موجود ہوں گے اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جب گناہوں کی گندگی زیادہ ہو جائے گی اس حدیث کو امام بخاری نے اور امام مسلم نے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے جو حدیث حضرت زینب بنت حجش سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گھبرائے ہوئے تشریف لائے فرما رہے تھے لا الہ الا اللہ ۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور خرابی ہے عرب کے لئے اس شر کی وجہ سے جو قریب ہو چکا ہے اور آج یاجوج و ماجوج کی دیوار میں سے اتنا کھل چکا ہے یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوراخ کی مقدار بتانے کے لئے اپنے دونوں انگلیوں سے یعنی انگوٹھے اور اس سے ملی ہوئی انگلی سے حلقہ بنایا اور دکھایا اس پر حضرت زینب نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم ہلاک کر دیے جاسکتے ہیں جبکہ ہم میں صالحین اور نیک لوگ بھی موجود ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں جب خبائث یعنی برائیاں زیادہ ہو جائیں تو ایسا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اس کی وجہ سے ساروں کو ہلاک کردے۔ درجۂ بالا حدیث میں قابل غور باتیں ہیں اس میں یہ بتایا گیا کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ و سلام ایک مرتبہ خوفزدہ گھبرائے ہوئے حضرت زینب کے یہاں تشریف لائے یہ خوف اس وجہ سے پیدا ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا اور دوسری بات یہ بتائی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے لا الہ الا اللہ یہ تعجب اور حیرت کے اظہار کے لیے تھا تیسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے یعنی عرب کے لیے ویل یعنی خرابی ہے اس سے جو قریب ہو چکا ہے(الحدیث( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس شرسے آگاہ کرنے اور ان کو متوجہ کرنے کے لئے فرمایا تھا کہ وہ اس سے بے خبر و بے پرواہ نہ ہوں تاکہ ہلاک نہ ہو جائیں اور عرب کی تخصیص اس لیے کی گئی کہ اس وقت اسلام عربوں ہی میں زیادہ تر رائج اور پھیلا ہوا تھا ورنہ اصل تو تمام اہل اسلام کو متوجہ کرنا مقصود ہے۔
] : اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جس کا مفہوم یوں ہے کہ آج یاجوج و ماجوج کی دیوار کا اتنا حصہ کھل گیاہے یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انگوٹھے اور اس سے ملی ہوئی شہادت کی انگلی سے حلقہ بنا کر دکھایا ۔ یا جوج ماجوج کے بارے میں اختلاف ہے اور کیسے ہیں صحیح یہ ہے کہ یاجوج و ماجوج انسانوں ہی میں سے ایک کافر قوم ہے ہے اور بہت سے علما دین نے ان کو ترکوں میں شمار کیا ہے حضرت ذوالقرنین رحمتہ اللہ علیی نے ان کو ایک جگہ دو پہاڑوں کے درمیان لوہے سے اور سیسے کی دیوار بنا کر بند کر دیا تھا اور فرمایا تھا جس کا۔ترجمہ یہ ہے۔کہ یاجوج و ماجوج اس کی طاقت نہیں رکھتے کہ اس پر چڑھ جائیں اور نہ اس کی طاقت رکھتے ہیں کہ اس میں ذرا سوراخ کردے یہ میرے رب کی رحمت سے میں نے ایسی دیوار بنا دی ہے جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو وہ اس کو پارہ پارہ کر دے گا ۔القرآن سورۃ الکھف۔یہ قوم یاجوج و ماجوج انتہائی شریر اور فسادی مزاج رکھتی ہے اور احادیث میں ہے کہ یہ جب آئے گی تو ساری دنیا میں پھیل جائے گی شر و فساد پھیلائے گی اور یہ حضرت عیسیٰ کے دوبارہ نزول کے وقت ہوگا اور یہ قوم ایک سمندر پر سے گزرے گی اور اس کا سارا پانی پی جائے گی زیر بحث حدیث میں نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے شر سے آگاہ فرمایا اور بتایا کہ ان کی اس دیوار میں ایک سوراخ ہو گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سوراخ کو مزید کشاد وزیر کرکے اس سے نکل آئیں گے اور ان کا نکلنا قریب ہو چکا ہے اور عرض یہ ہے کہ ۔)ہلاکت کا خطرہ کب ممکن ہے (عرض یہ ہے کہ نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی برائی اور فسق و فجور زیادہ ہو جائے تو ایسا ہو سکتا ہے کہ بروں کے ساتھ ساتھ ان صالحین و متقین کو بھی ہلاک کر دیا جائے گا چنانچہ ملا علی قاری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب مثلا آگ کسی جگہ بڑھتی ہے تو بھڑک اٹھتی ہے وہ خشک و تر دونوں کو کھا جاتی ہے اور ناپاک کو پاک سب پر حاوی ہو جاتی ہے اور مؤمن و منافق اور مخالف اور موافق میں کوئی فرق نہیں کرتی جب قیامت میں اٹھایا جائے گا تو اچھوں کو ان کے اچھے اعمال کے موافق اوربروں کو ان کے برے اعمال کے موافق جزا و سزا ہوگی چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم علیہ صلاۃ و السلام نے فرمایا کہ ایک جماعت کعبہ کو ڈھانے کے لئے نکلے گی جب کہ وہ ایک میدان میں ہوں گے تو وہاں میدان میں جب پہنچیں گے تو وہاں کے سب لوگوں کو زمین میں دھنسا دیا جائے گاحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو کس طرح دھنسا دیا جائے گا جبکہ ان میں برے بھی ہوں گے اور وہ بھی جو ان میں سے نہیں ہے یعنی اچھے لوگ بھی ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب کو دھنسا دیا جائے گا پھر ان کی نیتوں کے مطابق ان کو اٹھایا جائے گا کہ دنیا میں اچھے لوگ اگر برائی کو دور نہ کریں گے اور بروں اور برائیوں کی کثرت ہو جائے گی تو اللہ عذاب میں سب گرفتار ہوں گے یہ بڑا فتنہ اور مصیبت ہے ۔ کیونکہ قرآن پاک کی آیات مبارکہ آخر میں عرض کروں اللہ تعالی سورہ انفال میں آیت نمبر 25 میں فرماتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے۔ اور بچتے رہو اس فساد سے جو تم میں سے خاص ظالموں پرہی نہیں آئے گا اور جان لو اللہ کا عذاب سخت ہے۔عرض یہ کہ اہل دین و اہل صلح کی ذمہ داری یہ ہے کہ دین و صلح کو غالب رکھیں اور بے دینی اور فساد کو مغلوب کرنے کے لئے جدوجہد کرتے رہیں اور نیک لوگوں نے اگر یہ جدوجہد کرناچھوڑ دیا اور فساد و بے دینی کا غلبہ ہو گیا تو اس کی وجہ سے سب کو عذاب میں گرفتار کر لیا جائے گا۔۔۔اللہ تعالی ہمیں اور پوری امت مسلمہ کو نیک سیرت بننے اور نیک لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائےاللہ تعالی اپنے خاص بندوں کے صدقے ہم پر اپنا فضل فرمائے۔۔آمین بجاہ النبی الکریم

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا