عارفہ مسعود عنبر
ممبئی 4 نومبر یعنی بدھ کی صبح ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر این چیف مسٹر ارنب گوسوامی کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا ۔معاملہ دو سال قبل انٹیریئر ڈیزائنر آ نوے نائک اور ان کی والدہ کی خودکشی کا ہے،مرنے سے قبل مسٹر انوے اور ان کی والدہ نے نوٹ میں مسٹر ارنب گوسوامی اور دیگر کو خود کشی کا زمہ دار قرار دیتے ہوئے کروڑوں روپیہ بقایا نہ دینے کی صورت میں خودکشی پر مجبور کرنے کا الزام لگایا تھا ۔جس کے بعد مقتول کی اہلیہ نے مسٹر ارنب گوسوامی کے خلاف کیس درج کرایا جس میں مسٹر ارنب کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا، اس وقت مہاراشٹر میں بی جے پی کی سرکار تھی اگر متاثرہ کی بات مانی جائے تو مسٹر ارنب صاحب اے اقتدار کے خاصم خاص اور حامی ہونے کی وجہ سے انہیں انصاف نہیں مل پایا ۔لیکن مہاراشٹر میں سرکار بدلتے ہی متاثرہ نے دوبارہ سنوائ کی مانگ کی مہینوں کی تفتیش کے بعد چار اکتوبر کو مسٹر ارنب کو گرفتار کر لیا گیا ۔اج ارنب گوسوامی سے "پوچھتا ہے بھارت” کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ،کیوں ایک کاروباری کا کروڑوں روپیہ مار لیا، جس کی وجہ سے وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو گیا ؟ آپ کے پاس تو دولت کی کوئ کمی نہیں۔ پھر کیوں اس بے چارے کو خود اپنی جان لینے پر مجبور کر دیا گیا ؟ مسٹر ارنب آج آپ سے "پوچھتا ہے بھارت ” کیا ملا آپ کو کسی کا گھر برباد کر کے ؟ کیا ملا آپ کو کسی کی دنیا اجاڑ کر ؟ کیا ملا آپ کو کسی کو یتیم کر کے ؟ مقتول کی زوجہ کی مانیں تو انہوں نے تو یہاں تک الزام لگایا ہے کہ انہیں منھ بند رکھنے کے لیے دھمکی بھری کالز آ رہی تھیں کہ منھ بند رکھو ورنہ انجام برا ہوگا ۔لیکن اطمینان رکھیں مسٹر ارنب بھارت صرف آپ سے پوچھ رہا ہے کہ ارنب صاحب کیا آپ پر لگائے گئے الزامات سچ ہیں ؟ کورٹ کا فیصلہ آنے تک نہ آپ کو مجرم کہ کر پکارا جا رہا ہے ، نہ ظالم کہا جا رہا ہے ۔بھارت کی عوام آپ کی طرح بے بنیاد الزامات لگا کر آپ کو مجرم قرار نہیں دے رہی ہے ،جس طرح آپ اپنے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر دہاڑ دہاڑ کر بنا کسی ثبوت بنا کسی گواہ کے کسی کو چور تو کسی کو ظالم ، کسی کو جہادی تو کسی کو غدار کہتے آے ہیں ۔صاحب ارباب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے صحافت کے مقدس پیشے کو شرم سار کرتے آئے ہیں۔ آپ نے اپنے ٹی وی چینلز کو ڈگڈگی پر ناچتے ہوئے بندر کی تماشگاہ بنا دیا تھا ۔ اج سے سات مہینے پہلے ملک پر کرونا کا قہر شباب پر تھا ،اس پر اچانک تالابندی کا اعلان بھارت کی غریب مزدور عوام پر کسی قیامت سے کم نہیں تھا غریب مزدور دانے دانے کو محتاج تھے ۔گھر میں رہیں تو بھوک سے مریں گھر سے باہر جائیں تو کورونا سے زیادہ بے رحم پولیس کے ڈنڈوں کا خوف، آخر جائیں تو کہاں جائیں جو جہاں تھا وہیں پھنسا رہ گیا کوئ شادی کی تقریب میں گیا ہوا تھا ،کوئ کاروبار کے سلسلے میں گھر سے باہر ، کوئ مسجد میں تو کوئ مرکز میں کوئ مندر میں تو کوئ گردوارے میں نیز جو جہاں تھا وہیں رہ گیا اسے اپنے گھر پہنچنے کی مہلت نہیں مل پائ ، ایسے نازک وقت میں مسٹر ارنب صحافت کے فرائض انجام دینے کے بجائے ڈگڈگی پر تماشے میں مصروف تھے انہیں نہ کسی کی بھوک سے سروکار تھا نہ پیاس سے مطلب، انہیں تو صرف نظام الدین مرکز میں پھنسے ہوئے لوگ کورونا جہادی نظر آ رہے تھے بنا کسی ثبوت کے مولانا ساد کو جھوٹا ،ہتھیارا ،غدار نہ معلوم کیا۔ کیا پکار رہے تھے چیخ چیخ کر مرکز کو کورونا سینٹر اور تبلیغی جماعت کے افراد کو مجرم کہ رہے تھے، حالانکہ کچھ ہی وقت بعد ان کورونا جہادیوں نے کرونا متاثرین کے علاج کےلیے اپنے خون سے پلازمہ دےکر یہ ثابت کر دیا کہ ان کے لیے ہر مذہب سے اوپر انسانیت کا مذہب ہے لیکن مسٹر ارنب اور دیگر گودی میڈیا نے معاشرے میں ایسا زہر گھولا جس نے طویل معاشرہ زہر آلود کر دیا ۔جس کے زیر اثر ہندو مسلمانوں سے نفرت کرنے لگے یہاں تک کہ مسلم سبزی والوں کو بھی ہندو علاقوں میں قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی اور اگر کوئ دھوکے سے پہنچ گیا تو اس کی شعامت آ گئ اس سے آدھار کارڈ طلب کیا گیا اور نہ دکھانے کی صورت میں پیٹ پیٹ کر بے حال کر دیا گیا ، لیکن مسٹر آرنب نے اپنے مشن کو جاری رکھا جب غریب مزدور بھوک سے بے حال ریلوے اسٹیشن پر اپنے گھر جانے کو جمع ہوئے تو انہیں اس وقت بھی ان کی مجبوری اور بیچارگی کے بجائے ان کے پیچھے کی مسجد نظر آئ مسٹر ارنب ملک کی اس گنگا جمنی تہذیب کو نظر آتش کرنے کا کوئ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ،صحافت کا فریضہ اے اول ہے ک وہ ہر معاملے کی تحقیق کے بعد تہ تک جاکر اپنی رائے کا اظہار کرے لیکن مسٹر ارنب تو اپنے خیر خواہوں کے اشارے پر ملک میں فرقہ پرستی کے شراروں کو ہوا دیکر معاشرے میں نفرت کی آگ بھڑکانے کا کام کرتے رہے ہیں ۔ایک اچھے صحافی کا فرض ہے کہ وہ پوری سچائی اور ایمانداری کے ساتھ عوام کے مسائل سامنے لائے۔مزدوروں کے حقوق کی بات کریے ۔کسانوں کی پریشانیوں پر ڈیبیٹ کرے ،بے روزگاری پر گفتگو کرے، عوام کے درد کو سمجھے ان کے مسائل دور کرنے کو کوشاں ہو ،مگر افسوس چند بکاؤ چینلز اور صحافیوں کی وجہ سے آج ملک بھر کی صحافت پر انگشت نمائی ہو رہی ہے آج ارنب کے خیر خواہوں کو آزادی صحافت کا خیال آ رہا ہے آج وزیر داخلہ امت شاہ اسمرتی ایرانی اور دیگر تمام پریس کی آزادی کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں اس وقت کہاں تھی آزادئ صحافت جب نہ معلوم کتنے ہی بے گناہ صحافیوں کو صرف حق گوئی کے جرم میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اس وقت نہ کسی خاتون کے حاملہ ہونے کی فکر کی گئی نہ کسی نوجوان کے مستقبل کی پرواہ کی گئی، حق تو یہ ہے جب کہیں بھی کسی صحافی کے ساتھ ظلم ہو تو ایسی ہی آواز اٹھانی چاہئے اور اسی طرح بیانات دینے چاہیے صرف انہیں لوگوں کا دفاع نہیں کرنا چاہیے جو آپ کے قریب ہیں اس سے متعلق قانون و نظریات یکساں ہونے چاہیے یہ نہیں ایک کے ساتھ زیادتی ہو تو آپ مدد کریں اور دوسرے کے ساتھ خود زیادتی کریں ،اگر حقیقتاً آپ میڈیا کی آزادی کے لیے سنجیدہ ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اس سے سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا تو جہاں کہیں بھی صحافی کے ساتھ زیادتی ہو حکومت کو اس کا دفاع کرنا چاہیے اس پر حکومت کے رد عمل میں یکسانیت ہونی چاہیے ۔ پھر مسٹر ارنب پر تو اس وقت صحافت سے متعلق کوئی کیس ہی نہیں ہے آپ پر تو بہت بڑے بڑے الزامات عائد ہیں سچ جھوٹ کا فیصلہ تو عدالت ہی طے کرے گی لیکن آج مسٹر ارنب اور ان کے خیر خواہوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اوپر والے کی لاٹھی بے آواز ہے اگر آپ کسی کی طرف ایک انگلی اٹھاتے ہیں تو چار آپ کی اپنی جانب بھی ہوتی ہیں۔ خیر خدا کرے مسٹر ارنب بے قصور ثابت ہوں، ہم ان کی طرح بے ضمیر نہیں ہیں جو مسٹر ارنب کے انداز میں اچھل اچھل کر بچوں کی مانند کہیں” ارنب کی بینڈ بجی بڑا مزا آیا ”