‪اولاد کی تربیت جلد از جلد کیجئے کہی دیر نہ ہوجائے‬

0
0

پیرزادہ مولوی بلال یوسف اچھبل سوپور
امام وخطیب مرکزی جامع مسجد ملک صاحب صورہ سرینگر
موبائل نمبر 7006826398

ہمیں اپنی اولاد سے محبت ہے، محبت ہونی ہی چاہیے، ہمیں اپنی اولاد کی چاہت ہے ،ہونی ہی چاہیے، ہماری آنکھ کا نور دل کا سرور ہے یقینا ایسا ہی ہونا چاہئے، ہماری اولاد ہمارا چین، ہمارا صبر و قرار ہے ،گھر کی بہار ہے ،رونقِ ہستی ہے ،دم زندگی ہے ،جان محفل ہے اولاد کے بغیر زندگی ایک اجڑا ہوا گلستاں ہے،جس میں نہ دلشکنی ہے نہ خوبصورتی، نہ دل آویزی ہے نہ دل بستگی، زندگی کی بے کراں تنہائیوں اور حیات مستعار کے وسیع وعریض صحراء میں ساری بہار ساری دلکشی بچوں کے دم سے ہے انھیں سے ویرانوں میں بہار آجاتی ہے پژمردہ کلیاں کھل اٹھتی ہیں، زندگی کے سونے سونے دن ،سونی سونی راتیں یکایک آباد ہوجاتی ہیں، جگمگا اٹھتی ہیں، پھول مسکراتے ہیں، فضا خوشبوؤں سے معطر ہوجاتی ہے ،ہر طرف زندگی ہی زندگی دکھانی دیتی ہے ۔
بچے نہ ہو تو زندگی بے کیف، بے سود نظر آتی ہے، کمانا بے فائدہ دکھائی دیتا ہے انسان اپنی زندگی میں ادھوراپن اور کمی محسوس کرتا ہے خود کو بے دست و پا، بے سہارا، بے یارو مدد گار سمجھتا ہے وہ اپنے گھر کے آنگن میں بچوں کے قہقہے ڈھونڈھتاہے ،بچوں کی ضدیں رونا شور مچانا تلاش کرتا ہے مگر اس کی تلاش حسرت دیاس بن کر کسی نہاں خانہ دل میں روپوش ہو جاتی ہے ۔اور آہ سرد کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔اولاد نہ ہو ،تو ہونے کیلے آدمی کیا کیا کوشش نہیں کرتا ،ڈاکٹر اطباء سے لیکر دعا تعویذ اور جھاڑ پھونک ہر در تک پہونچ جاتا ہے ۔اولاد ہونے پر اولاد کیلے، اولاد کے مستقبل کو سنوار نے کے لئے دوڈدھوپ شروع ہوجاتی ہے کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی یہاں تک کہ جائز وناجائز کی بھی پروا نہیں ہوتی ۔حلال وحرام بھی تمیز اٹھ جاتی ہے ۔آدمی اولاد کے لیے بخیل بن جاتا ہے ،کنجوس ہوجاتا ہے، اکثر بہادری کے موقع پر بزدلی دکھاتا ہے ،ہمت کی جگہوں پر کم ہمت بن جاتا ہے، بچوں کی محبت غالب آجاتی ہے میرے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا؟وہ کیسے رہیں گے؟کیسے زندگی گزاریں گے ان کے خوردونوش کا انتظام کیا ہوگا؟ ان کے رہنے سہنے کا بندوبست کیا ہوگا؟ہر ایک کی فکر رہتی ہے دن و رات اسی میں غلطاں وپچتاں رہتا ہے۔

کیا اولاد کی فکر کرنا غلط ہے؟ کیا اولاد کے مستقبل کو سنوار نے کی سوچ صیح نہیں؟ کیا اولاد کو اپنے ابد بے یارو مدد اور بے سہارا چھوڑ کر جانا ٹھیک ہے؟ ہرگز نہیں اولاد کے مستقبل کی فکر ضروری ہے،ماں باپ کا فریضہ ہے،ایک اہم ذمہ داری ہے

لیکن ٹھہرے، دل پر ہاتھ رکھے اور سوچ کر کہے ہمیں اور آپ کو اولاد کا مستقبل بنانے اور سنوار نے کی فکر کن معالات میں ہے؟دین کے لئے یا دنیا کے لئے؟ ہمیں یہ فکر ضرور ہے کہ ہمارے بعد ہماری اولاد کھاۓ گی کیا؟ پہنے گی کیا؟ اوڈھے گی کیا؟ رہے گی کہاں بسے گی کہاں؟
لیکن کیا یہ بھی فکر ہے کہ ہمارے بعد ہماری اولاد کا عقیدہ کیا ہوگا؟ عمل کیا ہوگا، دستور زندگی اور مقصد حیات کیا ہوگا؟ اس کے رات دن کیسے گزریں گے ؟ وہ دیندار رہے گی یا بے دین ہوجاۓ گی؟ دین پر عمل کرنے والی ہوگی یا دین سے دور ہوجائے گی؟ دین پر چلنے والی ہوگی یا سرکش وباغی بن جاۓ گی، ایمان و عمل صالح والی ہوگی یا کفر اور فسق وفجور والی ۔نیک زندگی والی ہوگی یا معصیت والی ۔اصل فکر اولاد کے متعلق یہی ہونی چاہیے کہ ہماری اولاد ہمارے بعد دیندار رہے، دین پر چلنے والی رہے دین کو اپنی زندگی میں اتارنے رچانے اور بسانے والی بنے، تقوی کو اختیار کرنے والی بنے ،کفر وشرک سے دور رہنے والی اور گناہ اور معصیت سے نفرت کرنے والی بنے۔یہی وہ طریقہ زندگی اور طرز حیات ہے جو ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام کی حیات مبارکہ اور ان کی وصیت و نصیحت سے ملتا ہے ۔حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد کو جمع کرکے اولاد کے اسی مستقبل کی فکر کی تھی ،یہی پوچھا اور معلوم کیا تھا
ارشاد باری تعالی ہے ۔۔۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس موت کا وقت آیا جبکہ انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟بیٹوں نے جواب دیا ہم ا٘پ کے معبود کی عبادت کریں گے اور آپ کے آباء حضرت ابراھیم علیہ السلام اور اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی عبادت کریں گے جو کہ ایک معبود ہے اور ہم اسکے مطیع وفرماں بردار بن کر زندگی گزاریں گے(سورہ بقرہ ) بچوں کا مستقبل کیا ہوگا اسے بہت پہلے سوچنے کی ضرورت ہے۔بچوں کی تعلیم وتربیت ایسی ہونی چاہئے جس سے ان کی آئندہ زندگی ڈگری اور صیح لائن پر رہے خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا ۔اولاد کا اپنے باپ پر کیا حق ہے ۔جواب دیا اس کی ماں اس کابہتر انتخاب کرے اس کا اچھا نام رکھے اور اسے قرآن سکھاۓ۔

ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے اپنے بیٹے کی نافرمانی کی شکایت کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹے کو بلایا بیٹے نے کہا اے امیرالمؤمنین! کیا بیٹے کا باپ پر کوئی حق نہیں؟ فرمایا کیوں نہیں حق تو ہے اور وہ حق یہ ہے کہ اس کے والدین چن کر لاۓ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے قرآن مجید کی تعلیم دے ۔بیٹے نے کہا اے امیرالمؤمنین میرے باپ نے ان میں سے کوئی حق ادا نہیں کیا کیونکہ میری ماں ایک حبشیہ ہے جو ایک مجوسی کی باندی تھی اور اسنے میرا نام جُعل رکھا یعنی پاخانہ کا کیڑا(جو پاخانہ کو گول کر کے منہ سے لٌڑھکاتا ہے) اور جہاں تک تعلیم وتربیت کی بات ہے تو اسنے مجھے قرآن مجید کے ایک حرف کی بھی تعلیم نہیں دی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس شخص کی طرف متوجہ ہوۓ اور فرمایا تو اپنے بیٹے کی شکایت لے کر آیا حالانکہ تو پہلے ہی اس کی حق تلفی کرچکا ہے (تواریخ حبیب الہی )
بچپن ہی سے بچے کی تربیت بہت ضروری ہے والدین اسے جس لائن پر لے جائیں گے اسی لائن پر وہ چل پڑے گا ۔ اچھی لائن پر چلائیں گے اچھی لائن پر چلے گا خراب لائن پر پر چلائیں گے خراب لائن پکڑے گا، بچہ اپنی فطرت کے اعتبار سے صیح ہوتا ہے والدین کا ماحول، گھر کا مزاج ،رہن سہن، طور وطریقہ ہی اسے غلط راہ پر ڈالتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر بچہ فطرت سلیم پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنادیتے ہیں یا نصرانی بنادیتے ہیں یا مجوسی بنادیتے ہیں(رواہ بخاری ) مسلمان کے گھر میں پیدا ہوگا اذان واقامت کے کلمات اس کے کان میں آئیں گے، غیر مسلم کے گھر میں پیدا ہوگا بتوں اور دیوی دیوتاؤں کا نام سنے گا، اسی طرح دیندار کے گھر میں پیدا ہوگا دینداری سکھے گا ،دین سے دوری رکھنے والے ماحول میں جنم لے گا وہی مزاج بنے گا، گالیاں بکے گا خرافات سیکھے گا دین و بیگانہ رہے گا ارشاد ربانی ہے اے ایمان والو اپنے ا٘پکو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ(سورہ توبہ ) آدمی اپنے آپکو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے کیسے بچاۓ گا؟ وہ اعمال کر کے جو جہنم سے بچانے والے ہیں اور ان کا ماحول بناکر جن میں اہل وعیال جہنمی کاموں سے بچ جائیں، گھر کا ماحول جہنمی کاموں والا ہو تو گھر کے لوگ بیوی بچے جہنمی کاموں سے کیسے بچیں گے؟دھیرے دھیرے سب اسی رنگ میں رنگ جائیں گے
بچہ یا بچی جب بولنے لگے تو اسے اللہ اللہ بلوایا جاۓ اس سے کلمہ طیبہ سکھایا جاے جوں جوں بڑا اور سمجھ دار ہونے لگے اس کے سامنے اللہ کا نام آۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آۓ انبیاء کرام کا تذکرہ آے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعیں اور بزرگان دین کا ذکر آۓ نماز،روزہ، حجہ،زکواۃ، قرآن کی تلاوت اور ذکر تسبیح کے اعمال والفاظ آئیں نہ کہ فلمی گانوں کے بول ،فلموں کے نام فلموں میں کام کرنے والوں کے نام ۔اس طرح کی بہت سی خرافاتی چیزیں ظاہر ہے کہ یہ چیزیں دینی ماحول بنانے والی نہیں بلکہ بنے ہوئے دینی ماحول کو بھی بگاڑ دینے والی ہیں۔یاد رکھو ہمارے لئے ماڈل ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ہمیں کسی اور سے لینا دینا کیا ۔
ارشاد نبوی ہے ۔اپنی اولاد کو اوامر پر عمل کرنے اور نواہی سے بچنے کا حکم دو یہ چیز انھیں جہنم کی آگ سے بچاۓ گی(ابن جریر)

حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ اپنی اولاد کو حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حب اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعیں اور قرآن مجید کی تعلیم دو،حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ جس طرح قرآن کی سورتیں سیکھتے تھے اسی طرح مغازی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سکھتے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اپنی اولاد کو گھوڑ سواری تیر اندازی اور تیراکی سکھاؤ آج کے دور میں گھوڑ سواری اور تیر اندازی کی جگہ سائیکل اور دوسرے چیزوں نے لے لی لہذا یہی سیکھنا چاہیے یعنی بچوں کو ابتداہی سے جرت مند بنانا چاہتے ۔بزدلی، کم ہمتی اور عیش وعشرت کے کاموں اور اس قسم کے ماحول سے دور رکھنا چاہیے ۔

آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر اٌمم کیا ہے
شمشیر وسناں اول ،طاؤس ورباب آخر
میرے ہم وطنوں ۔ابتداہی سے بچے کا ماحول کیسے بنایا جاتا ہے اس کا ایک واقعہ سنۓ مشہور بزرگ ولی کامل عارف باللہ حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمتہ کہتے ہیں کہ میں بہت چھوٹا تھا تبھی سے اپنے ماموں محمد بن سوار رحمتہ کو رات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا تھا ایک دن میرے ماموں مجھ سے کہنے لگے تم اللہ کو یاد نہیں کرتے جس نے تم کو پیدا کیا ہے؟ میں نے کہا کیسے یاد کروں؟ فرمایا جب بستر پر سونے جاؤ لیٹے لیٹے دل ہی دل میں زبان ہلاۓ بغیر تین بار کہو اللہ میرے ساتھ ہے اللہ مجھے دیکھ رہا ہے ،اللہ میرا گواہ ہے ،،چنانچہ میں نے ایسا ہی کرنا شروع کردیا جب کچھ دن گزر گئے اور میں نے اپنے ماموں کو بتایا تو وہ کہنے لگے اب ایسا ہی سات بار کرو،،چنانچہ میں نے ہر رات سات بار کہنا شروع کردیا جب کچھ دن آور گزرگۓ تو ماموں نے فرمایا کہ اب گیارہ بار کہا کرو چنانچہ میں گیارہ بار کہنے لگا میرے دل میں اس کی لذت وحلاوت بیٹھ گئی اور اس کہنے میں لطف آنے لگا ایک سال تک ایسا ہی رہا پھر محمد بن سوار رحمتہ میرے ماموں کہنے لگے جو میں نے تمہیں سکھایا ہے اسے محفوظ رکھو اور اس پر مرتے دم تک قائم رہو کیونکہ یہ تمہیں دنیا وآخرت دونوں جگہ نفع دیگا اس طرح چند سال تک کرتا رہا میں نے اپنے اندر اس کی حلاوت ومٹھاس پالی، پھر ایک دن میرے ماموں مجھ سے کہنے لگے اے سہل اللہ جس کے ساتھ ہو اللہ جس سے دیکھ رہا ہو ،اللہ جس کا گواہ ہو کیا وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا؟دیکھو اللہ کی معصیت سے ہمیشہ بچنا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچپن ہی سے حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمتہ کے دل ودماغ میں اللہ کی معرفت وخشیت بیٹھ گئی اور بڑے ہوکر وہ کبار عارفین میں شمار ہوے(کتاب راہ عمل جلد اول)
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔۔۔اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو دس سال ہونے پر نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کا بستر الگ الگ کردو (رواہ ابوداود ) اولاد کی تعلیم وتربیت اور انھیں حسن ادب سکھانا بہترین عطیہ ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، کسی باپ نے اپنی اولاد اچھے ادب سے افضل عطیہ کوئی نہیں دیا(ترمزیشریف ) میرے عزیز بزرگو دوستو اولاد میں لڑکا اور لڑکیاں دونوں ہوتے ہیں دونوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ایک کی تعلیم وتربیت ہو دوسرے کی طرف سے لاپرواہی ہو ۔ لڑکوں کو اعلی سے اعلی تعلیم دلائی جائے لڑکیوں کو تعلیم وتربیت سے کورا رکھا جاۓ ایسا کرنا ظلم ہوگا جو اللہ کو بلکل پسند نہیں ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کے لڑکی ہو پس اس نے اس سے زندہ دفن نہیں کیا اور لڑکے کو لڑکی پر ترجیح نہیں دی تو اللہ اس شخص کو جنت میں داخل کرے گا (ابوداود )
اولاد سے پیار کرنا اسے چاہنا عزیز رکھنا حدیث سے ثابت ہے لیکن اصل پیار ومحبت یہی ہے کہ ان کی دنیا وآخرت سنوارنے اور بنانے والی تعلیم وتربیت کردی جائے ۔ان کے ساتھ حقیقت میں یہی رحم دلی اور یہی شفقت ہے کہ انھیں اخلاق و آداب سے آراستہ کردیا جائے

کردار سے بناۓ معیار زندگی
ماحول سے حیات کا سودا نہ کیجے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا