از قلم: وزیر احمد مصباحی (بانکا)
[email protected]
{موجِ خیال}
آج کے اس پرآشوب دور میں جس طرح بڑی تیزی سے ایمان کے لٹیرے سادہ دل سنی صحیح العقیدہ مسلمانوں پر اپنا آزمودہ تخریبی حربہ استعمال کر رہے ہیں، وہ کسی بھی صاحب حساس طبیعت پر پوشیدہ نہیں. تبلیغ کے چکا چوند لبادے میں ملبوس ہو کر حور و غلماں کے جو یہ سنہرے خواب دکھاتے ہیں، شاید ہی آپ کو کہیں اور دوسری جگہ اس کی مثال مل پائے. بس اسی خواب کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ چند دن کا یہ پروردہ، بھولا سا انسان شریعت کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کے باب میں اپنے سماج و معاشرے کے لیے ایک زبردست عالم بن کر ابھرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے گمرہی و بد عقیدگی کا جال اپنے ارد گرد بڑی چابک دستی سے بن دیتا ہے۔ نتیجتاً دیکھنے میں یہاں تک آیا ہے کہ پھر اس حدود میں مدت مدید تک کی آنے والی نسلیں ایمانی تباہی سے دوچار ہوتی رہتی ہیں اور شریعت و روحانیت کی حقیقی تعلیمات سے بھی وہ ہمیشہ کے لیے یتیم ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔
اپنے بزرگوں سے اگر آپ کسی دن فرصت پا کر ان نومولودں کے حوالے سے پوچھ بیٹھیں تو یقیناً یہی انکشاف ہوگا کہ ” یہ تو آج سے ساٹھ/ ستر سال پہلے کہیں بھی نظر نہیں آتے تھے "۔ مگر آج ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک آبادی گمرہی و بدعقیدگی کے دہانے پر ہیں. ہاں! ُاس دور کے ہمارے باکمال بزرگوں نے اس کے گھناؤنے راز بھی فاش کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن و احادیث سے قرارا جواب بھی عنایت کیا۔ وقتی طور پر تو یہ حادثہ ذرا تھم سا گیا مگر ___مگر قدرے مرور ایام کے بعد ہی اس نے پھر سے اپنے بال و پر جمانے شروع کر دئیے اور پھر ہر گزرتے ایام کے ساتھ ہی قرآن و سنت کے حقیقی نغموں سے سرشار ہونے والی انگنت بستیاں اپنی سنہری شناخت کھو بیٹھیں۔ ہاں! اس دور کے ہمارے ذمہ داروں نے اگر ناکہ بندیاں بھی کی تو وہ بس جلسے و جلوس کی صورت میں۔ کوئی ایک شب اس کے لیے خاص ہوئی، بڑے بڑے پھکڑ باز مقرروں اور لمبے و گھنگریالے زلفوں والے شعرا کی بھیڑ جمع ہوئی، پھینکم پھاک، دھواں دھار تقریر اور چیخ دار آواز میں نعتیں پڑھی گئیں، بھولے بھالے عوام نے رات بھر خوب اُچھل اُچھل کر داد دیں، کتنوں کی نماز فجر خواب خرگوش کی نظر ہوئی، اور صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی رات کے دھندلکے میں ان خطبا و شعرا نے موٹے موٹے نذرانوں سے اپنے اپنے جیب گرم کر کے اپنی اپنی راہ ناپ لیں___اس کے آگے کچھ نہیں۔ یہاں تک کہ فائدہ بھی صفر رہا۔۔۔ عوام سے بھی گر صبح سویرے افادہ و استفادہ سے متعلق دریافت کیا گیا تو یہی جواب ملا کہ "ہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ فلاں شاعر کی آواز بہت سریلی تھی۔۔۔ وہ خوب ڈائلاگ بک رہے تھے __اپنی داستان سفر اور پروگراموں کی تفصیل بتا رہے تھے اور ہاں فلاں مقرر صاحب کی تو مت پوچھئے جناب! وہ تو کرسی خطابت پر ایسے دہاڑ رہے تھے کہ پورا اسٹیج جھوم رہا تھا __ہاں بھائی! کچھ ہو نا ہو مجھے تو اس کا دہاڑنا بہت پسند آیا۔۔۔ ”
جی ہاں! آج کے ہمارے اکثر جلسوں کی حالت بھی کچھ یہیں تک ترقی یافتہ ہے۔ کچھ ہو یا نا ہو؛ ہاں ہمارے اس طرزِ عمل سے یہ نتیجہ ضرور نکلا کہ پھر ہم جلسے و جلوس میں الجھ کر رہ گیے اور یہ گمراہ گر دیگر نیے نرالے انوکھے حربے استعمال میں لا کر دن بدن ہمارے ایمان و عقیدے پر دھاوا بولتے رہے۔ حتی کہ نذرانے میں ہمیں اپنی ایمانی پونجی سے بھی اس کا ہاتھ رنگنا پڑا۔۔۔ جی ہاں! ہمارا فکری دھارا، کج فکریوں کے بہاؤ میں ہمیشہ کے لیے بہ گیا۔۔۔ لچھے دار تقاریر نے ہمیں سوائے چالیس دن کے چلوں کے اور کہیں کا نہیں چھوڑا۔ نہ ہم نے جوابی کارروائی کے لیے کوئی دفاعی کوششیں کیں اور نہ ہی ہماری عقل و خرد کو ذرہ برابر تدبر و تفکر کی آہ لگی۔ نتیجہ یہاں تک سامنے آیا کہ ہمارے وہ بچے جو اسکول و کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اسے سہی طور پر نہ تو کلمہ طیبہ یاد ہے اور نہ ہی صحتِ نماز، روزہ کی بنیادی چیزوں و دیگر اخلاقی فریضوں کے اسرار و رموز سے آگہی۔ ہاں! اس سے اگر آپ یہی پوچھ لیں کہ آپ کس نبی کا کلہ پڑھتے ہیں اور امتی کن کے ہیں؟ تو جواب ندارد ___
مجھے یاد آتا ہے کہ ابھی ایک سال قبل جب شرح عقود کی گھنٹی میں ہمارے مربی شیخ شمس الھدی مصباحی صاحب قبلہ نے کچھ خارجی باتیں چھیڑی دیں تو یہی امتی ہونے نا ہونے سے متعلق بات چل نکلی۔ غالباً اپنے یا کسی اور کے حوالے سے فرما رہے تھے کہ : "ایک موقع پر جب کسی دیہات میں جانا ہوا تو دیکھا کہ ایک آٹھ نو سالہ بچی مسجد کے دیوار سے گوبر پاتھ رہی تھی۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تم کس کے امتی ہو تو کہنے لگی اپنے باپ کی امتی ہوں”۔۔۔ اب بھلا آپ ہی بتائیں اور فیصلہ کریں کہ ہمارا تعلیمی گراف کہاں تک بلند ہے اور ہم اپنے نونہالوں کی کیسی علمی و عملی تربیت کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں اس حوالے سے کل بروز قیامت جواب دہ ہونا پڑے؟ سوچیں اور خوب۔۔۔خوب سوچیں!!! واقعی یہ سر پیٹ لینے کا مقام ہے کہ ہم نے اس کے لیے اسلامی تعلیم کے لیے کوئی بند و بست نہیں کیا۔۔۔ اگر کچھ کیا بھی تو بس دین کے نام پر چندے اکٹھے کر کے کسی شب ایک بھاری بھرکم جلسہ کر لیا اور اپنے لیے اسے توشہ آخرت سمجھ کر پھر ہمیشہ کے لیے کان میں تیل ڈالے سو گیے۔
سچ پوچھیں تو؛ آج کے اس سخت اندھیرے میں ہمیں مشکل سے ہی کہیں اجالا نظر آتا ہے۔۔۔ ورنہ تو ہر جگہ تاریکی ہی تاریکی، گھپ اندھیرا اور سیاہی ہی سیاہی ہے، وہ بھی تدبر و تفکر اور علم کی گھٹا ٹوپ تاریکی۔
لیکن، میرے محترم قارئین! گھبرائیں نہیں! نامید نہ ہوں! ہم اگر کوشش کریں تو ابھی بھی خوشگوار سحر نمودار ہو سکتی ہے اور ہم اپنی پیشانی سے علمی یتیمی کا بدنما داغ مٹا سکتے ہیں۔ ہاں! ہم جو یکاّ دُکاّ ٹمٹماتے چراغوں کی بات کرتے ہیں، انھیں میں سے ایک "المصباح اسلامک کوئز” بھی ہے جو تنظیم حافظ ملت اسلامیہ کی جانب سے ہر سال منعقد ہوتا ہے۔ آج یہ خبر دیتے ہوئے واقعی بڑی مسرت و شادمانی ہو رہی ہے کہ "المصباح اسلامک کوئز” کا یہ چھٹا دینی تقریری و تحریری مقابلہ اپنے سابقہ روش کے مطابق بڑے تزک و احتشام کے ساتھ اس دفع بھی ضلع گڈا (جھارکھنڈ) میں منعقد ہونے والا ہے۔۔۔ جس میں صرف اور صرف اسکول و کالج کے طلبہ و طالبات ہی حصہ لے کر طبع آزمائی کر سکتے ہیں، تا کہ ہماری قوم کے یہ مستقبل مذہب اسلام کے حوالے سے کچھ درست باتیں سیکھ جان سکیں۔ اس میں نماز، روزہ، طہارت، حج، زکات، عمرہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑی بنیادی باتیں، اللہ عزوجل کی ذات و صفات سے متعلق باتیں اور اس کے علاوہ ڈھیروں شرعی ٹاپک سے متعلق بنیادی چیزیں ہی اسلامک جنرل نالج کے طور پر بطورِ سوال پوچھی جاتی ہیں اور اس حوالے سے انوار شریعت، بہار شریعت، ہمارا اسلام اور سچی نماز وغیرہ کتابوں سے بچے مدد لے کر اپنی بھرپور تیاری کرکے اس مقابلے میں شرکت کرتے ہیں تا کہ وہ مقابلہ میں اپنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے گراں قدر انعام حاصل کر سکیں۔ آج جب کہ اس کوئز کو چھ برس مکمل ہونے کو ہے، اس کا نتیجہ بھی کیف آگیں ہے۔ وہی بچے و بچیاں جو کل کلمہ طیبہ تک ٹھیک طرح سے نہیں جانتی تھیں، آج وہ بہت کچھ جان چکی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ ہر سال اس مقابلہ کا بے صبری سے انتظار بھی کرتے ہیں تا کہ مقابلہ میں حصہ لے کر اول پوزیشن کا انعام اپنے نام کر سکے۔
سچ پوچھیں! تو میرا ماننا ہے کہ اگر پڑھے لکھے حضرات رات رات بھر کے جلسے و جلوس منعقد کر کے بے دریغ روپیے خرچ کرنے کے بجائے یہ اسلامک کوئز والا آپشن ہی اپنا لیں تو نتیجہ نہایت ہی قیمتی آئے گا اور ہماری آبادی بھی اسلامی تعلیمات سے منور ہوتی چلی جائے گی۔ ہاں! کل کو جا کر اسے ہی تو قوم کا مستقبل بننا ہے، آخر یہی تو وہ نسل ہے جو اس کراہتی ہوئی قوم کے لیے مداوا کا سامان فراہم کرے گی اور اسے یتیمی کے منجدھار سے نکال کر علم و نور کی وسیع شاہراہ پر لا کھڑا کرے گی۔ یاد رکھیں! اگر آج وقت رہتے ہوئے بھی اگر آپ نے اس طرف توجہ نہیں کی اور اس نسل نو کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے کا کام نہیں کیا تو کل جا کر یہ نسل آپ کو کبھی نہیں بخشے گی اور قوم کی علمی پسماندگی پر ہمیشہ کے لیے کوسنے کا کام کرے گی۔
یقیناً؛ آپ یہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ جب اس تنظیم(تنظیم حافظ ملت اسلامیہ) کے افراد، جو ابھی جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں زیر تعلیم ہیں، وہ اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر اپنی بہترین قربانی پیش کر سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں کر سکتے؟ آپ کے لیے تو وقت ہی وقت ہے۔ یقین مانیے! جب بھی اس تنظیم کا نام ذہن میں آتا ہے تو اس ناچیز کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے کہ آخر یہی طالب علم جو جاں توڑ محنت کی بدولت اشرفیہ کا ششماہی امتحان پاس کرنے کے بعد ربیع الاول شریف کے موقع پر اپنا آبائی وطن جاتے ہیں، وہ ہر سال یہ پروگرام کیسے اتنی خوش اسلوبی کے ساتھ منعقد کر لیتے ہیں؟ وہ بھی علاقہ اور جگہ بدل بدل کر تا کہ ہر علاقے میں علم و نور کی زریں شعائیں پھیل سکے۔ ہاں! اس تنظیم کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ اگر "knowledge is the biggest money” پہ عمل کرکے "العلم نور” کی سچی ترجمانی کرنی ہے تو اس راہ کا راہی بننا ہی پڑے گا۔ آخر ہماری علمی آرستگی کا واضح مقصد بھی تو یہی ہے نا کہ ہم اس جہاں کو علم و نور کی روشنی سے بھر دیں۔ اور پھر جا کر اسے وہ دولت حاصل ہو جائے کہ جسے نہ تو کوئی چھین سکتا ہے اور نہ ختم کر سکتا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ یہ کام ہر گاؤں میں ہونا چاہیے اور سال میں ایک دفع ہی سہی، پر تمام ذمہ دار حضرات کو مل بیٹھ کر جلسہ و جلوس کروانے کے بجائے یہی بدعت حسنہ انجام دینا چاہیے کہ انھیں اپنی کوششوں کا کما حقہ نتیجہ مل سکے۔ یقین مانیں! اگر یہ سلسلہ شروع کر دیا گیا تو پھر ہماری آنے والی نسلیں علم و ادب کی روشنی سے ہرگز محروم نہیں ہوں گی۔۔۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پہ عمل کی جائے۔ اللہ کریم ہمیں اور آپ کو توفیق رفیق سے شادکام فرمائے۔( آمین) آپ مضمون کے درمیان لگے پوسٹر میں ان پندرہ کامیاب طلبہ و طالبات کے نام مشاہدہ کر سکتے ہیں، جنھوں نے بڑی محنت و مشقت کے بعد اعلیٰ نمبر حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہیں۔ یقیناً یہ کامیاب افراد مبارکبادی کے مستحق ہیں، ہم ان کے جناب میں تہنیتی کلمات پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ زندگی کے ہر موڑ پر یوں ہی اپنی محنت و لگن کے بل بوتے کامیابی و کامرانی بٹورتے رہیں۔
آخر میں بس دعا گو ہوں کہ مولی تنظیم کے تمام ارکان و ممبران کو اس کار خیر پر بہتر صلہ عطا فرمائے، ہمیں علم کی روشنی سے مالا مال فرمائے، تنظیم کو دن دونی رات چوگنی مزید ترقی عطا فرمائے اور تمام افراد کو اپنے جگر پاروں کی درست تعلیم و تربیت تئیں متفکر رہنے کا مادہ عطا فرمائے…. (آمین یا رب العالمین) ___
(مضمون نگار: جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ریسرچ اسکالر ہیں)