’’گل بے رنگ و بو‘‘

0
0

بیک ٹو ولیج پروگرام، غصے میں ہیں عوام، اور مجبور ہیں حکام
محمد اشفاق

کشتواڑ؍؍”بیک ٹو ولیج” یعنی گاؤں کی اور سرکار کی طرف سے جموں و کشمیر کے عوام کے سروں پہ مسلط کی گئی ایک ایسی تلوار ہے جس کا سایہ عوام کے لیے وہم سا بن چکا ہے۔ سال 2019 سے جاری اس پروگرام کا اس وقت تیسرا مرحلہ جاری و ساری ہے۔ لیکن عوام کے لیے یہ پروگرام گل بے رنگ و بو کی حثیت ہی رکھتا ہے کیوں کی پچھلے دو مکمل شدہ پروگراموں میں صفحہ قرطاس پہ رقم کئے گئے مسائل میں سے ابھی تک گنتی کے چند مسائل ہی حل کیے جا سکے ہیں اور باقی مسائل کو دستور کے تحت ٹھنڈے بستے میں ڈال کر ہی دم لیا جا چکا ہے، ایسے میں بیک ٹو ولیج مرحلہ سوم عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے، ایک طرف دیہی علاقوں کے لوگ اپنی سال بھر کی محنت کو سمیٹنے میں مشغول ہیں کیوں کہ گلابی جاڑے کی آمد آمد ہے، اور دوسری جانب مفت کی دردسر مول لینے کے لیے انہیں پنچایت گھروں اور سرکاری اسکولوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہاں پہونچ کر اور دن بھر مختلف قسم کے بلند بانگ دعوے سننے کے بعد وہ شام کو جب گھر لوٹتے ہیں تو خود کو لٹا ہو محسوس کرتے ہیں۔ڈوڈہ کی ایک پنچایت کے سرپنچ نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر لازوال کو بتایا کہ پچھلے دو مرحلوں میں درج کئے گئے مسائل کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں ایسے میں کورونا کے قہر کے درمیان مرحلہ سوم کو عوام کے سروں پر تھوپنا ان کی سمجھ سے بالاتر ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اس سلسلے میں بائکاٹ کے حق میں تھے لیکن دور دراز سے آنے والے عہدیداروں کی دل شکنی نہیں کرنا چاہتے اس لیے مرتے کیا نہ کرتے وہ اس پروگرام میں شامل ہو گئیے۔کچھ علاقوں میں پنچایت نمائندگان کا اس پروگرام کو سرے سے ہی مسترد کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اس پروگرام کی آڑ میں ضرور عوام کو بے وقوف بنایا جائے، لیکن حکام کی مرضی کے سامنے کس کی چلتی ہے حکام نے اسے عوام کے سروں پر مسلط کر کے ہی دم لیا اور عوام کے لیے یہ سوائے ” گل بے رنگ و بو” کے کچھ نہیں ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا