جموں و کشمیر میں مرکزی حیثیت کا حامل علاقہ بٹوت
ملک عبدالطیف
جموں؍؍ریاست جموں و کشمیر میں ایسے ایسے خوبصورت مقامات ہیں جہاں جاکر لوگ سکون حاصل کر سکتے ہیں، ایسی ہی ایک جگہ صوبہ جموں کے ضلع رام بن میں بٹوت کے نام سے مشہور ہے۔ماضی میں بٹوت جس قدر اہمیت کا حامل رہا موجودہ دور میں بٹوت اْتنا ہی دنیا سے کٹ کر الگ تھلگ ہوکر رہ گیاہے۔ ناشری چنینی ٹنل بننے کی وجہ سے جہاں وادی اور خطہ چناب کے بیشتر علاقوں کے مسافروں کا سفر آسان ہواوہیں بٹوت بے حد پریشان ہوا۔ مسافروں کے درشن مکمل طور سے ختم توہوئے ہی تھیلیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ اب سرکار کے درشن بھی بٹوت میں نا کے برابر ہیں۔واضح رہے چنینی ناشری ٹنل بننے سے قبل خطہ چناب اور وادی کشمیر کو جانے والی تمام گاڑیوں کا گزر بٹوت سے ہی ہوتا تھا اور یہی وجہ تھی بٹوت نے ایک مرکزی حیثیت حاصل کی تھی۔ ہر آنے جانے والی گاڑی بٹوت میں بریک لگا کر کچھ وقفے کیلئے ضرور رْکتی تھی۔ اکثر مسافر یہیں پر کھانا کھانے میں ترجیح دیتے تھے۔ مسافروں کی بھیڑ کو دیکھ کر بٹوت کے مقام پر بے شمار ہوٹل اور سویٹ شاپس کی دکانیں کھلی تھی ،بڑی تعداد میں یہاں کے نوجوانوں نے کسی نہ کسی طرح بیروزگاری سے نجات پائی تھی۔قدرتی حسن و جمال سے مالا مال علاقہ بٹوت سیاحتی طور بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔پتنی ٹاپ جو کہ صوبہ جموں کا ایک بہترین سیاحتی مقام ہے۔بٹوت سیاحتی مقام پتنی ٹاپ کیبالکل بغل میں ہے ،اِس وجہ سے سیاح لوگ اکثر بٹوت میں آتے جاتے رہتے تھے۔ آنے جانے والے ہر مسافر کیلئے بٹوت والوں نے مناسب داموں میں بہتر سہولیات میسر رکھی تھیں جس وجہ سے بٹوت مسافروں کیلئے ایک پسندیدہ مقام بن گیا تھا۔پتنی ٹاپ میں آنے والا ہر سیاح بٹوت کی خوبصورتی اور آب ہوا کا دلدہ ہو جاتا تھا۔بٹوت کی آب و ہوا اور دوستانہ ماحول کو دیکھ کر اکثر سیاح کچھ دنوں کیلئے بٹوت میں ہی قیام کرتے تھے۔ سیاحوں کی بٹوت آوجاہی اور مسافروں کا گزر بٹوت کی خوشحالی کا سبببنا تھا، خاص طور یہاں کے مقامی نوجوانوں کیلئے آئے روز روزگار کے مواقعہ فراہم ہو رہے تھے اور بٹوت کی مقامی آبادی ہنسی خوشی ایک شاہانہ ماحول میں اپنی زندگی بسر کر رہے تھے۔ چند برس قبل بٹوت والوں کی خوشحال طرز ِ زندگی پر اْس وقت بدحالی کے بادل چھائیجب ناشری چنینی ٹنل کا افتتاح ہوا اور وادی کشمیروخطہچناب کے بیشتر علاقوںکو جانے والی گاڑیوں کاگزر مکمل طور سے بٹوت کیلئے ایک قصہ ¿ پارینہ بن کر رہ گیا۔ اب بٹوت میں خطہ چناب کے بس چند ایک اضلاعکے ڈرائیور حضرات اپنی گاڑیوں کوبریک لگاتے ہیں صرف اِس لئے اگر اْن کو سواریاں نہ ہوں اگرگاڑی میں سواریاں بھری ہوں تو پھر وہ بھی بٹوت میں رْکنا فضول سمجھتے ہیں۔ماضی کا خوشحال بٹوت اب بدحال بٹوت بن چکا ہے۔ٹریفک کی مکمل طور سے منتقلی بٹوت کی بدحالی کی وجہ تو بنی ہی تھی لیکن سرکارکی عدم توجہی اور سوتیلے سلوک کی وجہ سے بٹوت ایک الگ تھلگ اور کٹا ہوا علاقہ بن چکا ہے۔ مقامی آبادی کا گلہ ہے کہ بٹوت سے ٹریفک آمد و رفت کی مکمل طور سے منتقلی اگر بٹوت کی پسماندگی کی ایک وجہ بنی تھی لیکن سرکار چاہتی تو بٹوت کے مقام اور حیثیت کو بحال رکھ سکتی تھی۔ بٹوت چونکہ ایک مرکزی حیثیت کا حامل بھی ہے جموں اورکشمیر میں بٹوت ہی ایک ایسا مقام تھا جسے جموں اور کشمیر میں(اور) کا مقام حاصل تھا لیکن اب حالت یہ ہے کہ بٹوت اب (غور) کا مقام بن چکا ہے۔ سرکاری غور فرمائے تو بٹوت جموں کشمیر کا (اور) بن سکتا ہے۔ سرکار چاہتی تو اِس مرکز ی مقام پر کوئی ایسا بڑا ادارہ قائم کرتی جس وجہ سے لوگوں کی آمدو رفت بدستور جاری رہتی اور بٹوت کا اپنا مقام بھی بحال رہتا۔ سرکار چاہتی تو بٹوت کے مقام پر ایک میڈیکل کالج بنا دیتی، یاکسی بڑے تعلیمی ادارے یعنی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جاتا جس وجہ سے یہاں کی متاثر کن تجارت بھی پھر سے بحال ہو جاتی۔بدحالی کا شکار تجارتی طبقہ پھر سے اْسی ڈگر پر آجاتا جس طرح ماضی میں تھا، یہاں کے ویران ہوٹل پھر سے آباد ہو جاتے ، یہاں کے بند ہوئے نجی تجارتی مراکز پھر سے کھل جاتے اور پھر سے لوگوں کو روزگار کے موقعے فراہم ہوتے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ سرکار نے بٹوت کو اپنے حال پر چھوڑ دیاہے ،بٹوت اب ویران پڑا ہے ، پریشان ہے یہاں کی آبادی ، یہاں کا وہ تجارتی طبقہ بے حد مایوسی کا شکار ہے جنھوں نے کرڑوں کے حساب سے روپے خرچ کر کے عالیشان ہوٹلزو ریسٹورنٹ تیار کئے ہیں لیکن اب وہ ہوٹل اور ریسٹورنٹ خالی پڑے ہیں۔حکومتی عدم توجہی کا شکار علاقہ بٹوت اب انتہائی بدحالی کا شکار ہو چکا ہے ،اس لئے سرکار کو چاہیے کہ بٹوت کی شان ِ رفتہ کو پھر سے بحال کرنے کیلئے بٹوت کے مقام پرکوئی بڑا ادارہ کھولا جائے جس سے خطہ چناب کے دور دراز علاقوں کو بھی فائدہ مل سکے۔