غزل

0
0

 

 

ثمرہ وحید، فیصل آباد

اس سے مل کر پوچھنا ہے مجھ کو
تم نے میرا ہجر گزارا کیسے

تیری سانسیں تھیں میری سانس سے
ان سانسوں کو تابوت میں ڈالا کیسے

تم میرے خوابوں کے بھی ہمسفر تھے
چلتے چلتے ہم نشیں اور رستہ نکالا کیسے

تم تو میرے دکھ درد کے جیون ساتھی تھے
میرے نالوں کے شور سے خود کو نکالا کیسے

میرے شہرِ دل کو ویرانہ بنا کر جاناں
اپنے دل کو تو نے رونق سے بھر ڈالا کیسے

ہم نے تو سب رواجوں سے بغاوت کی تھی
تو نے دنیا کی رسموں کو سنبھالا کیسے

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا