طاہر ندوی
جمشیدپور جھارکھنڈ
جب کسی فرد یا قوم کے اندر غیرت و حمیت ، شوق و جذبہ ، حب الوطنی ، وطن پرستی ، اپنے ملک کے لئے مر مٹنے اور قوم و ملت کی سلامتی کی خاطر خود کو قربان کر دینے کا جذبہ پیدا ہو جائے تو قید و بند کی صعوبتیں آسان ہو جاتی ہیں ، ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اور پیروں کی بیڑیاں اس کے ارادوں کو روک نہیں سکتی ، اس کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتی ، اس کی آواز کو دبا نہیں سکتی ۔
دنیا میں جب کبھی تانا شاہی حکمرانوں کے ذریعہ حق اور انصاف کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ، قوم و ملت کے حقوق کی پامالی کی ، ذات اور برادری اور رنگ و نسل کی بنیاد پر قانون سازی کی تو اس کے خلاف حق پرستوں کی ایک جماعت نے آواز بلند کی ہے اور حکومت وقت کو سچ کا آئینہ دکھایا ہے اور بسا اوقات اس کے بدلے میں ان جاں نثاروں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ، زندہ اس کی کھالیں اتر وائی گئیں ، سلاخوں کے پیچھے ہمیشہ ہمیش کے لئے ڈال دئے گئے لیکن اس جذبے کو پروان چڑھنے سے نہیں روک سکے ، اس آواز کو بلند ہونے سے نہیں روک سکے ۔
آج وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے ، حربے آزمائے جا رہے ہیں ، وہی تانا شاہی قائم کی جا رہی ہے ، لکھنے اور بولنے پر بندشیں لگائی جا رہی ہیں ، اظہارِ رائے پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں ، انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ، دستور و قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ، جمہوریت مخالف پالیسیاں نافذ ہو رہی ہیں ، مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کی جا رہی ہے ۔
آپ کو یاد ہوگا جب سی اے اے اور این آر سی کا بل پاس کیا گیا تو پورے ملک میں اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جانے لگیں ، کیا ہندو کیا مسلم کیا سکھ اور عیسائی سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر حکومت وقت کو سچ کا آئینہ دکھا نے لگے ، اس مشترکہ لڑائی کو دیکھ کر حکومت وقت کے پیروں سے زمین کھسکتی نظر آ رہی تھی ، اس کے خواب ٹوٹتے نظر آ رہے تھے ، اس کی محنت ضائع ہوتی نظر آ رہی تھی ۔
پھر بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوا ، احتجاج کرنے والوں کو غدار کہا گیا ، جذبات کو بھڑکانے والے نعرے لگائے گئے ، مذہبی منافرت کی آگ بھڑکائی گئی جس کے نتیجے میں دہلی فساد کا واقعہ سامنے آیا۔ اس فساد کے ذریعہ حکومت وقت اور دلی پولیس کا سنگھی چہرہ دیکھنے کو ملا ، یک طرفہ مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ، خاص کر وہ مسلم چہرے جو سی اے اے اور این آر سی کو لے کر احتجاج کر رہے تھے انہیں نشانہ بنایا گیا ۔ ایک طرف کورونا کی مہا ماری اور بلا منصوبہ لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا تو دوسری طرف خاص کر مسلم ایکٹیوٹیز کو دہلی فساد کا اصل مجرم بتا کر یو اے پی اے اور این ایس اے کے تحت جیلوں میں ڈالنے اور ظلم و زیادتی کا دور شروع ہوا ۔
آپ جانتے ہیں کہ ہمارے وہ نوجوان جو مستقبل میں ایک بہتر رہنما ، ایک بہتر قائد بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، قوم و ملت کی رہبری اور رہنمائی کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں آج وہ جیلوں میں بند ہیں ، قید خانوں میں پڑے ہیں ، ان پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ، انہیں ذہنی و جسمانی طور پر ٹارچر کیا جا رہا ہے ، انہوں نے صفورہ زرگر اور دیوانگنا کلینا کو قید میں رکھا ، ڈاکٹر کفیل خان کو اذیتیں دیں ، شرجیل امام ، شفاء الرحمن اور خالد سیفی سلاخوں کے پیچھے ڈال دئے گئے اور اب ان لوگوں نے عمر خالد کو بھی قید کر لیا ہے ۔
آخر ان کا جرم کیا تھا ؟ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے جمہوریت کی لڑائی لڑی ، دستور کو بچانے کی کوشش کی ، امن و آشتی ، پیار و محبت ، عدل و مساوات کی بات کی ، انصاف اور برابری کی بات کی، تانا شاہوں کی تانا شاہی ختم کرنے کی کوشش کی ، اس ملک میں آپ کے وجود کے بقا کی بات کی ، آپ کے حصے کی لڑائی لڑی ، آپ کی نسلوں کے حصّے کی لڑائی لڑی ، ذات اور برادری سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی فلاح و بہبودی کی بات کی تو ان کو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بتا کر گرفتار کر لیا گیا اور جس نے نفرت انگیز نعرے لگائے ، لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا ، مذہبی منافرت کی آگ لگائی ، دنگے کروائے ان کے خلاف ایک ایف آئی آر تک درج نہیں کیا گیا ۔
دی وائر کے ایک رپورٹر فرحان یحییٰ جو دہلی فساد کی رپورٹنگ کر رہے تھے وہ کہتے ہیں کہ کپل مشرا جس نے نارتھ ایسٹ کے ڈی سی پی جئے پرکاش سوریا کے سامنے کھلم کھلا دھمکی دی ، دہلی فساد میں راگنی تیواری جس نے ہر ہر مہادیو کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ اگر دھرم کے لئے ہِنسا بھی کرنا پڑا تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور جس نے کیمرے پر مارنے اور کاٹنے کی بات کی ، انوراگ ٹھاکر جس نے ایک منچ سے غداروں کو گولی مارنے کی بات کی ، مذہبی منافرت کی بات کی ، جذبات کو مجروح کرنے کی بات کی ۔
دہلی فساد کے اصل مجرم تو یہ لوگ تھے لیکن ان کے خلاف ایک ایف آئی آر تک درج نہیں ہوا اور جن کا کوئی قصور نہیں تھا ان کو گرفتار کیا گیا ، سی اے اے اور این آر سی کو لے کر جو احتجاج کر رہے تھے اور جو سر فہرست تھے ایسے لوگوں کو خاص کر نشانہ بنایا گیا تاکہ حکومت مخالف ہر آواز کو دبا دیا جائے ، ہر محاذ کو کمزور کر دیا جائے ، ڈرا اور دھمکا کر اور خاکی وردی کا خوف دکھا کر ان کے حوصلے کو پست کر دیا جائے ، ان کی وطن پرستی اور حب الوطنی کا گلا گھونٹ دیا جائے لیکن یہ جانتے نہیں ہیں کہ ابھی یہ امت بانجھ پن کا شکار نہیں ہوئی ہے ، وہ صفورہ زرگر ، ڈاکٹر کفیل خان ، شرجیل امام ، شفاء الرحمن ، خالد سیفی اور عمر خالد جیسے ہزاروں بچوں کو جنم دے سکتی ہے ، ہزاروں افراد تیار کر سکتی ہے ۔