طاہر ندوی
جمشید پور جھارکھنڈ
آغاز اسلام سے لے کر آج تک اسلام اور اہل اسلام کو جتنے نقصانات اور گزند منافقوں اور یہودیوں سے پہنچا ہے ، جس قدر اسلام کی شبیہ کو مجروح کرنے اور زخمی کرنے کی کوشش ؛ نام نہاد ، جبہ قبہ ، بظاہر اسلامی زرق برق لباسوں میں ملبوس ، چہرے پر سنت نبوی کے نقوش و تاثرات رکھنے والوں نے کی ہے اگر اس کا اندازہ لگایا جائے تو ایک بہت لمبی فہرست تیار ہو جائے گی ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مدینے میں منافقوں کا سردار کہلانے والا عبد اللہ بن ابئ بن سلول جس نے غزوہ احد میں عین جنگ کے موقع پر مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے تین سو ہم خیالوں کو لے کر علیحدگی اختیار کر لی تاکہ اسلام اور اہل اسلام کا خاتمہ ہو سکے ۔
اسی طرح ” جد بن شماس ” جس نے اوس و خزرج کے درمیان دشمنی پیدا کرنے اور قبائلی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے دونوں قبائل باہم دست و گریباں ہوگئے یہاں تک کہ اسلحے بھی نکال لئے لیکن بر وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا کہ ” میں تمہارے درمیان ابھی زندہ ہوں اور تم جاہلیت کی جنگ کرنے جا رہے ہو ” اس وعظ کے بعد دونوں قبیلے سمجھ گئے کہ یہ یہودیوں کی ناپاک سازش تھی بالآخر دونوں قبیلے بغل گیر ہوئے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ واپس لوٹ آئے ۔
دنیا میں بے شمار منافقین اور یہودی ذہنیت کے حامل لوگ پیدا ہوئے ، جنہوں نے ظاہراً اسلامی سانچے اور ڈھانچے میں ڈھل کر اسلام اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانے اور فریب دینے کی کوشش کی ہے جس میں سے ایک ” یہودی النسل مرد خائی بن ابراہیم بن موسیٰ ” تھا ، جس نے اپنی خون ریزی اور سفاکیت کا آغاز ایک ایسے انسان کے ساتھ کیا جس نے ” العارض ” ( موجودہ نام ریاض ہے ) میں اس کو پناہ دی تھی ، اس نے گھر کے تمام افراد کو اپنی سفاکیت کا نشانہ بنا کر اس کی جائیداد پر قابض ہوگیا ، پھر اس نے اپنے سب سے پرانے حریف قبیلہ ” القسیم ” کے ایک مذہبی رہنما ، مرد صالح ، تقویٰ اور پرہیز گاری کے پیکر ” شیخ صالح سلمان عبد اللہ التمیمی ” کو ایک منصوبے کے تحت قتل کروا دیا ۔
یہ وہی بھیڑیا نما شخص ہے جس کی نسل آگے چل کر آل سعود کہلائی ، جس کی فطرت میں اپنے محسنوں کا قتل ، جائداد پر ناجائز قبضہ ، عالم اسلام کے ساتھ غداری ، یہودی ذہنیت کے حامل اور اسلام پسند رہنماؤں اور حق گوئی و بے باکی کے پرستار علماء ، فقہاء ، صلحاء اور محدثین کا خون شامل ہے اور برسوں سے یہی فطرتِ خبیثہ آل سعود خاندان میں کار فرما ہے ۔
آل سعود کی اسلام دشمنی کی اگر بات کی جائے تو روح کانپنے لگتی ہے ، جسم و جاں میں کپکپاہٹ طاری ہو جاتی ہے ، آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں اور سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ اس خاندان نے کیسے دل کو دہلا دینے والے اور روح کو تڑپا دینے والے مظالم اسلام اور اہل اسلام پر ڈھائے ہیں اور کتنی مکاری اور عیاری سے اسلام کی بیخ کنی کی ہے ۔
آج جو کچھ خلیج فارس اور اس کے اردگرد ممالک میں امریکی سامراجی طاقتوں کے ذریعہ جو ظلم و ستم کا ننگا ناچ چل رہا ہے یہ اسی خاندان کی کارستانیاں ہیں ۔
عراق سے دشمنی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد عراق میں جمہوریت کا نظام پروان چڑھ رہا تھا جو سعودی شہریوں کے لئے ایک نمونہ بن سکتا تھا صرف اس وجہ سے سعودی ، اردن اور مصر نے مل کر فوجی کارروائیاں شروع کردی اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ایک خوبصورت ملک کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ، جب اس کی تحقیق کی گئی تو ڈھائی سو دہشت گردوں نے اس کا اعتراف کیا کہ ہمیں حملہ کرنے کے لئے ڈھائی سو ملین ڈالر سعودی حکومت کی جانب سے دئے گئے تھے ۔
اسی طرح یمن جو سب سے غریب ملک ہے ، پہلے قبضہ کیا اس کے بعد فرقہ پرست ملاؤں کے ذریعہ مسلکی جنگ چھیڑ کر فرقہ واریت کے بیج بوئے اور ملک کو تہس نہس کر دیا ۔
یہ آل سعود کی مسلمانوں سے دشمنی ہی تو تھی جب افریقی نژاد امریکی صدر ” بارک حسین اوباما ” کی امارات میں تشریف آوری ہوتی ہے عین اسی وقت یہ یہودی ذہنیت کے حامل اور جاہلانہ عصبیت کے پرستار نماز کا بہانہ بناکر چل دیتے ہیں لیکن جب کوئی یہودی یا عیسائی ان کے مہمان بنتے ہیں تو ان کے راستوں پر پھول بچھا دئے جاتے ہیں ، خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے اور ان کے تلوے چاٹنے سے بھی نہیں کتراتے ۔
یہ صہیو نائزیشن کا سلسلہ شاہ سلمان کے دور سے شروع ہوا جب اس نے اپنے چھوٹے بھائی مقرن بن عبد العزیز کو معزول کر کے اپنے بھتیجے محمد بن نائف کو ولی عہد بنایا پھر کچھ دنوں کے بعد اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کر دیا ، ولی عہد بنتے ہی اس نے ظالمانہ کاروائیاں اور اسلام مخالف پالیسیوں کو نافذ کرنا شروع کر دیا ، عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت دی ، برقعے کا لزوم ختم کر دیا ، بغیر برقعے کی عام اجازت دے دی ، رقص و سرود کی بڑی بڑی محفلیں قائم کی ، کھلم کھلا ناچ گانے کرنے والی عورتوں کو آباد کیا ، پارکوں میں بے حیائی اور بے شرمی کی عام اجازت دے دی ، سینیما گھروں کی تعمیر و ترقی میں اربوں روپے لگادئیے ، عیسائی اور یہودی سرمایہ داروں کے لئے کھربوں روپے کا سرمایہ بھی لگا رہے ہیں ، آئے دن ان کے لئے ترقی کے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں ، جگہ جگہ فحاشی اور عریانیت کو فروغ دینے کے لئے یہودی اور عیسائی عورتوں کو آباد کیا جا رہا ہے ، جزیرۃ العرب کی سیکورٹی نظام کو دشمنانِ اسلام کے سپرد کر دیا گیا ، اسرائیل کو مستقل جائز ریاست قبول کرنے کا عندیہ بھی ظاہر کر چکے ہیں ، معتدل اسلام کے نام پر اسلامی تعلیمات میں تحریف کرنے کی ناپاک یہودی سازشیں بھی نافذ کر چکے ہیں ۔
اور جس کسی نے بھی ان کے خلاف آواز اٹھائی ، علم بغاوت کو بلند کیا ، ان کی یہودی پالیسی کی تردید یا مخالفت کی ان کا انجام بڑا درد ناک رہا ۔
جب علامہ خالد الراشد نے ان کی پالیسی پر فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اقامہ کی فیس پانچ سو یا ایک ہزار کے بجائے نو ہزار ریال لینا حرام ہے تو ان ظالموں نے ان کی زبان کاٹ دی ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لئے جب کینیڈا نے ایک ٹویٹ کیا تو محمد بن سلمان نے سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دئیے ۔ جرمن وزیر خارجہ کی جانب سے 2017 میں یمن اور لبنان میں سعودی پالیسی پر تنقید کرنے کی وجہ سے اسی حکومت نے اپنے سفیر واپس بلا لئے ۔
تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ” جمال خاشقجی ” کو نہیں بھول سکتے کہ کیسے ان ظالموں نے ان کے جسم سے چمڑے ادھیڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دئے ۔
یہ دنیا عالم اسلام کے تین ربانی علماء کرام ” سلمان العودہ ، عوض القرنی ، ڈاکٹر علی العمری” کو فراموش نہیں کر سکتی جن کو ان ظالموں نے سلاخوں کے پیچھے ڈال رکھا ہے اور کسی بھی وقت ان کا سر قلم کیا جا سکتا ہے ۔
اسی طرح جزیرۃ العرب میں اسلام کی روحانی اور قرآنی نمائندگی کرنے والے ، مجاہدانہ صفات کے حامل ، ہزاروں علماء ، صلحاء ، مشائخ دین ، محدثین سلاخوں کے پیچھے روپوش کر دئے گئے ، جن کا جرم بس اتنا تھا کہ انہوں نے مجاہدین کی تائید کی ، فلسطینیوں کی حمایت اور ساتھ دینے کی بات کی ، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی بازیابی کی بات کی ، معتدل اسلام کے نام پر قرآن و سنت میں تحریف کرنے والوں کو سچ کا آئینہ دکھایا ، یہودی پالیسی کی مخالفت کی ، جزیرۃ العرب میں اسلامی نظام کی بات کی ، اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کی ، رقص و موسیقی اور سینیما گھروں کی مخالفت کی بات کی ، لیکن ان یہودی نسل پرستاروں نے وہ درد ناک سزائیں دیں کہ روحیں کانپنے لگتی ہیں اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، جس نے آواز بلند کی اس کی سانسیں چھین لی گئیں ، جس نے قلم اٹھایا اس کے ہاتھ کاٹ دئے گئے ، جس نے سر اٹھایا اس کے سر کو قلم کر دیا گیا ، جس نے مخالفت کی اس کو بند کمرے میں آگ لگا کر راکھ میں تبدیل کر دیا گیا پھر پانی ڈال کر راکھ کو بہا دیا گیا تاکہ نام و نشان تک باقی نہ رہے ۔
سعودی عرب کی جیلوں کے بارے میں مصر کے سیاسی رہنما ” محسن بہشتی” کا یہ کہنا کہ ” اس ملک کی جیلیں دنیا کی خوف ناک ترین جیلیں شمار ہوتی ہیں ” اور شاید اسی وجہ سے کہا ہوگا کہ جو انسانیت سوز معاملہ کیا جاتا ہے اور انسانی حقوق کو منظم طریقے سے پامال کیا جاتا ہے کہ اللہ کہ پناہ !!
یہ سارے مظالم بدستور آغاز سے اب تک جاری ہیں لیکن اسلام کے فروعی مسائل پر چیخ چیخ کر اپنے مسلک و مشرب کی تائید کرنے والے علماء ، منبر و محراب کی زینت کہلانے والے ائمہ ، اصلاحی جلسوں میں شعلہ بیانی کرنے والے خطباء ، دینی و ملی خدمات انجام دینے والے قائدین کی زبانیں آج خاموش ہیں ، ان کی فصاحت لسانی اور بلاغت زبانی کہاں چلی گئی ؟ آل سعود کی اسلام مخالف پالیسیوں کی مخالفت کیوں نہیں کرتے ؟ ظالم و جابر حکمرانوں کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے ؟ صہیونائزیشن کا کھیل کھیلنے والے کا احتساب کیوں نہیں کرتے ؟ انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں سے حقوق کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ؟ جزیرۃ العرب سے ان صیہونیوں اور انسان نما بھیڑیوں کا قلع قمع کیوں نہیں کرتے ؟ فلسطینی ریاست ، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی بازیابی کی صدائیں بلند کیوں نہیں کرتے ؟
یاد رکھیں اگر آپ نے صدائے احتجاج بلند نہیں کی ، وقت کے دجالوں سے جزیرۃ العرب کی حفاظت نہیں کی ، صہیونیت کے مکر و فریب سے حرمین شریفین کی پاسبانی ، عالم اسلام کی رہنمائی ، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی بازیابی کی فکر نہیں کی تو تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی ، مظلوموں کی فریاد و فغاں بروز قیامت آپ کا دامن گیر ہوگی !!!
قریب ہے یارو روزِ محشر ، چھپے گا کشتوں کا قتل کیوں کر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر ، لہو پکارے گا آستیں کا