محمداسد
ہردور ،ہر عہد،ہر زماں دیکھا
ہرگلی،ہر کوچہ ،ہر مکاں دیکھا
آہ نکلتی ہے دل سے میرے
جب مصیبت زدہ انساں دیکھا
سنبھل کہ رکھو قدم اپنا تم
ہر فرد گرانے میں کوشاں دیکھا
جنہیں ناز ہے خودپہ خود سے زیادہ
کیوں ہر لمحہ انہیں ہی گراں دیکھا
میں نے خود میں اسے پایا جب سے
پھر خود کو کبھی نہ پریشاں دیکھا
جو صاحب طاقت ہوا کرتے تھے
دم مرگ انہیں بھی ناتواں دیکھا
غرور گھمنڈ تکبر کی اوقات کیا
رفتہ رفتہ سب کا مٹتے نشاں دیکھا
شکل و شباہت سے نفرت ہے اس کی
اصلیت کو جب سے عیاں دیکھا
یہ سورج اپنی تپش دکھائے اسے اسد
جس نے نہ ہو حرارت کا سماں دیکھا
۔