غزل

0
0
غمِ حیات سے کیسے نجات پائینگے
فریب کھا کے کہاں تک یوں مسکرائینگے
تمہارا درد جو لفظوں میں کہ نہ پائینگے
ہمارے عشق تیری داستاں سنائینگے
تمہارے ساتھ تمہارے ستم اٹھاتے ہوئے
نہ جی سکے جو محبت میں مر ہی جائینگے
تو کھل اٹھیگا چمن اور بہار آئیگی
تمہارے زلف میں جب پھول ہم لگئینگے
تمام عمر اندھیروں سے جنگ کرتے ہوئے
ہم آسماں میں صفت چاند جگمگائیں گے
تم اپنی روح سے کہنا مجھے وہیں پہ ملے
جہاں نگار بدن سے نجات پائیںگے
 لؤ کانت سریواستو نگار براہ بنکوی

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا