— غزل-

0
0

 

مراد ساحل ۔
رکھا ہے جس کے درد بھی دل میں سنبھال کر
خوشیاں منا رہا ہے مصیبت میں ڈال کر

شدت کی پیاس میں بھی میں محتاط ہی رہا
دریا بھی دیکھتا رہا پانی اچھال کر

میں جنگ گردشوں سے اگر لڑ نہیں سکا
اے وقت شوق سے تو مجھے پائمال کر

گر تجھ کو جھانکنا ہے تو دامن میں اپنے جھانک
رسوا نہ کر نگاہ کو غیروں پہ ڈال کر

بچوں کو اپنے بھوک کی حالت میں دیکھ کر
برتن میں سنگ رکھے تھے ماں نے ابال کر

شہرت ملی ہے چند گھڑی کی فقط انہیں
کیا مل گیا ہے عیب ہمارے اچھال کر

مشکل گھڑی میں ساتھ دیا جس کا ہر قدم
خوش ہے وہ اپنی بزم سے ہم کو نکال کر

یہ مشورہ دیا ہے مجھے روح میر نے
ساحل غزل میں رکھ دے کلیجہ نکال کر ۔۔

۔۔۔۔ مراد ساحل ۔۔ دوحہ ۔ قطر۔۔۔۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا