ڈاکٹرعبد القادر فاروقی نے امریکہ میں اردو کے نقوش تلاش کر کے بحر زخار میں گھوڑے دوڑادئیے

0
0

 

نذیرؔ فتح پوری

ہندوستان سے معاشی سہولتوں کی فراہمی کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹراورکمپیوٹرکے ماہرین کثرت سے ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگ وہاں جاکر صرف روپیہ کماتے ہیں اوراپنا اوراپنے بچوں کا سنہرا مستقبل بنانے کی جہد مسلسل میں مستغرق ہوجاتے ہیں۔ یہ استغراق اتنا گہرا اور گمبھیر ہوتا ہے کہ ان ڈوبنے والوں کو ابھرنے کاموقع ہی نہیں ملتا۔
کرناٹک کے تاریخی شہر بیجاپور سے اپنے تعلیمی مدارج مکمل کرکے ڈاکٹرعبد القدیر فاروقی بھی ایک دن امریکہ کے لئے پرواز کرگئے ۔گھر چھوڑا۔گائوں چھوڑا۔قبیلہ چھوڑا۔ خاندان چھوڑا۔ دوستوں کی محفلیں اوراحباب کی اہم جلیسی سے محروم ہوئے اورامریکہ کے معاشی دریا میں اُتر گئے۔ موجوں سے الجھے ،طوفان سے مقابلہ کیا۔مخالف ہوائوں سے نبرد آزما ہوئے اورحالات کااندازہ لگاکرایک دن اپنی کشتی کو دھیرے سے ادب کے جزیزوں کی طرف موڑدیا۔ ادب اور وہ بھی اردو ادب۔امریکہ میںاردو ،امریکہ میں اردو تہذیب و تمدن کی تلاش ،امریکہ میں اردو صحافت کی صورت حال، امریکہ میں اردو صحافیوں کی کالم نگاری، امریکہ میںاردو شاعروں کی تخلیقی خدمات ،امریکہ میں اردو افسانے کی صورت حال،ان موضوعات پر سوچنا، ان عنوانات کو اپنی تلاش کاموضوع بنانا، امریکہ میں گلزار ادب کے پھول کھلانا،امریکہ میں اردو ادب کے میناروں کی تعمیر کرنا،امریکی سورج سے انوار اردو کی کرنیں سمیٹ کر صفحہ قرطاس کومنور کرنا۔ یہ دیوانے کاخواب تھا۔ صحرا میں پانی کی بوندوں کی تلاش تھی۔ آسمان کی بلندی پراُڑتے پرندوں کے پر گننے کے مترادف تھا۔ ہوائوں کو قیدکرنے کی دیوانگی جیسا کوئی عمل تھا۔لیکن بقول اقبال
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
لیکن فاروقی صاحب نے اپنے تعمیری جذبے کو بروئے کار لاکر اپنے لیے جنت کے راستے کاانتخاب کیا۔ پھول چُنے اورکانٹوں کوکنارے کیا۔ ان کاتصور روشنی سے جگ مگ جگ مگ کررہا تھا۔ صالح فکر ان کی ہم رکاب تھی۔ تصوف کے احساس کی برکتوں نے انہیں اپنے حصار میں لے رکھاتھا۔ اس لیے یہ مسافر بے خوف اپنے منتخب کردہ راستے پر چل پڑا۔اور اپنی سوچ کو کیمرہ بناکر پوشیدہ مناظر کی تصوریں اتارنے لگا۔ بے چہرہ آئینے کو چہرے فراہم کرنے لگا۔ اس کا خون جلتا رہا لیکن یہ آگے بڑھتا رہا۔ یہ اس کے قلم کااعجاز تھا کہ اسے اپنے مقصد میں کامیابی ملی جہاں قدم رکھا ۔سرخ روہوا۔ جس محفل میں قدم رنجہ ہوا مسند پر بٹھایاگیا ،جس مجلس میں مدعو کیا گیا محبت کے پھولوں سے نوازا گیا۔ امریکہ کے ارادو اخبارات میں اس کے قلم کاطوطی بولنے لگا۔ ہندوستان اور پاکستان کے اخبارات نے اس کی نگارشات کی اشاعت کے لیے اپنے اوراق بچھا دئیے۔
حرف میں بڑی طاقت ہے، حرف جب تلوار بن جاتا ہے تو حریفوں کے ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ حرف جب پھول بن جاتا ہے تو زندگی گلزار ہو جاتی ہے اس راز کوعبد القادر فاروقی نے بخوبی سمجھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے حرف کو پھول بنایا ہے اوراپنے دبستان فکر کو ایسے ہی پھولوں کی خوشبوئوں سے مہکایا ہے۔
امریکہ میں اردو کے نقوش تلاش کر کے آپ نے بحر زخار میں گھوڑے دوڑادئیے، اندھیروں میں چراغ جلادئیے، سناٹوں کو زبان عطا کردی،بے جان تصویروں کو بولنا سکھا دیا اور بے رنگ منظروں میں رنگ بھر دئیے۔ اس لیے ؎
آپ کی کوششوں کادل سے احترام
آپ کی اردو سے محبت کے جذبے کوہمارا سلام
فاروقی کی ادبی خدمات کااحاطہ کرنے کے لیے یہ مختصر سی کتاب کم ہے تاہم غنیمت ہے،چیدہ چیدہی سہی ہم نے ان صفحات کے ذریعہ فاروقی کی چندکتابوں پراظہار خیال ہے،اوران کے ادبی کاموں پر ایک طائرانہ نظرڈالنے کی کاوش کی ہے۰۰۰

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا