قبائلی لڑکیوں کے لئے اعلی تعلیم آج بھی ایک خواب ہے

0
0

تھنلس نوربو
لیہ،لداخ

مرکز کے زیر انتظام نو تشکیل شدہ علاقہ لداخ کے چانگتھن خطے کو دنیا میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں لداخ اگرچہ اپنے سرد صحرائی خصوصیات کی وجہ ہے گھریلو سیاحوں کا ترجیحی منزل بن گیا ہے لیکن چانگتھن ابھی بھی سیاحوں کی بھیڑ سے کوسوں دور ہے۔ یہ علاقہ پاشمینہ بھیڑوں،جن سے بننے والے اون دنیا بھر میں مشہور ہیں، کا ایک قدرتی مسکن ہے۔ اس بلند ترین علاقے میں سکونت پذیر خانہ بدوش قبیلہ چانگپا کی طرز زندگی کو سمجھنے کے لیے ماحولیات، تعلیم اور صحافت کے میدان کے بہت سے ماہرین آتے ہیں۔ اپنے ماحولیاتی نظام کے ساتھ مکمل بقائے باہمی میں رہتے ہوئے اس قبیلے نے بدلتے ہوئے ماحول کے ساتھ ساتھ متعدد تبدیلیاں بھی برداشت کیں ہیں۔

سڑکوں کی تعمیر نے ترقی اور جدیدیت کے دروازے کھولے تو اس خطے میں متعدد تبدیلیاں رونماں ہوئیں۔ گذشتہ دس بارہ سالوں میں ہوئی تبدیلوں میں سے ایک اہم تبدیلی چنگپاس قبیلے کے لوگوں کی تعلیم تک رسائی بھی ہے۔ حالانکہ تعلیم کی آمد اور اس کا چانگپاس کے روایتی طرز زندگی سے مطابقت آج بھی موضوع بحث ہے لیکن یہاں اس قبیلے سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے تعلیمی سفر اور معیاری تعلیم حاصل کرنے کے دوران انھیں پیش آنے والے مسائل کو اجاگر کریں گے۔ فی الحال، چانگتھن میں لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہے۔ لداخی برادری مردوں وخواتین دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے اور انہیں مساوی مواقع فراہم کرنے کے حامی تصور کیے جاتے ہیں۔

چانگتھن کے عوام کا مطالبہ تھا کہ ان کے علاقے میں لڑکیوں کے لئے اسکول بنایا جائے۔ ان کے مطالبے کو قبول کرتے ہوئے حکومت نے 21 اپریل، 2008 کو کستوربا گاندھی بالیکہ نامی ایک اسکول قائم کیا۔ ہاسٹل میں قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والی مختلف علاقوں کی ایسی تمام لڑکیاں رہائش پذیر ہوتی ہیں جن کا وہاں سے روزانہ اپنے گھروں تک پہونچنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں کی عدم موجودگی میں رہائشی سہولیات والا یہ سیکنڈری اسکول تعلیم حاصل کرنے والی تمام لڑکیوں کے لئے واحد مرکز ہے۔یوں تو کستوربا گاندھی بالیکہ اسکول کے بنیادی مقاصد میں دیہی لڑکیوں کی تعلیم میں زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانا، پسماندہ گروپوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے تعلیم تک رسائی کو آسان بنانا، تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا اور لڑکیوں کو با اختیار بنانے کے لیے معیاری تعلیم اور ان کے درمیان مطابقت پیدا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

تاہم، چونکہ یہ اسکول صرف دسویں کلاس تک ہی لڑکیوں کی مدد کرسکتا ہے لہذامزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں کی لڑکیاں دوسرے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اور یہیں سے، باہری دنیا کے ساتھ ان کے جدوجہد کے سفرکا آغاز ہوتاہے۔ہائر سیکنڈری اسکول اور گریجویشن کالج لیہ شہر میں موجود ہیں لیکن یہاں گاؤں سے کہیں زیادہ بھیڑ ہوتی ہے اور لوگ بالکل مختلف طرز زندگی گزارتے ہیں۔اس لیے چانگتھن کے علاقے سے آنے والی طالبات کو یہاں کے شہری ماحول میں اپنے آپ کو ڈھالنا کافی مشکل ہوتاہے۔ کرایے کے مکان میں رہنا، کھانا پکانااور نئے ماحول سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے تعلیمی مقاصد کو پورا کرنا وغیرہ گاؤں کی ان کے لیے بہت سی دشواریاں پیداہ کر دیتی ہیں جس کی وجہ بہت ساری لڑکیاں ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

سرکاری اسکولوں میں بارہویں جماعت تک کی تعلیم اب بھی سستی ہے لیکن کالج اتنے مہنگے ہیں کہ ہر کوئی اپنے بچوں کو ان اعلی تعلیمی اداروں میں بھیجنے کا متحمل نہیں ہے۔ لیہ میں ایلیزر جولڈن میموریل (ای جے ایم) کالج لداخی طلباء کے لیے ترجیحی پسند ہے۔ تاہم، موٹی فیس کی وجہ سے بہت سے طلباء کو اعلی تعلیم سے محروم ہو ناپڑتاہے۔ ای جے ایم کالج کی طالبہ ٹزرنگ ڈولکر (تبدیل شدہ نام) اظہار خیال کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ”کالج کی مہنگی فیس، کرایے اور ہاسٹل وغیرہ کی فیس کی وجہ سے ہی چانگتھن کے بہت سے طلباء اپنی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں اور شہر میں کام کرکے پیسہ کمانے لگتے ہیں۔ ناقابل برداشت فیس اور دیگر متعلقہ اخراجات ہی وہ بڑی وجوہات ہیں جن کے چلتے طلباء دسویں جماعت کے بعد تعلیم چھوڑدیتے ہیں۔”ای جے ایم کالج میں ہی زیرتعلیم اسٹینزین انگو نامی فائینل ائیرکی ایک اسٹوڈنٹ ہاسٹل کی ناقص سہولیات سے متعلق اپنے خیالات کو پیش کرتے ہوئے بڑی مایوسی کے ساتھ کہتی ہیں کہ "کالج میں ہاسٹل کی مناسب سہولیات کا فقدان واقعتا ان تمام طالبات کو متاثر کرتا ہے جو چانگتھن سے یہاں تک مختلف قسم کے چیلنجوں سے گزرنے کے بعد پہونچتی ہیں۔ مناسب سہولیات کی عدم موجودگی میں طالبات کرایے کے مکان میں رہنے پر مجبور ہوتی ہیں، جس سے پڑھائی کے لیے پْر امن ماحول میسرنہیں ہوتا۔ بہت ساری طالبات اس طرح کی صورتحال سے بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور بالآخر وہ کالج چھوڑ دیتی ہیں۔”

اسی کالج میں زیر تعلیم گریجویشن سال دوم کی طالبہ ٹزرنگ تسمو کا ماننا ہے کہ جن طالبات نے اسکول کے دنوں میں ہاسٹل میں زیادہ وقت گزاریہیں انھیں بھی یہاں ملنے والی نئی آزادی اور ذمہ داری کو نبھاتے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ خلفشار میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور بہت جلد ہی ان کی تعلیم متاثر ہو نے لگتی ہے۔ طالبات کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی کے مقاصد پر دھیان دیں تاکہ وہ ایک بہتر مستقبل بنانے میں کامیاب ہوسکیں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2010 سے 2015 کے دوران چانگتھن سے صرف 124 طالبات ہی سینئر سیکینڈری کی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ ان میں سے27فیصد یعنی صرف 33 لڑکیاں ہی ان پانچ سالوں میں گریجویشن ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔اس اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چانگتھن میں موجودہ تعلیمی انفراسٹریکچر کس قدر نازک ہے۔ یہاں دستیاب سہولیات میں کچھ طالبات جدوجہد کرکے اسکول تک کی تعلیم تو کسی طرح حاصل کر لیتی ہیں لیکن کالج میں داخل ہوتے ہیں اکثر تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ انتظامیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے نمٹنے میں چانگتھن کے عوام کی مدد کرے۔ اس دور رس علاقے سے تعلق رکھنے والی قبائلی طالبات کو باضابطہ تعلیم کے حصول کے لئے اچھی رہنمائی، مناسب تعاون اور بہتر سہولیات کی ضرورت ہے۔ اعلی تعلیمی اداروں میں ان قبائلی برادری کی لڑکیوں کی شمولیت اور ان کی شرح کو برقرار رکھنے کے لئے باضابطہ پالیسی بنانے اور ان پرعمل کرنے کی ضرورت ہے۔(یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2019 کے تحت لکھی گئی ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا